ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
منطق‘ دلیل اور مہنگائی!
جیسا کہ ہر بات کی کوئی نہ کوئی تمہید ہوتی ہے بالکل اِسی طرح ’’مہنگائی‘‘ کا براہ راست تعلق (تعارف) ’پیٹرولیم مصنوعات‘ کی قیمتیں ہیں‘ جن میں معمولی ردوبدل کا روزمرہ اشیاء پر کئی سو گنا اثر ہوتا ہے تو جہاں ’فی لیٹر‘ پیسوں کا اضافہ بھی ناقابل برداشت حدوں کو چھوئے‘ وہاں اگر روپوں میں قیمتیں بڑھیں تو صورتحال کی سنگینی کا اَندازہ لگانا قطعی مشکل نہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ عدالت عظمیٰ (سپرئم کورٹ) اور احتساب مقدمات کا سامنا کرنے والی وفاقی حکمراں جماعت نے عوام کے صبر کا ’کڑے امتحان‘ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایک ماہ قبل (تیس ستمبر) وزارت خزانہ کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق پیٹرول اُور ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمتوں میں ’دو روپے فی لیٹر‘ اضافہ کیا گیا اور چند ہفتوں بعد اکتیس اکتوبر کے دن یہ اعلان سامنے آیا کہ ’’آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اِتھارٹی (اُوگرا)‘‘ کی جانب سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ’پانچ روپے اُنیس پیسے‘ تک اضافہ کرنے کی سفارش کو منظور کر لیا گیا‘ جس کے بعد ’مٹی کے تیل (کیروسین آئل) جیسی اُس بنیادی ضرورت کی قیمت بھی ’’چار روپے فی لیٹر‘‘ بڑھ گئی ہے‘ جس سے غریبوں کے گھر کا چولہا جلتا ہے! اسی طرح اشیائے خوردونوش کی نقل حمل میں اِستعمال ہونے والا ایندھن ’’لائٹ ڈیزل‘‘دو روپے فی لیٹر مہنگا کرنے سے بنیادی ضروریات کی ہر شے مہنگی ہو جائے گی! تصور کیجئے ایک طرف ہمارے حکمران ہیں کہ جن کی بیماریوں کا علاج بیرون ملک ہوتا ہے۔ جس عمر میں پاکستانیوں کے بچے اپنا نام نہیں لکھ سکتے اُس میں حکمراں خاندانوں کی اُولادیں بیرون ملک اربوں کھربوں روپے کے اثاثہ جات کی مالک بن جاتی ہے۔ ایک طرف غربت ہے جو‘ ہر گھڑی بڑھ رہی ہے اور دوسری طرف سرمایہ دار ہیں جن کے اثاثہ جات میں ہر دن اضافہ ہو رہا ہے اور انہیں پاکستان میں مہنگائی کی شرح تو کیا یہاں بنیادی سہولیات کے فقدان سے بھی کوئی غرض نہیں!
پیٹرولیم مصنوعات میں قیمتوں کا منفی اثر ملک کی مجموعی قومی خام پیداوار (جی ڈی پی) پر نمایاں دیکھا جا سکتا ہے جبکہ توانائی کی کمی سے پیدا ہونے والا بحران اپنی جگہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے مسلسل انکار سے قومی اقتصادی ترقی کی رفتار متاثر ہو رہی ہیں۔
رواں ہفتے پاکستان میں تعینات جمہوری اسلامی ایران کے سفیر مہدی ہنردوست نے ’ہنرمندی سے زیادہ دانشمندی سے کام لیتے ہوئے‘ قومی اسمبلی کے سپیکر ایاز صادق اور اسلام آباد ایوانہائے صنعت و تجارت کے اراکین سے ملاقاتوں میں مؤقف دہرایا کہ ’’اگر پاکستان چاہے اور معاہدہ کرے تو ایران پاکستان کو فوری طور پر ’’ایک ہزار سے تین ہزار میگاواٹ‘‘ (سستی) بجلی فراہم کرنے کے لئے تیار ہے۔ ایران کا گیس پائپ لائن منصوبہ پاکستان کے توانائی بحران پر قابو پانے کا فوری حل ہے‘‘ لیکن ہمارے حکمران ’میڈ اِن ایران‘ حسب ضرورت بجلی خریدنے کے لئے بھی تیار نہیں کیونکہ ایسا کرنے سے امریکی صدر ٹرمپ کے ماتھے پر شکنیں نمودار ہو سکتی ہیں جو پہلے دھمکیاں دے رہے ہیں! پاکستان توانائی کے بحران میں اِس قدر شدت سے مبتلا ہوا کہ اس سے نکلنے کے لئے اب تک زبانی کلامی ہی کوشاں ہے۔
