ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
ڈُوبتا یقین!
پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے ایوان بالا (سینیٹ) اراکین کو پاکستان کی داخلی اور خطے (جنوب مشرق ایشیاء میں آنے والی تبدیلیوں سے متعلق) صورتحال کے بارے میں بریفنگ دی ہے‘ جس سے اُمید ہے کہ ابہام دور اُور دونوں اہم ادارے (پارلیمان اور فوج) کے درمیان فاصلے کم ہوں گے۔ سردست اراکین اسمبلی میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ پاک فوج قومی فیصلے بلاشرکت غیرے (بناء مشاورت) کرتی ہے اور جب فوجی مداخلت سے داخلی و خارجی معاملات انتہاء تک خراب ہو جاتے ہیں تو اُسے سیاست دانوں کو سونپنا پڑتا ہے جو مشکل کی اُس گھڑی ’سودا بازی‘ کرتے ہیں اور اپنی بدعنوانیوں اور قوانین سے خود کو مستثنیٰ قرار دلواتے ہیں۔ سینیٹ میں ایسی کئی آوازیں اٹھ رہی ہیں جن میں سب سے توانا پاکستان پیپلزپارٹی (پارلیمینٹرین) کی جانب سے ہے کہ ’’پاکستان کے سیاسی اور انتظامی معاملات سے فوج کے ادارے کو الگ ہونا چاہئے اور قومی پالیسیوں سے متعلق اُس کا ’فیصلہ کن کردار‘ بھی محدود بلکہ پارلیمان کے تابع ہونا چاہئے۔‘‘ پاکستان میں قومی اداروں کے درمیان پائی جانے والی ’بداعتمادی‘ ماضی میں بھی رہی لیکن جس انداز میں اِس کا کھل کا اظہار فی الوقت دیکھنے میں آرہا ہے اُس کی مثال نہیں ملتی۔
قومی ادارے جب ایک دوسرے سے مربوط (ہم آہنگ) نہ ہوں تو اُن کی وضع کردہ پالیسیاں کس طرح قومی مفاد میں ’جامع (وسیع تر حجم) کی مالک ہو سکتی ہیں؟
پاکستان کی داخلی افراتفری پر مبنی صورتحال سے فائدہ اٹھانے والوں میں امریکہ سرفہرست ہے جس نے جنوب مشرق ایشیاء کے لئے اپنی حکمت عملی تبدیل کر دی ہے اور وہ اب نہ صرف بھارت کو خطے میں کلیدی کردار (اہمیت) دے رہا ہے بلکہ پاکستان کے خلاف ہونے والی سازشوں اور دہشت گردی کے بارے میں اُسے تشویش نہیں! بھارت کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کر رہا ہے تو اِس کا ملبہ بھی پاکستان پر ڈال کر اُسے ’عالمی عدالت میں باعزت بری‘ کردیا جاتا ہے۔ مقام حیرت ہے کہ جب اَجمل قصاب نے بھارت میں دہشت گرد حملہ کیا تو اُس حملے یا سازش میں پاکستان کی ریاست شامل نہیں تھی اُور نہ ہی پاکستان کی ریاست یا کسی ریاستی ادارے نے اجمل قصاب یا اُس دہشت گرد حملے کی حمایت کی لیکن جب کلبھوشن یادیو نامی بھارتی جاسوس پاکستان سے گرفتار ہوا تو بھارت اِس معاملے کو عالمی عدالت اِنصاف تک لیجا چکا ہے‘ اُور اُسے رتی بھر بھی خفت نہیں کہ وہ پاکستان میں دہشت گرد کاروائیوں میں ملوث ہے اور اِس بات کے ناقابل تردید ثبوت و زندہ شواہد موجود ہیں!
