ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
پتھر دل رویئے!
جنوب مشرق اِیشیاء کا قدیم ترین زندہ تاریخی شہر ’پشاور‘ صرف خطے ہی کا نہیں بلکہ دنیا کا ’’سرتاج شہر‘‘ ہے۔ نامساعد حالات کے باوجود بھی ’قیمتی و نیم قیمتی پتھروں کی عالمی مارکیٹ‘ پر ’’پشاور کی حکمرانی (راج)‘‘ قائم و دائم ہے اُور اِس مرکزی حیثیت کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ درۂ خیبر سے کوہ ہندوکش تا کشمیر پھیلا وسیع پہاڑی سلسلہ معدنی وسائل بشمول قیمتی پتھروں سے مالا مال ہے اور تاحال اِن ذخائر کے ’’ایک فیصد‘‘ سے بھی کم حصے کی کھوج ممکن ہوئی ہے۔ ہمارے ہاں ایسے قیمتی و نایاب پتھر بھی ہیں جو پوری دنیا میں صرف اور صرف یہیں سے ملتے ہیں‘ جیسا کہ ضلع مردان کے گاؤں کاٹلنگ سے نکلنے والا ’’گلابی پکھراج‘‘ دنیا میں اُور کہیں نہیں پایا جاتا لیکن چونکہ اِس علاقے میں آبادی کان کے قریب ہے‘ اِس لئے کھوج کا عمل روک دیا گیا ہے یا چھوٹے غیرصنعتی پیمانے پر جاری ہے اور اِس میں غیرقانونی کان کنی کے امکان کو بھی رد نہیں کیا جاسکتا۔ سوات کا زمرد اور ہنزہ سے نکلنے والا یاقوت بھی پوری دنیا میں الگ حیثیت (پہچان) رکھتے ہیں۔ ’ہمالیہ‘ سے ’روف آف دِی ورلڈ‘ کہلانے والے سکردو (گلگت بلتستان) تک پھیلے قدرتی پتھروں کے ذخائر پوشیدہ ہیں‘ جو ازخود ظاہر نہیں ہوں گے۔
معروف گالفر اور تین دہائیوں سے ملکی و عالمی سطح پر قیمتی پتھروں کی نمائشوں میں پاکستان کی نمائندگی کا اعزاز رکھنے والے سترسالہ ’’سیّد جمال الحسنین گیلانی المعروف جان آغا‘‘ اُن ’’پانچ وجوہات‘‘ کا بطورخاص ذکر کرتے ہیں جس کی بناء پر ’پشاور میں مرکز‘ رکھنے والا قیمتی و نیم قیمتی پتھروں کا‘ کاروبار بڑے پیمانے (کمرشل سطح پر) خاطرخواہ ترقی سے محروم ہے۔ 1: غیرسائنسی بنیادوں اور چوری چھپے کان کنی کے رائج طریقے‘ جن سے پتھروں کی بڑی مقدار ضائع ہو جاتی ہے۔ 2: قیمتی پتھروں کی جدید طریقوں سے تراش خراش (ویلیو ایڈیشن) نہ ہونے کی وجہ سے خام مال کم قیمت پر بیرون ملک فروخت کرنا پڑ رہا ہے۔ 3: قیمتی پتھروں کی حکومتی سرپرستی میں بڑے پیمانے پر مارکیٹنگ نہیں کی جاتی‘ جو قیمتی زرمبادلہ کمانے (حاصل کرنے) کا آسان ذریعہ ہے۔ 4: قیمتی پتھروں کے ذخائر کی کھوج‘ حفاظت و ترقی‘ اِن کے بارے علوم‘ تربیت اور اِس صنعت کو سیاحتی نکتۂ نظر سے توجہ نہیں دی جارہی اور 5: امن و امان (سیکورٹی) کی خراب صورتحال کی وجہ سے نہ صرف قیمتی پتھروں کی کھوج اور اُن تک رسائی آسان نہیں بلکہ اِس کاروبار پر منڈلاتے اغوأ اور بھتہ خوری جیسے خطرات کی وجہ سے سرمایہ کار کنارہ کش ہو چکے ہیں یا انہوں نے اپنی سرگرمیاں محدود (خفیہ) کر رکھی ہیں جس سے قومی خزانے کو اربوں کا نقصان ہو رہا ہے اور غیرقانونی کان کنی سے لیکر اس کی اندرون و بیرون ملک فروخت تک چور راستے اختیار کرنے والوں کی بھی کمی نہیں‘ جو حالات کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
’’جان آغا‘‘ پشاور کی سرتاج‘ روحانی علمی گھرانے (سلسلہ قادریہ حسنیہ) کے چشم و چراغ اور پیرطریقت سیّد محمد امیر شاہ قادری گیلانی (مولوی جی) رحمۃ اللہ علیہ کے ہونہار فرزند ہیں‘ جنہیں گردوپیش کے مطالعے‘ قدرت کی عطاکردہ نعمتوں اور اِن کی وسعتوں پر مسلسل غوروفکر نے ’قیمتی پتھروں کی رنگین دنیا‘ سے روشناس کیا تو وہ آگے بڑھتے چلے گئے اور ’’آل پاکستان کمرشل ایکسپورٹرز فار پریشیس اینڈ سیمی پریشیس اسٹونز‘‘ کے چیئرمین (2003-04ء) کے علاؤہ ’بیس برس‘ تک لگاتار امریکہ میں ہونے والی قیمتی پتھروں کی سالانہ نمائش میں پاکستان کی نمائندگی کا منفرد اعزاز بھی رکھتے ہیں۔
