ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
لہو لہو پیراہن!
کہانیاں در کہانیاں ہمارے اِردگرد (چار سو‘ ہرسو) پھیلی ہیں‘ جن کی گونج اکثر قانون ساز ایوانوں میں ہونے والے ’رسمی‘‘ سوال و جواب کی نشستوں (سیشنز) میں بطور سوال ’’سنانے‘‘ اُور بطور جواب ’’گنگنانے‘‘ کی صورت سنائی دے جاتی ہیں تو اِس پر بھر سماعتوں کے بوجھل ہونے کا گمان ہوتا ہے۔
بارہا تجربات سے ثابت (حاصل) ہو چکا ہے کہ پاکستان کے غریبوں (ہم عوام) کی قسمت جمہوری یا غیرجمہوری کرداروں سے نہیں بلکہ ایسے انقلاب سے بدلے گی جس میں ’عدل برسراقتدار ہو۔‘ جب انصاف تک فوری رسائی ہر خاص و عام کے لئے ممکن بنا دی جائے۔ جب وکلاء کی بھاری فیسیں انصاف کی راہ میں حائل نہ ہوں۔ تصور کیجئے ایسے ملک کا‘ جس کی صرف عدالت عظمیٰ (سپرئم کورٹ آف پاکستان) کے سامنے لاکھوں کی تعداد میں مقدمات زیرالتوأ ہیں؟ تصور کیجئے کہ سال دوہزار گیارہ میں عدالت عظمیٰ میں زیرالتوأ مقدمات کی تعداد 19 ہزار تھی جو یکم دسمبر دوہزار سترہ تک بڑھتے بڑھتے 38 ہزار 200 ہو چکی ہے اُور رواں برس (دوہزارسترہ) کے پہلے گیارہ ماہ کے دوران ’’7 ہزار‘‘ نئے مقدمات عدالت عظمیٰ میں درج ہو چکے ہیں! اگر اِنصاف کی فراہمی میں تاخیر‘ اِنصاف سے انکار نہیں تو پھر یہ سب ماجرا کیا ہے؟ ’’چپک رہا ہے بدن پر لہو سے پیراہن ۔۔۔ ہمارے جیب (زخم) کو اَب حاجت رفو کیا ہے۔ (غالبؔ )۔‘‘
یادش بخیر‘ جنوری دوہزار پندرہ میں پاکستان کی نامور اور ایک سے بڑھ کر ایک دانشوروں پر مشتمل پارلیمانی جماعتوں نے اِتفاق رائے سے ’اِنسداد دہشت گردی کی بیس نکاتی حکمت عملی (نیشنل ایکشن پلان)‘ تشکیل دی۔ رواں ہفتے (دسمبر دوہزارسترہ) میں ’’اِنسانی حقوق اُور کاروبار‘‘ سے متعلق بھی ’نیشنل اَیکشن پلان‘ بنانے کی ضرورت اُور صورتحال کا جائزہ لینے کے لئے ’2 روزہ‘ اجلاس کا اختتام اِس تشویش کے اظہار پر ہوا کہ ’’پاکستان کے آئین میں اِنسانی حقوق کے تحفظ کی ضمانت ملتی ہے لیکن پاکستان میں لگ بھگ چھ کروڑ افرادی قوت (ورک فورس) ایسی ہے جس کے لئے روزگار کے مواقع یا تو دستیاب نہیں یا پھر اِن کے لئے آمدنی کے ذرائع پائیدار نہیں اور وہ بد ترین معاشی صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں!‘‘ یہ جملے کسی حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے سیاسی رہنما کے منہ سے اَدا نہیں ہوئے بلکہ وفاقی وزیر برائے اِنسانی حقوق ممتاز احمد تارڑ کے ہیں جو (اُنیس دسمبر کے روز) ’پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار پارلیمنٹری سروسیز اُور عالمی ادارے ’آکس فام (Oxfam)‘ کے زیرانتظام ’دو روزہ مشاورتی اِجلاس‘ سے خطاب کررہے تھے۔ اِجلاس کا بنیادی مقصد قانون سازوں کی آنکھیں کھولنا تھا تاکہ وہ اپنی ذمہ داری اور فرائض کا احساس کریں اور فیصلہ و قانون سازی میں پاکستان کی معاشی و اقتصادی صورتحال‘ افرادی قوت اور انسانی حقوق کو بھی مدنظر (پیش نظر) رکھیں! وفاقی وزیر کی جانب سے حاضرین کو مزید حیرت و صدمے میں مبتلا کرنے کے لئے یہ بھی اِرشاد فرمایا گیا کہ ’’پاکستان میں (بالعموم) مزدوروں کے حقوق غصب ہو رہے ہیں‘ جس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ملازمین کے لئے حکومت کی مقرر کردہ ’کم سے کم‘ تنخواہ کی شرح کے مطابق تنخواہیں اَدا نہیں کی جاتیں۔
نجی ادارے بڑے پیمانے پر ملازمین کا استحصال کرتے ہیں۔ مزدور یونین بنانے کی راہ میں رکاوٹیں حائل کرنا بھی ایک معمول ہے۔ ملازمت کے اُوقات کار اُور حالات کار محفوظ نہیں ہیں جبکہ ملک بھر میں لاکھوں بچے اور خواتین بہ حالت مجبوری نامساعد حالات میں ملازمت کر رہے ہیں اور اُنہیں سخت ترین جسمانی محنت کا کم ترین معاوضہ دیا جاتا ہے۔‘‘
