Friday, December 22, 2017

Dec 2017: Laws over laws & performance!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
قوانین کی بہتات!
منشیات کے خلاف وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی کوششیں باہم مربوط نہیں اور یہی وجہ ہے کہ وفاق کی جانب سے خیبرپختونخوا کو ایسی کسی بھی قانون سازی سے گریز کرنے کا مشورہ دیا گیا ہے جو وفاقی قانون اُور اِداروں کی موجودگی میں اپنے وسائل ’اِنسداد منشیات‘ کی نذر کریں گویا وفاق کی جانب سے نہایت ہی مہذب و شائستہ انداز میں خیبرپختونخوا کو خبردار کیا گیا ہے کہ وہ اپنی الگ ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنانے سے باز رہیں۔ حقیقت تو یہی ہے کہ اگر انسداد منشیات ہی مقصود ہے تو اِس کے لئے وفاقی قانون‘ اداروں اور اُن قواعد کافی ہیں‘ جو پہلے ہی سے نہ صرف موجود ہیں بلکہ فعال بھی ہیں اور کسی بھی قسم کی نئی قانون سازی سے وہ عالمی امدادی ادارے یا پاکستان کے دوست ممالک پریشانی میں مبتلا ہو جائیں گے کہ وفاق یا صوبے میں کس سے بات کریں اور اگر منشیات کا انسداد نہیں ہورہا تو اِس کے لئے ذمہ دار کون ہے۔ 

تحریک انصاف کی قیادت میں موجودہ خیبرپختونخوا حکومت کی شروع دن سے قانون سازی میں غیرمعمولی دلچسپی اپنی جگہ اہم لیکن قانون پر قانون سازی کرنے سے معاملات مزید اُلجھ جائیں گے‘ جس کا یقیناًفائدہ بڑے پیمانے پر منشیات کا دھندا کرنے والے اٹھائیں گے۔ کون نہیں جانتا کہ منشیات سے حاصل ہونے والی آمدنی کا بڑا حصہ دہشت گردی اور انتہاء پسندی عام کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے اور اِسی دھندے کے ذریعے کرنسی کی غیرقانونی لین دین (ہنڈی) بھی ہوتی ہے۔ حیرت انگیز نتائج برآمد ہوں گے اگر انسداد منشیات کے وفاقی ادارے سے وابستہ ملازمین کے اثاثوں کی چھان بین کی جائے اور وہ اربوں کے اثاثہ جات کے مالک نکلیں۔ اصولی طور پر پولیس کی موجودگی میں کسی انسداد منشیات کے ادارے (انٹی نارکاٹکس فورس) کی ضرورت ہی نہیں تھی لیکن وفاق کے زیرنگرانی اگر یہ ادارہ قائم کر بھی دیا گیا ہے تو اِس کی کارکردگی (موجودگی) خود وفاق ہی کے زیرانتظام قبائلی علاقوں میں نہ ہونے کے برابر ہے آخر کیوں؟ وفاقی حکومت کی جانب سے خیبرپختونخوا کو بروقت خبردار کرنا خوش آئند اَمر ہے کیونکہ اِداروں کی جانب سے عموماً اِس قسم کا تیزرفتار ردعمل سامنے نہیں آتا لیکن یہاں معاملہ اربوں ڈالرز کی اُس غیرقانونی تجارت (خریدوفروخت) کا ہے تو صوبائی اور وفاقی حکومتیں ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑی دکھائی دیتی ہیں!

وفاقی نارکوٹکس کنٹرول سیکرٹری کی جانب سے خیبرپختونخوا کے چیف سیکرٹری کے نام لکھے گئے مکتوب میں کئی تحفظات کا اظہار لائق مطالعہ ہے جس میں یہ بات بھی شامل ہے کہ ’’انسداد منشیات کے لئے وفاقی ادارے اور پولیس کی موجودگی میں کسی بھی قسم کی صوبائی قانون سازی اور ادارہ قائم نہ کیا جائے۔‘‘ 

