ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
برفباری اور سرد مہری!
’’سر میں سموم سروری‘ رُخ پہ رقوم دلبری‘ دل میں ہجوم قاہری‘ لب پہ نجوم ابتسام‘‘ جیسا رنگارنگ منظر پیش کرنے والے ’خیبرپختونخوا کے بالائی علاقے‘ بالخصوص ہزارہ ڈویژن کے معروف سیاحتی مقامات ’گلیات‘ نے موسم سرما کی ’پہلی برف باری‘ کے بعد سفید چادر اُوڑھ لی ہے‘ جنہیں دیکھنے اور برف پوش وادیوں میں پھیلی خوبصورتی اور موسم سے محظوظ ہونے کے لئے ملکی و غیرملکی سیاحوں کی ایک بڑی تعداد اُمڈ آئی ہے‘ جو خلاف توقع نہیں۔
گلیات ڈویلپمنٹ اتھارٹی (جی ڈی اے) کے مطابق ماہ دسمبر کے پہلے ہفتے ہوئی برفباری دیکھنے کے لئے تین لاکھ سے زائد سیاح آ چکے ہیں یہ بھی خلاف توقع نہیں جبکہ اکیس مارچ تک جاری رہنے والے برفباری کے متوقع ’سیزن‘ کے دوران یہ تعداد مجموعی طور پر دس لاکھ سے تجاوز کر جائے گی لیکن یہ تعداد بڑھنے کی توقع ہے۔ موسم سرما ہو یا گرما‘ گلیات کی کشش لاکھوں سیاحوں کو کھینچ لاتی ہے لیکن خیبرپختونخوا حکومت کے بلندبانگ دعوؤں کے باوجود گلیات (ضلع ایبٹ آباد کے بالائی بیشتر دیہیعلاقوں) میں بنیادی سہولیات کی سارا سال ہی فقدان رہتا ہے۔ قیام و طعام جیسی نجی خدمات فراہم کرنے والے سیاحوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے اور گراں فروشی کی انتہاء کر دیتے ہیں‘ جبکہ برف ہٹانے‘ بہتر و معیاری سہولیات اور سیاحوں کی رہنمائی اور شکایات کے لئے مربوط نظام کا مطالبہ ایک عرصے سے اِنہی سطور کے ذریعے بار ہا دہرایا جا رہا ہے‘ لیکن مجال ہے جو فیصلہ سازوں میں سے کسی ایک کے کان پر بھی جوں رینگے۔ ہر سال کی طرح اِس مرتبہ بھی برفباری اور نظاروں سے محظوظ ہونے کے لئے آنے والوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جبکہ گلیات (آٹھ یونین کونسلوں پر مشتمل ’سرکل بکوٹ‘) میں رہنے والے مقامی اَفراد کی زندگیاں بھی آسان نہیں ہوئی‘ جنہیں عمومی و اجتماعی طور پر برفباری سے راستوں اور بجلی کی بندش سے پیدا ہونے والے حالات سے نمٹنے کا گویا تجربہ ہو چکا ہے۔
حکومتیں تبدیل ہوتی رہتی ہیں لیکن گلیات کی قسمت وہی کی وہی ہے۔ رواں ماہ ہوئی چند روزہ برفباری کے بعد سے ایبٹ آباد مری روڈ (مرکزی شاہراہ) کئی مقامات پر بند رہنے سے سیاح پھنسے رہے۔ نتھیاگلی‘ ڈونگا گلی اور ایویبہ کی سیر کے لئے آنے والوں پاس گاڑیوں کا ایندھن نہ رہا حتیٰ کہ موبائل فون کی بیٹریوں نے بھی کام چھوڑ دیا‘ جو ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بذریعہ سماجی رابطہ کاری اکاونٹس صورتحال سے مطلع کرتے رہے لیکن اس دوران متعلقہ حکام کی سردمہری و بے حسی کا سورج سوا نیزے پر چمکتا رہا۔ ’جی ڈی اے‘ حکام نے ’خیبرپختونخوا ہائی وے اتھارٹی‘ کی درخواست پر باڑہ گلی سے نتھیاگلی اور ایویبہ تک کے راستوں کی صفائی کی تو اِس کا خوب چرچا کیا گیا لیکن محدود پیمانے پر ہونے والی اِن کوششوں اور جاری برفباری زیادہ بڑے پیمانے پر انتظامات کی متقاضی تھی۔ کیا متعلقہ حکام کو علم نہیں ہوتا کہ ہر سال گلیات میں برف پڑنے کے بعد‘ ذرائع ابلاغ پر برفباری کی خبریں نشر ہونے کے ساتھ ہی سیاحوں کی آمد شروع ہو جاتی ہے لیکن نہ تو صوبائی حکومت کے ادارے اور نہ ہی ضلعی حکومتیں سیاحوں کی رہنمائی اور اُن کی شکایات کے ازالے کے لئے صف بستہ ہوتے ہیں۔