حکمراں جانتے ہیں کہ توانائی کے بغیر صنعتی ترقی کا خواب کبھی پورا نہیں ہوگا‘ لیکن وہ صنعتی ترقی کے بارے بلندبانگ دعوے کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے! توانائی میں گیس اُور بجلی کو یکساں اِہمیت حاصل ہے اور یہ دونوں ضرورتیں بردار ہمسایہ ملک سے پوری ہو سکتی ہیں۔ پٹرولیم کی شکل میں ایندھن کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ پٹرول اور گیس کے پاکستان میں ذخائر ضرور موجودہیں جو ضروریات سے کم ہیں۔ ذخائر کو دریافت کرنے کی ہمارے پاس مہارت بین الاقوامی سطح کی نہیں۔ یوں ہم اپنے ہی وسائل سے پوری طرح مستفید نہیں ہو سکے جبکہ توانائی کا بحران سرمایہ کاری کے راستے میں دہشت گردی ہی کی طرح رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ بجلی کی پیداوار میں نسبتاً اضافہ ہوا ہے مگر اب بھی ضرورت کے مطابق نہیں ہے۔ ایسے میں ایران کی بجلی کی فراہمی کی پیشکش پر غور کیا جا سکتا ہے۔ ایران اور پاکستان کے مابین گیس پائپ لائن کا معاہدہ موجود اپنی جگہ اور سردخانے میں پڑا ہوا ہے۔
ایران نے اپنی طرف سے کروڑوں ڈالر کی لاگت سے گیس پائپ لائن بچھا دی ہے تاہم امریکہ کے دباؤ پر اس معاہدے کی تکمیل سے بھی گریزاں ہیں۔
امریکہ نے ایران پر عائد پابندیاں اُٹھا لیں۔ اس کے اربوں ڈالر کے اثاثے واگزار کر دیئے مگر ہم ایران کے ساتھ معاہدوں کی تکمیل سے قاصر رہے۔ پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ پاکستان کے وسیع تر مفاد میں آج بھی ہے لیکن اگر اِس وسیع ترمفاد (ضرورت) کو (قومی ضرورت کے تناظر میں) سمجھا جائے مگر ایران سے بجلی و گیس اور سستے داموں پیٹرولیم مصنوعات درآمد کرنے کو پس پشت ڈال کر’’تاپی منصوبے‘‘ کی تکمیل جیسے سراب میں حقیقت تلاش کی جا رہی ہے۔ تاجکستان‘ افغانستان‘ پاکستان‘ بھارت ’’تاپی منصوبے‘‘ کا حصہ ہیں اور جہاں بھارت ہوگا‘ وہاں پاکستان کے لئے خیرخواہی کی توقع کرنا ہی گمراہی ہے۔ امن و امان اور بھارت دوستی میں آخری حد تک جانے والے افغانستان کے مخدوش داخلی حالات کی وجہ سے ’’تاپی پائپ لائن منصوبہ‘‘ کبھی بھی محفوظ نہیں ہوگا تو کسی ایسے منصوبے میں کیونکر اُمیدوں اور توقعات کی بھی سرمایہ کاری کرکے خود کو دھوکہ دیا جارہا ہے جو عملاً ممکن ہی نہیں۔ ہم سب دل سے جانتے ہیں کہ افغانستان سے گزرنے والی ’’تاپی پائپ لائن‘‘ کبھی محفوظ نہیں رہ سکے گی اور پھر بھارت کا اس منصوبے میں شامل ہونا منصوبے کے ناقابل عمل ہونے کی بڑی دلیل ہے۔ پاکستان کی بہتری اور فوری طورپر توانائی ضروریات ایران کے ساتھ ’’گیس پائپ لائن معاہدے‘‘ کو بلاتاخیر انجام تک پہنچانا ہے اور جہاں ایران کی جانب سے سستی بجلی کی فراہمی کی پیشکش کی جا رہی ہے تو ایسی کسی پیشکش سے فائدہ کیوں نہیں اٹھایا جا رہا؟ ایسا صرف اُسی صورت ممکن ہے جب ہماری داخلہ اور خارجی پالیسیاں قومی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے مرتب کی جائیں اور ایسا کرنا صرف مشکل نہیں بلکہ ایک ایسی حکومت کے لئے ناممکن ہے جو عدالتوں میں بدعنوانی کے ’پے در پے‘ الزامات کا سامنا کر رہی ہو۔
قوم کو آخر کس بات کی سزا دی جارہی ہے کہ ایک حکمراں خاندان کے مشکوک ذرائع آمدنی اُور اثاثہ جات کی ملکیت ثابت کرنے کو سیاسی انتقام اور سازش بنا دیا گیا ہے۔ کیا جمہوریت ایک ایسے نظام کو کہتے ہیں جس میں ایک مرتبہ منتخب ہونے والے عوام کے نمائندے تاحیات قانون سے بالاتر تصور کئے جائیں؟ اگر احتساب کے قوانین اور قواعد کا اطلاق عام آدمی پر ہوتا ہے تو اِس سے حکمراں جماعت کے اَراکین کیسے (کس اَصول و منطق کی بنیاد پر) مستثنیٰ قرار دیئے جا سکتے ہیں!؟
۔
No comments:
Post a Comment