ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
تین صدیاں!
سولہ دسمبر کے زخم ہرے ہیں۔ آرمی پبلک سکول (اَے پی اَیس) پر دہشت گرد حملے کے تین سال نہیں‘ جیسے تین برس بیت گئے ہوں! یوں تو ’اے پی ایس سانحے‘ پر ہر آنکھ اشکبار ہوئی لیکن یہ دُکھ صرف اُن متاثرین کی ذات تک محدود نظر آتا ہے‘ جن کی آنکھیں آج بھی اپنے پیاروں کی منتظر ہیں۔ پاکستان تو کیا دنیا ’ایک سو بتیس‘ طالب علموں سمیت ڈیڑھ سو شہادتیں کبھی فراموش نہیں کی جا سکیں گی‘ لیکن اِس سانحۂ کے معلوم حقائق اور نتائج کی روشنی میں قومی سطح پر جو لائحۂ عمل (نیشنل ایکشن پلان) تشکیل دیا گیا‘ اُس پر مکمل عمل درآمد آج تک ممکن نہیں ہوسکا‘ اگرچہ ایک ہزار سے زائد دن (ایک سو چھپن ہفتے یا چھبیس ہزار سے زائد گھنٹے) گزر چکے ہیں!
سانحۂ اے ایس کے متاثرین کی یادیں دل ہلا دینے والی ہیں۔ مثال کے طور پر ایک ماں جس کے ’دو جوان بیٹے‘ شہید ہوئے اور اُس کے لئے ’تین بیٹیوں‘ کے ساتھ زندگی کٹتے نہیں کٹ رہی کا کہنا ہے کہ ۔۔۔ ’’گویا میرے دونوں ہاتھ کٹ چکے ہیں۔ تین برس میں کوئی ایک رات بھی ایسی نہیں گزری جب ہم گھر والوں (میاں بیوی اور تین بیٹیوں) نے آنکھوں ہی آنکھوں میں نہ گزاری ہوں۔ اب ہم ایک دوسرے سے زیادہ بات چیت بھی نہیں کرتے اور سب سے زیادہ تکلیف اُس وقت ہوتی ہے جب کسی روزمرہ ضرورت کے لئے محلے کے کسی لڑکے کو کہا جاتا ہے!‘‘ ایسی سینکڑوں داستانیں ہیں‘ جنہیں اَلفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں لیکن ’اَے پی اَیس‘ کا دُکھ زیادہ محسوس ہونے لگتا ہے‘ جب دہشت گردوں کے سہولت کار ہمارے آس پاس دندناتے پھر رہے ہیں! اُور انتہاء پسندی کے ذریعے دہشت گردی کے لئے اَفرادی قوت کی کوئی کمی نہیں! لمحۂ فکریہ ہے کہ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں انتہاء پسندی سرایت کر چکی ہے اور کئی وارداتوں میں ملوث کردار اُس فلسفے کے قائل ہیں‘ جس میں دوسروں کی جان و مال کو نقصان پہنچانا غیرانسانی و غیر اخلاقی فعل نہیں۔ سانحۂ اے پی ایس کے بعد جس ایک محاذ کو سب سے زیادہ نظرانداز کیا گیا وہ انتہاء پسندی اور مذہبی منافرت پھیلانے والے ہیں‘ جو سماجی رابطہ کاری کے وسائل کا آزادانہ استعمال کر رہی ہے اور یہی نوجوانوں کے زیراستعمال سب سے مقبول ذریعہ ہے۔ انسداد دہشت گردی کے لئے بنائے گئے ’نیشنل ایکشن پلان‘ میں انٹرنیٹ پر منحصر ’سوشل میڈیا (سماجی رابطہ کاری)‘ کے وسائل استعمال کرنے اور انتہاء پسندی عام کرنے والوں سے معاملہ نہیں کیا گیا‘ جس سے نمٹنے کے لئے صوبائی نہیں بلکہ قومی سطح پر ایک متفقہ پالیسی مرتب ہونی چاہئے۔
