Sunday, December 31, 2017

Dec 2017: The injustices & security in Khyber Pukhtunkhwa!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
سرِعام ظلم!
سردست صورتحال یہ ہے کہ ہر معاملے میں عدالت کو ملوث کرنے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن سرکاری اِداروں نے اپنے قواعدوضوابط پر عمل درآمد کرنے کی بجائے زیادہ آسان حل یہ تلاش کر لیا ہے کہ مقدمات کی آڑ لیں اور یہ سارا معاملہ ’’خالص بدنیتی‘‘ کا ہے۔ جہاں کسی ادارے کو کاروائی کرنا ہوتی ہے تو وہاں اخبار میں شائع ہونے والی ایک ’سنگل کالم‘ کی خبر پر ایکشن لے لیا جاتا ہے لیکن جہاں معاملہ عام آدمی (ہم عوام) کے مفادات کا تحفظ ہو‘ وہاں معاملے کو حل کرنے کی بجائے طول دیا جاتا ہے بالکل اُس ہندکو محاورے کی طرح کہ ’’دل حرامی تے حُجتاں بہت۔‘‘

’الیکشن کمیشن آف پاکستان‘ کے قواعد کی رُو سے جس کسی ایک اِنتخابی حلقے میں اگر خواتین کی شرح پولنگ (ڈالے گئے ووٹوں کا تناسب) ’10فیصد‘ سے کم سامنے آئے گی‘ تو اُس حلقے میں ہونے والے عام انتخابات کالعدم تصور ہوں گے اور دوبارہ پولنگ (ووٹنگ) کرائی جائے گی۔ خواتین کے حقوق کے لئے کام کرنے والی غیرسرکاری تنظیمیں اُور سول سوسائٹی کے نمائندے 10فیصد کے اِس پیمانے پر بھی اعتراض کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ یہ پچاس فیصد یا کم سے کم پچیس فیصد ہونا چاہئے کیونکہ خواتین کی سماجی و معاشرتی حصہ داری اُور آبادی پچاس فیصد سے زیادہ ہے تو اُن کی رائے کا احترام بھی اُسی تناسب سے ہونا چاہئے لیکن یہاں بات منطق اَصول یا حفظ مراتب کی نہیں ہو رہی بلکہ ایک ایسے معاشرے کی ہو رہی ہے‘ جس سے متعلق فیصلہ سازی خالصتاً ایک خاص طبقے اور سوچ کی غلام بن گئی ہے۔ 

اُنتیس دسمبر کے روز پشاور ہائی کورٹ کے یک رکنی بینچ نے خیبرپختونخوا کے ضلع لوئر دیر ’شاہی خیل‘ میں خواتین کے پولنگ میں حصہ نہ لینے سے متعلق دائر مقدمے کی سماعت میں جہاں الیکشن کمیشن ‘ متعلقہ ریٹرنگ آفیسر‘ صوبائی وزیر مظفر سید اور کامیاب اُمیدوار گل حکیم خان کو حکم دیا کہ وہ خواتین کے ووٹ نہ ڈالنے کے حوالے سے اپنا اپنا مؤقف تحریری طور پر عدالت میں جمع کروائیں وہیں عدالت عالیہ نے اِس بات پر حیرت کا اظہار بھی کیا کہ جب الیکشن کمیشن کے قواعد میں یہ بات واضح طور پر تحریر ہے کہ جس کسی بھی حلقے میں خواتین کی پولنگ ’10فیصد‘ سے کم ہوگی‘ وہاں عام اِنتخاب کے سلسلے میں پولنگ دوبارہ کروائی جائے گی تو ایسا کرنے میں کیا اَمر مانع ہے اور کیوں؟ عدالت عالیہ نے الیکشن کمیشن کی جانب سے یہ درخواست بھی مسترد کر دی کہ مذکورہ حلقے میں انتخاب اَزسرنو منعقد نہ کرنے کا حکم دیا جائے۔ باعث حیرت ہے کہ الیکشن کمیشن خود نہیں چاہتا اُور سمجھتا ہے کہ اگر دوبارہ بھی پولنگ ہوئی تو وہاں کی خواتین حصہ نہیں لیں گی۔ 

سرعام ظلم نہیں تو کیا ہے کہ خواتین کو اُن کے حق سے محروم رکھنے کے لئے سیاسی و غیرسیاسی جماعتیں حتیٰ کہ الیکشن کمیشن کی رائے بھی ایک جیسی ہے!

خیبرپختونخوا میں صرف وفاقی حکومت کے اِدارے ہی غلطیوں کا دانستہ ارتکاب نہیں کر رہے بلکہ ’تحریک انصاف‘ کی قیادت میں صوبائی حکومت بھی ’مجرمانہ غلفت‘ کی مرتکب ہو رہی ہے اُور ایک عرصے سے ’مالاکنڈ‘ میں پولیس کی عمل داری بحال کرنے جیسی اہم ضرورت اِلتوأ (سردخانے) کی نذر ہے۔ 

مالاکنڈ کی انتظامی حیثیت ’بی ڈسٹرکٹ‘ کی ہے‘ جہاں خیبرپختونخوا کے دیگر حصوں کی طرح ’پولیس ایکٹ‘ کا اطلاق نہیں ہوتا اور وہاں ’لیویز اہلکار‘ پولیس کے متبادل کے طور پر قانون کا اطلاق کر رہے ہیں لیکن اِس سے پیدا ہونے والی کئی ایسی آئینی‘ قانونی اور مالی بے قاعدگیاں‘ بے ضابطگیاں اور پیچیدگیاں ہیں جو فوری حل طلب ہیں۔ اگر ہم قبائلی علاقوں کی امتیازی حیثیت کا رونا روتے ہیں تو قبائلی علاقوں کی طرح ہم نے بندوبستی علاقوں کو بھی امتیازی حیثیت دے رکھی ہے‘ آخر کیوں؟ 

