ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
سکول کرکٹ لیگ!
تحریک اِنصاف کی قیادت میں موجودہ ’خیبرپختونخوا حکومت‘ کی کارکردگی کسی ’سُہانے خواب‘ جیسی ہے‘ جس سے لطف اَندوز (مستفید) ہونے کے لئے ضروری ہے کہ ’نیند‘ کی حالت یا تو مسلسل طاری رہے یا پھر خواب خرگوش کا تسلسل (سحر) ٹوٹنے نہ پائے۔ حکومت کی آئینی مدت مکمل ہونے میں جبکہ چند ماہ کا عرصہ ہی باقی رہ گیا ہے اور یہ عرصہ بھی اِس قدر کم ہے کہ اِسے اُنگلیوں پر شمار کیا جا سکتا ہے تو صوبائی حکومت کی جانب سے ایسے نت نئے شوشے (تجربات) کا سلسلہ جاری ہے‘ جو قطعی انوکھے نہیں بلکہ ترقی پذیر دنیا کے کئی ممالک میں اِن پر عمل درآمد ہو رہا ہے جیسا کہ سکولوں (میٹرک کے درجے تک کے تعلیمی اِداروں) کے مابین صوبائی سطح پر ’کرکٹ مقابلوں کا اِنعقاد‘ کرنا اُور اِس حکمت عملی کو ’سکول کرکٹ لیگ‘ کا نام دیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ خیبرپختونخوا کی سطح پر سکولوں‘ کالجوں اُور جامعات (یونیورسٹیز) کے مابین صوبائی‘ ضلعی اُور ڈویژنل سطح پر کھیلوں کے سالانہ مقابلوں کو باقاعدگی سے اِنعقاد کیا جاتا ہے اُور اگر اُن مقابلوں میں کرکٹ کو بھی شامل کر لیا جاتا تو کسی ’منفرد نام‘ کی تشہیر اور میچز کے انعقاد پر اضافی سرکاری وسائل خرچ کرنے کی ضرورت نہ پڑتی۔ جہاں تک ’کرکٹ کے کھیل اُور موسم کا تعلق‘ ہے تو سولہویں صدی میں برطانیہ کے نوابوں (لارڈز) کی تخلیق اِس کھیل کے ’’کھیلنے اُور دیکھنے‘‘ کے بھی اپنے الگ الگ آداب ہیں‘ جو اگرچہ محدود دورانیئے کے (ون ڈے‘ ٹی ٹوئنٹی اُور ٹی ٹین نامی) نمائشی مقابلوں کی وجہ سے پس پشت چلے گئے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ کرکٹ دیکھنے کا لطف آج بھی برطانیہ (لارڈز)‘ آسٹریلیا (میلبورن) یا پھر جنوبی افریقہ (نیولینڈز) گراونڈز پر ہی آتا ہے۔ باقی دنیا کے لئے کرکٹ نمائش‘ سٹے بازی اور مارکیٹنگ کا ذریعہ بن گئی ہے!
کسی کھیل کے کمرشل ہونے سے اِس میں داخل ہونے والی خرابیاں (بدعات) ایک الگ موضوع ہے‘ جس کا احاطہ ’کارپوریٹ کلچر‘ کے منفی اثرات کے عنوان سے کسی دوسرے موقع کے لئے اٹھا رکھ لیتے ہیں‘ لیکن اِس مرحلۂ فکر پر مقصود یہ ہے کہ کرکٹ صرف کھیل ہی نہیں بلکہ تہذیب بھی ہے جس کے اَصولوں بارے تعلیمات کے بناء اِس کوشش سے خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہوں گے اور وہ سنجیدگی نہیں آئے گی‘ جس سے نوجوان کھیل کھیلتے ہوئے اِسے ایک درجہ بلند مقام پر فائز کریں‘ اُور اِس سے اُن کی زندگیوں میں نظم و ضبط اور آگے بڑھنے (صحت مند مقابلے) کا رجحان پیدا ہو۔ دنیا بھر میں کرکٹ کے مقابلے ترجیحاً موسم بہار یا موسم گرما کے آغاز پر منعقد ہوتے ہیں اُور اِسی دور میں تربیتی اور بچوں کے درمیان مقابلوں کا انعقاد بھی کیا جاتا ہے کیونکہ اِس عرصے میں دھوپ کی تمازت قابل برداشت ہوتی ہے‘ روشنی کے گھنٹے زیادہ ہوتے ہیں جس سے کھیل زیادہ سے زیادہ دن کی روشنی میں کھیلا جا سکتا ہے اور اِس کے لئے الصبح سے شروع ہونے والی ورزش کے بعد کھلاڑی پوری طرح کھیلنے کے لئے تیار ہوتا ہے۔
کرکٹ کے لئے بہترین وقت وہ ہوتا ہے جب ’ہوا میں نمی کا تناسب‘ کم سے کم ہو تاکہ گھاس کی سطح پر شبنم کے قطرے گیند کو خراب نہ کریں اُور اِس مقصد کے لئے ’آؤٹ فیلڈ‘ کو سرسبز رکھا جاتا ہے جس سے میدان خوبصورت اور ہرے بھرے دکھائی دیتے ہیں لیکن اگر ہوا میں نمی زیادہ ہوگی تو آؤٹ فیلڈ میں گھاس کم رکھنا پڑے گی تاکہ گیند تیزی سے سفر کرے اور یہ گیلا بھی نہ ہو!