جان آغا کا کہنا ہے کہ ’’قیمتی پتھروں جیسی نعمت خداوندی سے پتھر بن کر استفادہ ممکن نہیں۔ سب سے پہلے تو ہمارے حکمرانوں کو احساس کرنا ہوگا کہ اگر وہ اِن ذخائر کو ترقی دیں تو اِس سے پاکستان کی تمام اقتصادی پریشانیاں اور اندرونی و بیرونی قرضہ جات ختم ہو سکتے ہیں۔ پاکستان میں ایسے نایاب پتھر بھی پائے جاتے ہیں جو حال ہی میں دریافت ہوئے اور یہ ہیروں کی طرح یکساں قیمتی اور عالمی مارکیٹ میں مانگ رکھتے ہیں جیسا کہ پشاور سے صرف تیس کلومیٹر کے فاصلے پر ’’ملاگوری (خیبرایجنسی)‘‘ کا علاقہ‘ جہاں سے نکلنے والا نایاب ’’بیسناسائٹ (Bastnaesite)‘‘ نامی پتھر ہے ’’ریئر اَرتھ سٹون‘‘ کہلاتا ہے‘ جسے ’’سائنسی بنیادوں پر کھوجنے‘ ویلیو اِیڈیشن اُور مارکیٹنگ‘‘ کے لاتعداد اِمکانات موجود ہیں لیکن قومی وسائل اور معدنیات کو ترقی دینے جیسی سوچ کی کمی ہے۔ ہم ایک قوم نہیں بلکہ نسلی اور لسانی گروہوں میں تقسیم در تقسیم ہیں اور عوام کی نمائندہ کہلانے والی حکومتوں کو بھی پاکستان کے وجود اور اِس نعمت کا کماحقہ احساس نہیں۔
لاجورد (Lapis)‘مختلف رنگوں میں طورمالین جس میں زیادہ قیمتی سبز رنگ والی قسم (Tourmaline)‘ زردی مائل زبرجد‘ بشب سبز (Peridot)‘ زمرد (Emerald)‘ پکھراج (Topaz)‘ ارغوانی رنگت والا لعل یاقوت رمانی‘ احمر (Ruby)‘ اور گلابی رنگت والا ایپاٹائٹ (apatite) صرف چند ایک قیمتی و نیم قیمتی پتھروں کے نام نہیں بلکہ ایسے درجنوں پتھروں (وسائل) کی فہرست کا حصہ ہیں جو پاکستان کی اقتصادی ترقی اور خوشحالی کا ذریعہ (وسیلہ) بن سکتے ہیں۔
پشاور ایک مرکز ہے اور صرف پورے خیبرپختونخوا ہی سے نہیں بلکہ صدیوں سے افغانستان سے بھی قیمتی و نیم قیمتی پتھر یہاں لائے جاتے ہیں لیکن حکومت کی جانب سے ایسی کوئی بھی منڈی اور کاروباری سہولیات فراہم نہیں کی گئیں جو اِس قدیمی کاروبار کو جدید خطوط پر استوار کر سکے اور اِس کاروبار سے جڑے افراد جو ملک کو زرمبادلہ فراہم کرتے ہیں‘ جو ٹیکس ادا کرتے ہیں اور جنہوں نے ہزاروں کی تعداد میں روزگار مہیا کر رکھا ہے‘ اُنہیں تحفظ کا احساس ہو۔ افسوس کہ سیاسی شخصیات کو تو ’مسلح محافظ (گارڈ)‘ دیئے جاتے ہیں‘ لیکن ملک و قوم کے لئے عملاً مفید‘ کاروباری شخصیات کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔
قیمتی و نیم قیمتی پتھروں کا کاروبار ترقی کر سکتا ہے اگر اِس کی سرپرستی اور تحفظ فراہم کیاجائے۔ ملکی سطح پر قیمتی پتھروں اور معدنیات کے ’90فیصد ذخائر‘ خیبرپختونخوا میں ہیں لیکن یہ خوش قسمتی متعلقہ شعبے میں ’’مزید علمی و فنی تحقیق‘‘ کی متقاضی ہے۔ اگر مقامی سطح پر پتھروں کی کھوج کرنے والوں کو مراعات دی جائیں تو امن و امان کا مسئلہ بھی باآسانی حل کیا جاسکتا ہے۔ قدرت کا قانون یہ ہے کہ بناء خواہش و طلب (دُعا اُور کوشش) کچھ نہیں ملتا۔ ترقی کی راہیں دریافت کرنے کے لئے سیاحت (سعی) لازم ہے لیکن ایسی کسی بھی مشقت کے لئے ہمارے اُن سیاسی و غیرسیاسی فیصلہ سازوں کو فرصت نہیں! جن کی توجہ بیرون ملک اثاثہ جات اُور پاکستان پر سیاسی حکمرانی (تسلط) برقرار‘ رکھنے کی حد تک محدود ہیں!
۔
No comments:
Post a Comment