ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
’تجدید عہد‘ کا دن!
برس ہا برس سے معمول ہے کہ ۔۔۔ عالم اِسلام اُور پاکستان کے دیگر صوبوں کی طرح خیبرپختونخوا کے صدر مقام ’پشاور‘ میں بھی ’ماہ ربیع الثانی‘ کی ’گیارہ تاریخ‘ بطور ’’گیارہویں شریف‘‘ شریف پورے اہتمام اور مذہبی جوش و جذبے سے منائی جاتی ہے۔ پشاور میں اِن ایام کی مناسبت سے خصوصی محافل (ختم غوثیہ) اُور لنگر (نذر و نیاز) کا سلسلہ ’’آستانہ عالیہ قادریہ حسنیہ‘‘ (اَندرون یکہ توت گیٹ‘ کوچہ آقا پیرجان) میں ’ربیع الثانی کی چاند رات‘ (یکم) سے ’بارہ ربیع الثانی‘ کی نماز فجر تک جاری رہتا ہے جس میں ذکر و اَذکار کے حلقے بطور خاص منعقد کئے جاتے ہیں۔
گیارہ تاریخ (بڑی گیارہویں شریف) کے بعد سلسلۂ قادریہ سے وابستہ مرید (تصوف کے ماننے والے) گھر گھر محافل نعت و منقبت اور لنگر (طعام) کا اہتمام کرتے ہیں جبکہ قادریہ کے علاؤہ دیگر سلسلہ ہائے تصوف (چشتی‘ نقشبندی اور سہروردی) سے وابستہ اکثر عقیدتمندوں کے ہاں ’محافل سماع (قوالی)‘ کے ذریعے ’حضرت سیّدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ (اسم گرامی: عبدالقادر۔ کنیت: اَبومحمد۔ لقب: محی الدین۔ ولادت اٹھارہ مارچ 1077 عیسوی۔ قصبہ جیلان (ایران)۔ وصال: پندرہ جنوری 1166 عیسوی بمطابق گیارہ ربیع الثانی 571ہجری‘ بغداد عراق)‘ کی ذات بابرکات سے تجدید عہد اُور اُن کی یادآوری سے فیوض و برکات کے روحانی ثمرات حاصل کئے جاتے ہیں۔ گیارہویں شریف کی مناسبت سے پشاور کی مرکزی تقریب آستانہ عالیہ قادریہ حسنیہ‘ اندرون یکہ توت‘ کوچہ آقا پیر جان‘ ہر سال باقاعدگی سے منعقد ہوتی ہے‘ جس کا ’’بنیادی مقصد‘‘ ساڑھے آٹھ سو برس سے زائد عرصہ قبل اِسلامی تاریخ کی بزرگ شخصیت اور سلسلہ قادریہ کے بانی پیرانِ پیرؒ کی تلقین و ارشادات اور شریعت و طریقت (تصوف) کے حوالے سے تعلیمات کی علمی اُور روحانی پہلوؤں پر عصری حالات (تقاضوں کے مطابق) روشنی ڈالی جائے۔ یاد رہے کہ سلسلۂ تصوف و طریقت میں بزرگان دین (اُولیاء اللہ) کے دنیا سے پردہ فرمانے کے ایام کو بطور ’عرس‘ منایا جاتا ہے۔ ’عرس‘ کے لغوی معنی ’’شادی‘‘ یعنی وصل کے دن چونکہ وہ اپنے مزاروں میں جمال مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کرتے ہیں‘ جو ’وصال محبوب‘ یعنی اپنے محبوب کے دیدار سے مسرت و شادمانی کی سبیل ہے‘ اِس لئے ہر سال مخصوص تاریخوں میں عرس یعنی ’خوشیاں‘ منائی جاتی ہیں۔
پشاور کے سرتاج روحانی گھرانے کے چراغ‘ پیرطریقت سیّد محمد اَمیر شاہ قادری المعروف مولوی جی رحمۃ اللہ علیہ اکثر فرمایا کرتے کہ ’’اِسلام میں کسی کے ہاتھ پر بیعت کرنا واجب نہیں لیکن بیعت کرنے سے مراد یہی ہے کہ بندہ کسی (صاحب علم و عمل) کی پیروی (تقلید) کرے یعنی کسی ایسے شخص کی بیعت جو کہ اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکامات کو ماننے اور اُن پر مکمل عمل کرنے والا ہو کیونکہ عام لوگوں اِس قابل نہیں ہوتے کہ وہ قرآن وحدیث اور علوم اسلامیہ میں مہارت رکھیں‘ اِس لئے راہِ حق پر چلنے کے لئے اُنہیں کسی رہبر کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر کوئی شخص خود علم و عمل کے اُس بلند درجے پر فائز ہو کہ وہ تفہیمِ شریعت میں کسی کی ضرورت محسوس نہ کرے اور شریعت کے علمی اور عملی میدانوں میں بھی ماہر ہو تو ایسے بندے کے لئے تو ضروری نہیں کہ وہ کسی کی بیعت کرے لیکن اگر ضروری ہو تو بیعت (پیروی) اُس بندے یا جماعت کی کرنی چاہئے جو اسلامی تعلیمات کے علمی اور عملی پہلوؤں سے کماحقہ آشنا اور درجہ کمال پر فائز ہو ہونے کے ساتھ ’صحیح العقیدہ‘ بھی ہو۔ اللہ تعالی‘ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘ صحابہ کرام‘ اہل بیت اطہار اور سلف صالحین رضوان اللہ اجمعین کا ادب واحترام کرتا ہو اور ان کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو۔ بیت سے مقصود تو بس یہی ہے کہ انسان کی بہتر تربیت و تعلیم اور انسانیت کے احترام پر مبنی ’’تعلیماتِ اسلامیہ‘‘ کو فروغ حاصل ہو اور اسلام کا پرچمِ بلند رہے۔
’گیارہویں شریف‘ کے اِہتمام میں چراغاں اُور بالخصوص بڑی گیارہویں شریف کے ایام میں مبارکبادوں کا تبادلہ پشاور کے معمولات اُور روایات کا حصہ ہے لیکن اِس خاص دن کی مناسبت سے اگر ’’سالانہ علمی و عملی محاسبہ‘‘ بھی کیا جائے کہ سلسلۂ قادریہ سے وابستگی کا تقاضا تو یہ بھی ہے کہ سلوک کی منازل طے ہوتی رہیں۔ مرید (طلب گار) اپنے باطن کی صفائی کی جانب دھیان بنائے رکھے اُور باطنی صفائی کے لئے صوفیائے کرام کے چار درجات پر عمل کر کے ہر مسلمان نہ صرف اپنے ظاہری نفس بلکہ باطن کا تزکیہ کرنے کے قابل ہو سکے۔
قبلہ مولوی جیؒ تقویٰ‘ احسان یا بہ الفاظ متعارف تصوف کا بنیادی کام ’’دلوں کی صفائی‘‘ بیان فرماتے تاکہ اخلاق (عمل) نکھر جائیں۔ تصوف ’اخلاق کی جان اور ایمان کا کمال‘ ہے‘ جس کا سرچشمہ قرآن و حدیث اور جس کی اساس شریعت اسلامی کے اصول ہیں اور انہی کے ذریعے دل‘ کان‘ زبان‘ ناک اور ذہن کے ذریعے جو آلودگیاں در آنے کے بعد روح کی بیماری کا سبب بنتی ہیں‘ اُن کا علاج (تدارک) ممکن ہو سکتا ہے۔
سیّدنا شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ سے پوچھا گیا کہ ’’محبت کیا ہے؟‘‘ فرمایا: ’’محبت‘ محبوب کی طرف سے دل میں پائی جانے والی تشویش‘ فکر اور مستقل وابستگی کا نام ہے جسے محبت ہو جائے اُس کے سامنے دنیا کی کوئی وقعت نہیں رہتی۔ محبت ایک نشہ ہے جس سے ہوش جاتے رہتے ہیں۔ عاشق اپنے حال میں ایسے محو رہتا ہے کہ اُسے اپنے محبوب کے مشاہدے اور خوشنودی کے سوأ کسی دوسری چیز کا ہوش نہیں رہتا۔ وہ ایسا بیمار ہو جاتا ہے کہ اپنے مطلوب (محبوب) کو دیکھے بغیر تندرست نہیں ہوتا۔ وہ اپنے خالق عزوجل کی محبت کے علاؤہ دنیا میں کچھ اُور نہیں چاہتا۔ کسی دنیاوی چیز کا طلبگار نہیں ہوتا اور اپنے محبوب (رب تعالیٰ) کے ذکر کے سوأ‘ اُسے کسی شے کی خواہش (حرص بھی) نہیں ہوتی۔ (بہجۃ الاسرار)۔‘‘ آپؒ کا فرمان ہے کہ ’’اللہ کی محبت کا ’عملی تقاضا‘ یہ ہے کہ اپنی نگاہوں کو اللہ عزوجل کی رحمت کی طرف لگادیا جائے۔ ہر گھڑی اُس کی رحمت طلب کی جائے اور کسی غیراللہ کی طرف (اُمید و آس کی) نگاہ نہ کی جائے اُور اِنسان اَندھوں کی مانند ہو جائے‘ جب تک کہ وہ ’’غیر اللہ‘‘ کی طرف دیکھتا (متوجہ) رہے گا‘ اللہ عزوجل کا فضل نہیں دیکھ پائے گا۔ (فتوح الغیب)۔‘‘
No comments:
Post a Comment