ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
(سبق آموز) عدالتی فیصلے!
پانامہ کیس فیصلے (اَٹھائیس جولائی) کے بعد سے ’عدالت عظمیٰ (سپرئم کورٹ آف پاکستان)‘ کو شک کی نگاہ سے دیکھنے کا سلسلہ ’’منظم تحریک‘‘ کی صورت جاری ہے جس کی قیادت و سرپرستی وفاقی حکمراں جماعت کے سربراہ نواز شریف کر رہے ہیں۔ سولہ دسمبر کی شام برطانیہ سے پاکستان کے لئے روانہ ہونے سے قبل اور سترہ دسمبر کی صبح پاکستان پہنچنے پر اُنہوں نے ذرائع ابلاغ کے ذریعے عدالتی فیصلوں پر ایک مرتبہ پھر ’عدم اطمینان‘ کا اظہار کیا جو یقیناًبناء سوچے سمجھے نہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ پاکستان میں انصاف کی فراہمی کے واحد ذریعے پر ’تنقیدی نشتر‘ چلانے اور شکوک و شبہات پیدا کرنے کی مہم (کوشش) کا درپردہ مقصد عام آدمی (ہم عوام) کی زندگیوں میں غربت‘ جہالت اور محرومیوں کے بعد مایوسی بھرنا ہو اور یہ باطل یقین دلانا مقصود ہو کہ ’’پاکستان میں انصاف نہیں مل رہا؟‘‘ برسرزمین حقائق اِس کے اُلٹ ہیں اور سچ تو یہ ہے کہ جن سیاسی رہنماؤں نے اپنے بچوں اور اثاثہ جات بیرون ملک (متحدہ عرب امارات و برطانیہ سمیت پانچ براعظوں میں) پھیلا رکھا ہے‘ اُن کی جانب سے پاکستان میں انصاف کی مبینہ عدم دستیابی پر بے چینی کے اظہار کا مقصد صرف اور صرف یہی ہے کہ انہیں ایک مرتبہ پھر پاکستان کے وسائل کی لوٹ مار کرنے کی کھلی چھوٹ دی جائے۔
افسوس کا مقام ہے لیکن اچھا ہی ہوا کہ پاکستان میں ’انصاف اور عدالت کا دفاع‘ کرنے کے لئے چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار بذات خود میدان میں اُترے۔ سولہ دسمبر کے روز‘ وکلاء کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے جس گرمجوشی سے اپنا مؤقف اور عدالتی فیصلوں سے متعلق وضاحت پیش کی اُس کے بعد صرف اِس ایک بات کی گنجائش باقی رہ جاتی ہے کہ وہ عدالت پر معترضین کے ساتھ مناظرہ ’ٹیلی ویژن‘ پر براہ راست نشر کیا جائے۔ علاؤہ ازیں مستقبل میں بدعنوانیوں (کرپشن) سے متعلق تمام مقدمات کی سماعتیں ٹیلی ویژن پر براہ راست نشر کرنے سے بھی ایسے عناصر کی حوصلہ شکنی اور انہیں اخلاقی شکست دی جاسکتی ہے جو عدالت میں ’’بھیگی بلی‘‘ اُور بعدازاں ’’شیر‘‘ بن کر دھاڑتے دکھائی دیتے ہیں!
چیف جسٹس کے بیان کا ہر ایک لفظ قابل غور اور لائق توجہ ہے جس کی روشنی میں مستقبل کے اُس پاکستان کا منظرنامہ زیادہ واضح دکھائی دینے لگا ہے جہاں بدعنوانی اور بدعنوان عناصر کے لئے کوئی جگہ نہیں ہوگی۔ چیف جسٹس نے جو کچھ کہا اُس کے بعد مزید کہنے یا اُس میں اِضافہ کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ یہ کہا جائے کہ چیف جسٹس نے پاکستان کی اکثریت کے جذبات کی ترجمانی کی ہے تو غلط نہیں ہوگا۔ انہوں نے کہا ۔۔۔ ’’ریاستی اَمور ایماندار اُور صادق لوگوں کی جانب سے نہیں چلائے جارہے‘ جس کی وجہ سے عوام پریشانی کا شکار ہیں اور دنیا کے ترقی یافتہ ممالک سے پیچھے ہیں لہٰذا یہ انتہائی ضروری ہے کہ ریاست کے انفراسٹرکچر ایمانداری کے مقصد (اَصول مدنظر رکھتے ہوئے) سے بنایا جائے۔‘‘ اُنہوں نے ’پاکستان تحریک اِنصاف‘ کے سابق سیکرٹری جنرل جہانگیر ترین کی نااہلی کیس سے متعلق ’اَسی صفحات‘ پر مشتمل فیصلے کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ ۔۔۔ ’’لوگوں یہ اندازہ کرنا چاہئے کہ اقتدار میں رہنے والے اور خاص طور پر عوام کے نمائندے منتخب ہونے والے ایماندار ہونے چاہئیں کیونکہ ایمانداری کسی بھی شخصیت کی فضیلت میں ایک (اہم جز) ہے۔‘‘