ایک عرصے سے گلیات کے لئے ’ٹورازم ایف ایم ریڈیو‘ اور سیاحوں کی گلیات میں داخلے کے موقع پر رجسٹریشن کی تجاویز دی جا رہی ہیں جو متعلقہ حکام کے سامنے زیرغور بھی ہیں لیکن چونکہ سہولیات کی فراہمی سے متعلق ایک جیسی ذمہ داری کے لئے ایک سے زیادہ ادارے فعال ہیں اِس لئے کوئی ایک حکومتی ادارہ اِسے اپنی ذمہ داری قرار نہیں دیتا۔ سیاحت کے فروغ کا ادارہ‘ گلیات کی ترقی کا ادارہ‘ شاہراؤں کی تعمیر و مرمت‘ توسیع اور اُنہیں سارا سال قابل استعمال رکھنے والا ادارہ اُور ضلعی حکومتیں اپنی اپنی جگہ موجود تو ہیں‘ ملازمین کی فوج ظفرموج بھی ہے اور ’’مراعات کی تقسیم‘‘ کا سلسلہ بھی جاری و ساری ہے لیکن اِس افرادی قوت اور وسائل کا عام آدمی (ہم عوام) کی مشکلات کم سے تعلق نہیں! پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نتھیاگلی سے عشق کی حد تک لگاؤ رکھتے ہیں اور موسم گرما میں اُن کے لئے گوشۂ سکون یہی مقامات رہے حتی کہ اپنے صاحبزادوں کو سیروتفریح کروانے کے لئے بھی وہ گلیات اور شمالی علاقہ جات کا رخ کرتے ہیں جبکہ اِن علاقوں میں سیاحوں کے لئے فراہم کردہ سہولیات (مقدار و معیار کے لحاظ سے) اُنہیں دکھائی نہیں دیتیں۔ حقیقت یہ ہے کہ عمران خان باریک بین نہیں وہ سرسری طور پر بڑے بڑے فیصلے اور حکم صادر کرنے میں اپنا ایک خاص مزاج کی بدولت جس کسی چیز کے بارے میں ایک مرتبہ رائے قائم کر لیں تو اُس سے رجوع نہیں کرتے اور نہ ہی مڑ کر دیکھتے ہیں! اُن کی سماعتوں کو بھلے لگنے والے اعدادوشمار بھی ’ذہنی تفریح و تسکین‘ کا ذریعہ ہیں اور ساڑھے چار سال کی حکومت میں افسرشاہی جان چکی ہے کہ ’خان صاحب‘ کو کس طرح مطمئن کیا جا سکتا ہے۔
حالیہ برفباری کے دوران‘ خوش قسمتی رہی کہ گلیات میں کوئی بڑا ٹریفک حادثہ نہیں ہوا۔ چند ایک مقامات پر درجنوں گاڑیاں پھسلن کے باعث آپس میں ٹکرائیں جس سے مالی نقصانات ہوئے اور اگر شاہراہیں صاف کرنے کے بڑے پیمانے پر اور بروقت انتظامات کئے جاتے تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ برفباری دیکھنے کے لئے آنے والوں کو زیادہ لطف آتا اور اُن کے ساتھ اچھی یادیں واپس جاتیں۔ ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر (ڈی پی اُو) ایبٹ آباد ’اشفاق انور‘ کے مطابق پولیس کی اضافی نفری اور ٹریفک پولیس کے حکام تعینات کر دیئے گئے تھے‘‘ جس کا فائدہ یقیناًہوا لیکن سیاحوں کے ساتھ مقامی افراد اور گلیات سے جڑی رابطہ شاہراؤں (لنک روڈز) کئی مقامات پر تاحال بند ہیں‘ جن کا کوئی پرسان حال نہیں۔ صوبائی حکومت نے انقلابی اقدام کرتے ہوئے سرکل بکوٹ کی آٹھ یونین کونسلوں کو ’گلیات‘ میں شامل کر دیا ہے تاہم رابطہ شاہراؤں میں توسیع اور انہیں قابل استعمال رکھنے سے متعلق اعلانات (انتخابی وعدے) ہنوز پورے نہیں کئے جاسکے اور اگر تحریک انصاف سرکل بکوٹ پر مشتمل علاقوں کو الگ تحصیل کا درجہ دینے کا وعدہ پورا نہیں کرتی تو اِس کے نامزد انتخابی اُمیدواروں کو آئندہ عام انتخابات میں عوام کی تنقید کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے‘ جو گلیات کے چند علاقوں پر نظرکرم سے نالاں ہیں اور چاہتے ہیں کہ دیہی علاقوں میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی جیسی بنیادی ضرورت ہی کم سے کم فراہم کر دی جائے۔
عجب ہے کہ برطانوی راج کے ایک معاہدے کے تحت گلیات (خیبرپختونخوا) سے پینے کا پانی مری (پنجاب) کو فراہم (سپلائی) ہوتا ہے لیکن مقامی افراد اِس آب زلال سے محروم تھے‘ آج بھی محروم ہیں!
۔
No comments:
Post a Comment