مالاکنڈ میں امن و امان کے حالات ماضی کے مقابلے معمول پر آ چکے ہیں تو وہاں پولیس کی عملداری بحال ہونی چاہئے۔ سب سے پہلی ضرورت تو یہ ہے کہ جب وہاں عدالتی نظام موجود ہے تو مالاکنڈ کو ’اے ڈویژن‘ کی حیثیت دی جانی چاہئے۔ دوسری ضرورت یہ ہے کہ ’لیویز‘ کو پولیس میں ضم کردیا جائے اور لیویز اہلکاروں کو پولیس تربیتی مراکز بھیجا جائے جہاں وہ پولیس کے نظام اور بالخصوص تفتیشی طریقۂ کار کو سیکھ سکیں۔ سردست صورتحال یہ ہے کہ جب لیویز کے اہلکار کسی ’ایف آئی آر‘ پر اَنگوٹھا لگا کر تفتیش مکمل کرتے ہیں تو عدالت میں ایسے مقدمات چند سماعتوں کے بعد ہی خارج ہو جاتے ہیں۔ مالاکنڈ میں سیشن جج‘ ایڈیشنل سیشن جج‘ سینئر سول جج اُور ڈپٹی و اسسٹنٹ کمشنر موجود ہیں لیکن پولیس فورس کی عدم موجودگی کے باعث گوناگوں مسائل موجود ہیں۔ 

ضرورت اِس امر کی ہے کہ مالاکنڈ ڈویژن کے دیگر حصوں کی طرح مالاکنڈ میں پولیس فورس بحال کی جائے۔ فی الوقت کم و بیش ’تین ہزار لیویز اہلکار‘ ڈپٹی کمشنر کے زیرکنٹرول ہیں‘ جو سیاہ و سفید کا مالک بنا ہوا ہے۔ صوبائی حکومت کو سمجھنا چاہئے کہ ’’افسرشاہی (بیوروکریسی) اپنے اختیارات اُور شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ برقرار رکھنے کے لئے انتظامی اصلاحات کی راہ میں حائل سب سے بڑی (بنیادی) رکاوٹ ہے اور یہ رکاوٹ دور ہونی چاہئے۔ تجویز ہے کہ تین ہزار اِہلکاروں پر مشتمل ’مالاکنڈ لیویز‘ کو پولیس فورس میں ضم کیا جائے اور اِن کے لئے خصوصی تربیت کا انتظام کیا جائے۔ خیبرپختونخوا کے ہر ضلع میں ’لیویز اہلکاروں‘ کی ایک تعداد موجود ضرور ہوتی ہے لیکن اُن کی موجودگی تھانہ جات پر حاوی یا پولیس فورس کے نظام میں مداخلت نہیں ہوتی۔ عام آدمی (ہم عوام) کے مفادات بارے سوچا جائے کہ اُس پر کیا گزر رہی ہے۔ مالاکنڈ میں موجودہ لیویز کے بیس یا پچیس فیصد جوانوں کو ’ڈپٹی کمشنر‘ کے اختیار میں دیا جا سکتا ہے جس سے صاحب بہادر کی تسکین ہوتی رہے کیونکہ ’پولیس ایکٹ‘ لاگو نہ ہونے سے درپیش مشکلات عمومی نہیں۔ 

کیا صوبائی حکمران نہیں جانتے کہ مالاکنڈ میں منفرد انتظامی معاملات کی وجہ سے ملحقہ مالاکنڈ‘ مردان‘ چارسدہ اور پشاور ڈویژنوں پر کس قسم کا دباؤ ہے۔ جرائم پیشہ عناصر کس طرح اِس صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مالاکنڈ میں پناہ لے لیتے ہیں جہاں پولیس کی عملداری نہیں۔ 

معاملہ بالکل پشاور سے ملحقہ ’درہ آدم خیل‘ جیسے علاقے کا ہے کہ جہاں کی ایک پٹی سے پولیس گزر تو سکتی ہے لیکن وہ وہاں امن وامان کے لئے خطرہ بننے والے عناصر کے خلاف کاروائی نہیں کرسکتی! ہمارے حکمرانوں کو اَمیرالمومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا یہ قول اَزبر ہے کہ ’’حکومتی نظام کفر سے تو چل سکتا ہے ظلم سے نہیں‘‘ لیکن وہ گردوپیش پر نگاہ نہیں کرتے جہاں ’ظلم سرعام ہے۔‘ اگرچہ مالاکنڈ میں پولیس فورس کی عملداری بحال کرنا اِس بات کی ضمانت نہیں ہوگی کہ راتوں رات انصاف ہونے لگے گا لیکن کم سے کم خیبرپختونخوا میں ’یکساں پولیسنگ‘ ممکن ہو جائے گی۔ 

صوبائی حکومت کو سخت مزاجی اور اپنے اختیارات کا سختی سے استعمال کرتے ہوئے دامن پر لگے اِس داغ کو دھونا ہوگا کیونکہ ضروری نہیں کہ سارے داغ اچھے ہی ہوں!
۔
http://epaper.dailyaaj.com.pk/index.php?city=peshawar&page=20&date=2017-12-31
http://epaper.dailyaaj.com.pk/epaper/pages/1514648118_201712308658.gif

No comments:

Post a Comment