چیف جسٹس ’انفرادی فضیلت‘ ایمانداری کے پیمانے اُور اہلیت کی جس ’کسوٹی‘ کا ذکر کر رہے تھے اُس کا تعلق ریاستی آئین اُور اِدارہ جاتی قواعد و ضوابط ہی سے نہیں بلکہ خوداحتسابی سے ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی کسی ایک بھی سیاسی جماعت کا سربراہ اُور نائبیئن ’امانت و صداقت‘ کے اُس (کم سے کم) معیار پر پورا نہیں اُترتے جو مصلح اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے قول اور عمل سے مقرر فرمایا اُور اَب قیامت تک اُس میں ردوبدل ممکن نہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ پاکستان کا بیک وقت ’’اسلامی‘‘ اُور ’’جمہوری‘‘ ملک ہونا اپنی ذات میں گمراہ کن تصور ہے۔ اسلام اور جمہوریت ایک نہیں بلکہ دو الگ الگ تصورات (نظریئے) ہیں اور اِن کو اکٹھا کر کے ایک نیا نظام تشکیل دینا تو ممکن ہے لیکن اِن دونوں سے بیک وقت استفادہ اور فلاح کا حصول بذات خود سراب ہے! عدالت عظمیٰ نے عمران خان اور جہانگیر ترین نااہلی کیس کے فیصلے میں جس غیرجانبداری کا مظاہرہ کیا‘ اور جو ضمنی تصورات کھول کر بیان کئے‘ اُس سے عدالت کے وقار اور ساکھ میں اضافہ ہی نہیں بلکہ اِس میں ایک نئی جان پڑ گئی ہے۔ فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ ’’ریاست کی پالیسیوں کو دیکھنے کے لئے سپرئم کورٹ سب سے بڑا ادارہ ہے جس کے علاؤہ ریاست کا دوسرا نگران و بااختیار ادارہ بھی اسی سے ماخوذ ہوسکتا ہے‘ اگرچہ (عوام کے منتخب نمائندوں پر مشتمل) پارلیمان‘ قانون سازی کے عمل اُور انتظامیہ کے ایگزیٹو اقدامات کی توثیق کا عدالتی جائزہ لیا جاسکتا ہے تاہم ان اقدار کو آئین کی حدود میں رہ کر قانون کے مختلف اَصولوں اورعدالتوں کی تشریح کے مطابق استعمال کیا جانا چاہئے۔‘‘ حالانکہ اِس کی قطعی کوئی ضرورت نہیں تھی لیکن جذباتی حدوں کو چھوتے فیصلے میں اِس عزم کا اظہار بھی کیا گیا کہ ’’عدالتی حکم نامے کو ایسے لوگوں کے ہاتھ کا آلہ نہیں بننے دیں گے جو عدالتوں میں بدنیتی کے ساتھ آتے ہیں۔ پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کو سر پر تلوار رکھ کر کام کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی‘ یہ لوگ آئین کے ’’آرٹیکل دو اے‘‘ کے تحت عوام کے منتخب کردہ نمائندے ہیں۔ ریاست کو اپنے منتخب کردہ نمائندوں کے ذریعے اپنی طاقت اور اختیارات کا استعمال کرنا چاہئے۔ اس کے علاؤہ ارکان پارلیمان کو بدنام کرنے‘ دھمکی دینے اور غیر معمولی ہراساں کرنے کی دوبارہ اجازت نہیں دی جاسکتی۔‘‘
تحریک انصاف کے رہنماؤں (عمران خان اور جہانگیر ترین) کے خلاف فیصلے میں بہت کچھ ایسا بھی تحریر ہے جن کا تعلق اِس مقدمے سے ضمنی طور پر تو ہے لیکن فیصلے کے ذریعے دیگر سیاسی جماعتوں کو ’عدالت کے مزاج‘ اُور ’توقعات‘ سے آگاہ (متنبہ) کر دیا گیا ہے‘ اب دیکھنا یہ ہے کہ اشارے کنائیوں کی زبان کس کس کی سمجھ میں آتی ہے اور وہ کون کون ہے جو دوسروں کی غلطیوں یا دوسروں سے متعلق سبق آموز عدالتی فیصلوں سے عبرت حاصل کرتا ہے۔
۔
No comments:
Post a Comment