بھارت کی اِس جرأت (ہٹ دھرمی) کی پشت پناہی یقیناًامریکہ کر رہا ہے جس نے پاکستان پر اقتصادی جنگ مسلط کر رکھی ہے اور بات صرف ’سرد جنگ‘ کی حد تک محدود نہیں بلکہ امریکی قیادت کی جانب سے الفاظ اور کردار بدل بدل کر پاکستان کو ’ڈومور‘ کرنے کے ساتھ باقاعدہ دھمکیاں بھی دی جا رہی ہیں۔ اِس پورے منظرنامے میں تین محرکات بالخصوص لائق توجہ ہیں: (1: پاکستان عالمی سطح پر اپنے خلاف بھارتی سازشوں کا دفاع (مقابلہ) کامیابی سے نہیں کر پا رہا۔ 2: پاکستان امریکہ اور عالمی برادری کو مطمئن نہیں کر پا رہا کہ وہ دہشت گرد نہیں بلکہ بذات خود دہشت گردی کا شکار (دوچار) ہے اُور 3: پاکستان کی مشرقی و مغربی سرحدیں پہلے سے زیادہ ’غیرمحفوظ‘ ہو چکی ہیں تو پاکستان عالمی برادری سے کس قسم یعنی دفاعی‘ سیاسی اور سفارتی تعاون کا طلبگار ہے؟ اِن سبھی امور کے بارے میں ’پاک فوج‘ کی سوچ‘ لائحہ عمل اور اب تک کا عمل درآمد کس مقام پر کھڑا ہے‘ اِس کا تعین بہرحال ضروری ہے‘ یقیناًہر ملک کے اپنے اپنے مفادات ہوتے ہیں لیکن امریکہ کی جانب سے ’ڈومور‘ کے مطالبے میں تیزی آ رہی ہے تو اِس کی وجہ ہماری سیاسی و سفارتی کمزوریاں کا علاج بھی ضروری ہے۔
پاکستان کو دباؤ میں لانے کے منجملہ مقاصد میں یہ بات بھی شامل ہے کہ فلسطین اور اسرائیل کے حوالے سے درمیانہ راستہ اختیار کیا جائے اور پاکستان امریکی پالیسیوں کی مخالفت میں اُس حد سے آگے نہ بڑھے جہاں اُس پر ایران کا گمان ہونے لگے کیونکہ امریکہ دنیا میں صرف ایک ہی ایران چاہتا ہے اور کسی دوسرے ملک (بالخصوص ترکی اور پاکستان) کی سیاسی قیادت کو اتنی ’چھوٹ‘ نہیں دے سکتا کہ وہ اُس کے لئے پہلے سے موجود‘ دردسر کی شدت میں اضافے کا باعث بنیں۔
اُنیس دسمبر کے روز پاک فوج کے سربراہ (چیف آف آرمی سٹاف) جنرل قمر جاوید باجوہ کی سینیٹ آمد اور یریفنگ سے غیرمتوقع طور پر ایوان بالا میں فوج کو کاروباری سرگرمیوں سے روکنے اور انہیں دفاعی معاملوں تک محدود کرنے کے لئے تحریک پیش کی گئی۔ ’’روح بے چین ہے اِک دل کی اذیت کیا ہے ۔۔۔ دل ہی شعلہ ہے تو یہ سوزِمحبت کیا ہے!‘‘ سینیٹ میں پیش کردہ مذکورہ تحریک پر بحث کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر محسن عزیز اور پاکستان پیپلز پارٹی (پارلیمینٹرین) کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے دوران اجلاس (آن دی ریکارڈ) کہا کہ ’’فوج سے کاروباری اور کمرشل سرگرمیوں کے منصوبے واپس لے کر انہیں نجی شعبوں کو دیا جانا چاہئے تاکہ نجی شعبوں کو زیادہ سے زیادہ کاروبار کرنے کے مواقع مل سکیں۔‘‘ انہوں نے سینیٹ میں فوج کے زیرنگرانی پچاس سے زائد ذیلی اِداروں کی تفصیلات پیش کیں‘ جن میں سیمنٹ‘ زرعی کھادیں (فرٹیلائزر)‘ چینی کی پیداوار‘ مالیاتی اِدارے (بینکنگ) اُور تجارتی و رہائشی جائیداد کی خریدوفروخت (رئیل اسٹیٹ) سمیت دیگر کئی اداروں کو فہرست کیا گیا ہے۔ تحریک میں کہا گیا ہے کہ ’’فوج کے زیرنگرانی اداروں میں شفافیت کا فقدان پایا جاتا ہے اور معاہدوں (کنٹریکٹس)کو بغیر بولی جاری کرنا اور فوجی اِداروں کا آپس میں ایک دوسرے کو قرض دینے سے متعلق سوالات کا جواب (جواز) چاہتا ہے۔‘‘
سینیٹ اجلاس میں حکومت کی جانب سے امریکہ کو پاکستان کی حدود میں سال دوہزار کے بعد سے ہونے والے ڈرون حملوں سے معصوم شہریوں کو ہونے والے نقصان کا معاوضہ ادا کرنے پر بھی قرارداد منظور کی گئی لیکن سوال یہ ہے کہ ایک ایسے موقع پر جبکہ پاک فوج کا سربراہ کی سینیٹ آمد ہونے والی تھی اور اُس سے صرف ایک دن پہلے اِس قسم کی بحث سے کیا یہ تاثر نہیں دیا گیا کہ پارلیمان فوج کے ادارے پر اعتماد نہیں کرتی اور اُس کے معاملات کو شک کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ پاکستان میں اِداروں کے درمیان پایا جانے والا یہ ’ڈوبتا یقین‘ کسی بھی طرح خوش آئند نہیں اور نہ ہی اِس کے اظہار سے کسی بھی قسم کی قومی خدمت ہو رہی ہے بلکہ پہلے سے سنجیدہ و پیچیدہ معاملات کو مزید اُلجھایا جا رہا ہے جس کا فائدہ دہشت گرد اُٹھا رہے ہیں۔
سترہ دسمبر کے روز کوئٹہ کے ’مرکزی گرجاگھر‘ پر حملہ اِس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ دہشت گرد کی طاقت کے مراکز منتشر تو ہو چکے ہیں لیکن وہ آج بھی اپنی (ضمیرفروش) قیادت پر انتہاء درجے کا اِعتماد اُور ’غیرمتزلزل یقین‘ رکھتے ہیں‘ جس کا (بدقسمتی سے) قومی اِداروں میں فقدان پایا جاتا ہے!
۔
No comments:
Post a Comment