اجلاس کے شرکاء نے زور دیا کہ ’’پاکستان انسانی حقوق کے تحفظ اور معاشی سرگرمیوں میں بہتری کے لئے ’قومی حکمت عملی‘ تشکیل دینا ’ناگزیر ضرورت‘ بن چکی ہے اور حکومت کو چاہئے کہ وہ اِس کے لئے اقدامات کرے۔ ‘‘ یاد رہے کہ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارہ برائے ’’تحفظ اِنسانی حقوق‘‘ نے سال دوہزار چودہ میں رکن ممالک کو بنیادی حقوق کی عملداری یقینی بنانے کے لئے ’’نیشنل ایکشن پلان‘‘ تیار کرنے کو کہا تھا اور اِسی سلسلے میں اُنیس دسمبر کو اسلام آباد میں اِجلاس اِس سلسلے میں جاری کوششوں کو نکتۂ عروج ہے‘ جس میں ملک بھر سے مندوبین شریک ہوئے لیکن مہمان خصوصی (وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق) ممتاز تارڑ کی سنجیدگی اور ترجیحات کا اندازہ لگائیں کہ موصوف بروقت نہ پہنچ سکے‘ جس کی وجہ سے اجلاس ڈیڑھ گھنٹے تاخیر سے شروع کیا گیا اور ملکی و غیرملکی مندوبین اُن کی راہ دیکھتے رہے۔ وزیر موصوف کو اگر اجلاس کی حقیقت (اہمیت) کا احساس ہوتا تو رسمی خطاب کرنے کے بعد عجلت کا مظاہرہ نہ کرتے اُور اُنہی قدموں پر واپس نہ جاتے‘ جن پر چل کر آئے تھے بلکہ تقریب کے اختتام تک موجود رہتے۔
مذکورہ نشست میں صوبائی صورتحال پر الگ الگ غوروخوض کرتے ہوئے مقررین کی جانب سے جس ایک بات کا بار بار ذکر کیا گیا وہ یہ تھا کہ ’’نیشنل ایکشن پلان متعلقہ وزارت کے لئے اچھوتا تصور تو ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ وفاقی سطح پر تحفظ اِنسانی حقوق سے متعلق اِس قسم کا موضوع آج سے پہلے کبھی بھی زیر بحث نہیں آیا۔‘‘ رکن قومی اسمبلی شہریار آفریدی بھی اِس موقع پر موجود تھے جنہوں نے وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق کے طرز عمل پر تنقید کر کے خوب داد وصول کی۔ انہوں نے سچ کہا کہ ’’یہ امر افسوسناک ہے کہ انتہائی اہم نوعیت کے موضوع پر بات چیت کے لئے بھی ’وزیر انسانی حقوق‘ کے پاس وقت نہیں اُور (شاید) اِسی وجہ سے فیصلہ ساز اور اسٹیک ہولڈز عالمی قوانین برائے انسانی حقوق اُور کاروباری سرگرمیوں کے تعلق سے لاعلم ہیں جس کی وجہ سے عالمی سطح پر پاکستان کا مذاق اُڑایا جاتا ہے۔‘‘
بلاشک و شبہ ’سنجیدہ حکومتی روئیوں‘ کی ضرورت ہے۔ اِنسانی حقوق اُور کاروبار کے رہنما اصولوں کو عملی شکل دینے لئے تحفظ ماحول کو یقینی بنانا ہوگا۔ قابل کاشت اراضی‘ جنگل‘ جنگلی حیات اور دیہی آبادیوں کا مستقبل محفوظ بنانے کے لئے بلدیاتی اداروں کو منظم‘ مضبوط اور فعال کرنا ہوگا۔
دو روزہ نشست کا حاصل ’’مثبت و محتاط نکتۂ نظر‘‘ (لب لباب) یہ ہے کہ ۔۔۔ پاکستان میں بنیادی اِنسانی حقوق کا تحفظ‘ محنت کشوں‘ مزدوروں‘ کسانوں‘ ملازمت پیشہ افراد‘ خواتین اور بچوں کا استحصال روکنے کے لئے قوانین سازی اور قوانین کے اطلاق میں بہتری کی گنجائش موجود ہے۔ جہاں کروڑوں بچے جبری مشقت کی وجہ سے افرادی قوت کا حصہ بن گئے ہیں۔ جہاں مجبور خواتین کو مردوں کے مقابلے میں کم اُجرت پر ملازم رکھنے کا رجحان پایا جاتا ہے۔ جہاں کم عمر گھریلو ملازم غلاموں کی طرح بدترین زندگی بسر کر رہے ہیں۔ جہاں بااثر کاروباری طبقات ’’لیبرقوانین‘‘ کا احترام نہیں کرتے اور جہاں حکومتی اِدارے قوانین شکنی پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں‘ اُس ملک کی برآمدات اور عالمی سطح پر ساکھ ہمیشہ خطرے میں رہے گی۔
۔
No comments:
Post a Comment