قابل ذکر ہے کہ خیبرپختونخوا کے ’’ایکسائز‘ ٹیکسیشن اینڈ نارکوٹکس کنٹرول ڈیپارٹمنٹ‘‘ نے ایک مسودہ قانون بنام ’خیبرپختونخوا نارکوٹکس سبسٹینس ایکٹ 2017ء‘ تیار کیا ہے اور اِس مجوزہ قانون کی صوبائی کابینہ منظوری بھی دے چکی ہے اور یہ ماہ اکتوبر کے دوران صوبائی اسمبلی میں منظوری کے لئے پیش کردیا گیا تھا‘ جس کے بعد اِسے صوبائی قانون ساز پارلیمان کی ’سلیکٹ کمیٹی‘ کو غوروخوض کے لئے ارسال کیا گیا‘ جس کے سربراہی صوبائی وزیر ایکسائز و ٹیکسیشن اینڈ نارکوٹکس کنٹرول کر رہے ہیں۔ وفاقی حکومت کا مؤقف یہ ہے کہ آئین پاکستان کی دفعہ 142 بی کے تحت اُسے اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی بھی صوبائی قانون کو ترمیم یا ختم (واپس) کرسکتی ہے اور آئین ہی کی متعدد شقوں سے یہ بات بھی ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ انسداد منشیات وفاقی معاملہ (فیڈرل سبجیکٹ) ہے اور خیبرپختونخوا اِس میں مداخلت نہ کرے۔ وفاق کی جانب سے خیبرپختونخوا کو اِس بات سے بھی مطلع کیا گیا ہے کہ وفاقی قوانین کی موجودگی میں صوبائی حکومتیں کسی بھی قسم کا نیا قانون منظور نہیں کر سکتیں۔

حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ہاں قوانین اور قواعد و ضوابط کی کمی نہیں۔ ایک سے بڑھ کر ایک اور وسیع المعانی قانون موجود ہے لیکن اُس پر عمل درآمد کی عملی مثالیں موجود نہیں۔ قوانین کی بہتات کا اَندازہ اِس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ خود قانون ساز اِداروں کو معلوم نہیں کہ اُن کی حدود و قیود کیا ہیں۔ جہاں تک عوام کا تعلق ہے تو قوانین سازی اور اِن میں ترامیم کے حوالے سے عوامی سطح پر نہ تو شعور پایا جاتا ہے اور نہ ہی لوگوں کو قوانین کے اطلاق اور اِن کے حوالے سے اپنے حقوق کا علم ہے۔ ’چٹ منگنی پٹ بیاہ‘ کی طرح قوانین بنائے جاتے ہیں‘ جن کے بارے میں عوام کا نقطۂ نظر یا مختلف مکاتب فکر سے رائے (اِن پُٹ) لینے کو ضروری نہیں سمجھا جاتا۔ 

ذرائع ابلاغ میں بھی بحث نہیں کی جاتی تاکہ قانون کو جامع بنایا جا سکے۔ یہی سبب ہے کہ قوانین اور قانون ساز اداروں کی کارکردگی کے بارے میں عام آدمی (ہم عوام) کی رائے زیادہ مختلف نہیں کہ یہ دونوں ہی خاطرخواہ حساسیت کا مظاہرہ نہیں کر رہے اور مسئلے کا حل نہیں بلکہ بذات خود ایک مسئلہ ہیں! معاشرے میں قوانین کی بہتات سے نہیں بلکہ اُن کے اطلاق سے تبدیلی آتی ہے لیکن یہ بات وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی سمجھ میں آنے کے لئے شعور کی کئی درجہ بلندی درکار ہوگی۔

انسداد منشیات میں صرف ممنوع منشیات کی کاشت‘ نقل و حمل اور خرید و فروخت روکنا ہی شامل نہیں ہوتا بلکہ منشیات کے عادی افراد کی بحالی بھی اُسی وفاقی قانون کا حصہ ہے جس پر وفاق پاکستان کی جملہ اکائیوں نے عمل درآمد کرنا ہے لیکن اب تک صرف سندھ حکومت نے منشیات کے عادی افراد کی بحالی کے لئے ایسے مراکز (کراچی‘ حیدرآباد اور سکھر میں) قائم کئے ہیں۔ اگر خیبرپختونخوا حکومت ’ترک منشیات کے مراکز‘ قائم کرے اور پشاور جیسے مرکزی شہر میں جابجا منشیات کی فروخت کے منظم دھندوں پر ہاتھ ڈالے تو اِس کے لئے کسی اضافی قانون کی ضرورت نہیں۔ روزمرہ مشاہدے میں منشیات کی فروخت اور استعمال کھلے عام ہوتا ہے۔ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں منشیات اور سگریٹ نوشی کا رجحان صرف طلباء ہی نہیں بلکہ طالبات میں بھی پھیل چکا ہے‘ جس حقیقت کا مسلسل انکار اِس مسئلے کو بحرانی حدوں تک لے گیا ہے۔

وفاقی حکومت کی جانب سے ’توجہ دلاؤ نوٹس‘ کے بعد صوبائی حکومت شاید اِس مسودۂ قانون کو آگے نہ بڑھائے اور یہ سلیکٹ کمیٹی کے سردخانے ہی میں رہے لیکن ایک ایسی قانون سازی کی کوشش اپنی جگہ زیربحث آنی چاہئے کہ مسائل کا حل نت نئے قوانین سے نہیں بلکہ اُن کے اطلاق میں ڈھونڈا جائے تو زیادہ بہتر و پائیدار (مثبت) نتائج برآمد ہوں گے۔
۔

No comments:

Post a Comment