کرکٹ کی سرپرستی دیگر کھیلوں کی قیمت پر نہیں ہونی چاہئے جیسا کہ ہمارا قومی کھیل ہاکی ہے تو خیبرپختونخوا میں ایسے کتنے سرکاری سکول ہیں جہاں مصنوعی گھاس (artificial turf) کے میدان موجود ہیں جو سال 2000ء سے متعارف ہوئی اور کھیل کی دنیا پر حکمرانی کرنے والے ممالک میں ایسے گراؤنڈز صرف ہاکی ہی کے لئے نہیں بلکہ دیگر کھیلوں کے لئے بھی استعمال ہو رہے ہیں تاکہ براعظمی (اولمپک) مقابلوں کے لئے کھلاڑی تیار کئے جا سکیں۔ یہ امر بھی توجہ طلب ہے کہ ملک کے دیگر حصوں کی طرح خیبرپختونخوا کے سرکاری و نجی سکولوں کی سطح پر بمشکل ایسے کرکٹ گراؤنڈ ملیں گے جن میدانوں کی لمبائی چوڑائی قواعد و معیار پر پوری اُترتی ہو۔ کرکٹ کھیلنے کا جنون‘ شوق اُور اِس کھیل سے لگاؤ اپنی جگہ اہم لیکن کیا کبھی سکول کی سطح پر ’کرکٹ شناسی‘ بھی عام کی گئی کہ کرکٹ کی پچ 66فٹ (بائیس گز) ہونی چاہئے؟ ہمیں ہر کام کرنے کا شوق ہوتا ہے اور اِس شوق میں حدود و قیود کا لحاظ کرنا ضروری نہیں سمجھتے!
حالت حال کے سبب‘ حالت حال ہی گئی
شوق کا کچھ نہیں گیا‘ شوق کی زندگی گئی (جان ایلیا)۔
خیبرپختونخوا میں سکولوں کی سطح پر ’کرکٹ لیگ‘ کا تصور اُور جملہ اِنتظامات (بشمول معاہدہ اُور دیگر کاغذی کاروائی) صرف اُور صرف ’چار روز‘ میں مکمل ہوئی ہے‘ جس کی تفصیلات نجی اللہ خٹک (غیرسرکاری ترجمان و صلاح کار برائے صوبائی محکمۂ بنیادی و ثانوی تعلیم) کے بقول کچھ یوں ہے کہ ’’پاکستان کرکٹ لیگ سے متعارف ہونے والی ’’(پشاور) زلمے فاؤنڈیشن‘‘ کے سربراہ کی چیئرمین عمران خان سے ملاقات ہوئی‘ جس میں کرکٹ کے فروغ پر دونوں کی ایک جیسی دلچسپی و تجربے کو عملی شکل دینے پر اتفاق ہوا اور یوں طے پایا کہ آئندہ برس (دوہزاراٹھارہ) سے خیبرپختونخوا کے دس ہزار سکولوں کی سطح پر کرکٹ کے فروغ کے لئے ’پشاور زلمے فاؤنڈیشن‘ اپنی تکنیکی اور فنی مہارت دے گی اور سال کے اختتام کو زیادہ خوشگوار بنانے کے لئے ’سپرلیگ‘ کے نام سے صوبائی سطح پر کرکٹ مقابلے منعقد کئے جائیں گے۔
فی الوقت آج (تیئس دسمبر) سے ہری پور میں ہونے والے تین روزہ کرکٹ مقابلوں میں ’پشاور زلمے فاؤنڈیشن‘ کی موجودگی نظر آئے گی۔ یہ ’اِنٹر زون کرکٹ مقابلے‘ خیبرپختونخوا کے چار زونز (بنوں‘ مالاکنڈ‘ ہزارہ اُور پشاور کی سکولوں) کے مابین ہو رہے ہیں اور اِن کا ’فائنل‘ اُنتیس دسمبر کو پشاور میں کھیلا جائے گا۔ بنیادی طور پر ’زلمے سکول لیگ‘ دو مرحلوں میں مکمل ہوگی۔ پہلے مرحلے میں مذکورہ چار زونز کی ٹیموں کے درمیان مقابلے ہوں گے۔ دوسرے مرحلے میں خیبرپختونخوا کے سات ڈویژنز اور آرمی پبلک سکول پشاور کی ایک ٹیم پر مشتمل گروپ کے درمیان میچ ہوں گے۔‘‘
آیئے سوچتے ہیں کہ خیبرپختونخوا میں کرکٹ کا حال اَحوال‘ سہولیات اور اِس کی بہتری کے لئے صوبائی فیصلہ سازوں کی سوچ بچار کا عمل کہیں کسی نجی اِدارے کی نیک نامی میں اضافے (فائدہ پہنچانے) کی حد تک تو محدود نہیں اور کیا اِسے زیادہ وسیع کرنا بھی ممکن ہے!؟ جنوبی اَفریقہ اور سری لنکا کی مثالیں موجود ہیں‘ جہاں سکول سطح پر کرکٹ نے کئی عالمی کھلاڑی دیئے ہیں تو کیا کرکٹ کی سرپرستی کے لئے اپنے مفادات رکھنے والے نجی اداروں کی مہربانی ضروری ہوتی ہے؟
۔
No comments:
Post a Comment