سانحۂ ’اے پی ایس‘ کے بعد گزرنے والا ہر دن اور ہر گھڑی شمار میں ہے‘ جو قانون نافذ کرنے والے اداروں کا امتحان بھی ہے۔ خوش آئند ہے کہ خیبرپختونخوا میں عمومی جرائم کی شرح میں غیرمعمولی کمی آئی ہے لیکن بھتہ خوری اور دہشت گردی کا نہ تھمنے والا سلسلہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہیں‘ جنہیں عمومی جرائم کی کم ہوتی شرح پر اطمینان کا اظہار (اکتفا) نہیں کرنا چاہئے۔ بھتہ خوری اور دہشت گردی کا انسداد ’خفیہ اداروں کی فعالیت‘ سے ممکن ہے لیکن خیبرپختونخوا پولیس کے اعلیٰ اہلکار کے بقول جب تک ’قبائلی علاقوں کی امتیازی حیثیت ختم نہیں کر دی جاتی اور اِن علاقوں کو بطور پناہ گاہ استعمال کرنے والوں کے رجحان کی حوصلہ شکنی نہں کی جاتی اُس وقت تک بھتہ خوری اور دہشت گرد حملوں کا سلسلہ روکنا ممکن نہیں ہوگا۔‘‘
بھتہ خوری کا شمار درجہ بندی کے لحاظ سے ’منظم جرائم‘ کے زمرے میں کیا جاتا ہے اور اب تک کے واقعات‘ شواہد اُور معلومات کی بنیاد پر اِس دھندے میں ملوث کردار بندوبستی اُور قبائلی علاقوں میں سہولت کاروں کی مدد لیتے ہیں‘ جن میں عسکریت پسند (دہشت گرد) گروہوں کی بھی مدد لی جاتی ہے۔ اِس بات کو خارج اَزامکان قرار نہیں دیا جاسکتا کہ قانون نافذ کرنے والے اِداروں میں ایسے کردار روپوش ہوں‘ جو سہولت کاری کا کردار اَدا کر رہے ہوں۔ بھتہ خوری کے باعث خیبرپختونخوا کے کاروباری طبقات میں بھی تشویش پائی جاتی ہے‘ جو اِس سے براہ راست متاثر ہیں۔ اِس سلسلے میں سب سے بنیادی اور ضروری کام ’’ہُنڈی‘‘ کے کاروبار (غیرقانونی ترسیل زَر) کا خاتمہ ہے‘ جس کا مرکز ’پشاور‘ ہے اُور خفیہ معلومات کی بنیاد پر ’ہُنڈی‘ کرنے والوں کو کھوج نکالا جا سکتا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں میں چھپے سہولت کاروں تک رسائی کے لئے جملہ ملازمین کے ’اَثاثہ جات‘ کی چھان بین ضروری ہے۔ اِس سلسلے میں برطانیہ کے ایک قانون سے رہنمائی لی جا سکتی ہے جہاں سرکاری و نجی اِداروں کے ملازمین کی مالی حیثیت جاننے کے لئے اُن کی آمدنی کے قانونی ذرائع معلوم کئے جاتے ہیں اور پھر بیس برس کے دوران ملنے والی تنخواہوں اور مراعات کا شمار کر کے مالی حیثیت کا تعین کر لیا جاتا ہے جس سے اگر اثاثے زیادہ ہوں تو متعلقہ اہلکار کو اپنی صفائی بذریعہ وکیل پیش کرنے کے لئے کہا جاتا ہے۔ جب تک سرکاری اداروں میں سزأوجزأ اُور احتساب کا عمل متعارف نہیں کیا جاتا‘
پولیس اصلاحات بے معنی ہی رہیں گی۔ خیبرپختونخوا پولیس کے مرتب کردہ اعدادوشمار کے مطابق رواں برس (سال دوہزار سترہ) کے دوران (پندرہ دسمبر تک) بھتہ خوری کے 71 جبکہ دہشت گردی کے 126 مختلف واقعات رونما ہوئے ہیں!سینیئرصحافی ممتاز بنگش کا کیا خوبصورت جملہ ہے کہ ’’آرمی پبلک پبلک سکول کے بچوں کی قربانی کے باعث آج پاکستان کا کونہ کونہ ’اَمن کی تصویر‘ پیش کر رہا ہے۔‘‘ امن کی اِس تصویر میں خون آلود معصوم چہرے شامل ہے جن کا دُکھ ’نام نہاد دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ‘ پاکستان پر مسلط کرنے والوں کا اِحتساب چاہتا ہے۔
۔
No comments:
Post a Comment