Devaluation
روپے کی قدر میں کمی!
کسی بیماری کی تعریف یہ ہوتی ہے کہ اُس کی وجہ سے کوئی ایک عضو یا کسی چیز کے کام کاج کرنے کی صلاحیت کم یا ختم ہو جائے اور اِس کی وجہ سے خاص قسم کے آثار بھی پیدا ہوں جن سے بیماری لگنے کا پتہ لگایا جاتا ہے اور جب ہم کسی بیماری کی وجوہات (symptoms) کے معنی تلاش کرتے ہیں تو اِس سے مراد کسی بیماری یا عارضے کی موجودگی ہوتی بالخصوص کسی غیرمتوقع اور غیرمطلوب صورتحال میں۔ گذشتہ ہفتے کے دوران پاکستانی کرنسی دباؤ کا شکار رہی اور اِس کی قدر میں تیزی سے کمی آئی‘ جس کا رجحان برقرار ہے۔ روپے کی قدر میں کمی (devaluation) بیماری کی علامت ہے اور ایک نتیجہ ہے یہ بذات خود بیماری نہیں ہے۔ روپے کی قدر کم ہونے سے ہم اِس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ملکی معیشت کو ایک عرصے سے لاحق بیماری کی شدید علامات ظاہر ہونا شروع ہو گئی ہیں اور بیماری لاحق ہونے سے اِس کی شدت اختیار کرنے تک ہم نے اِس کی موجودگی سے مسلسل انکار کیا لیکن یہ اِنکار اِس بیماری سے چھٹکارہ پانے کے لئے علاج نہیں تھا۔
پاکستانی روپے کی قدر میں مسلسل کمی کی کہانی گذشتہ کئی برس کے اوراق پر پھیلی ہوئی ہے‘ جس کے چار جز ہیں۔ ہمارے فیصلہ سازوں کی خودی‘ اعدادوشمار سے کھیل (انحصار)‘ مصنوعی کنٹرول رکھنے کا دعویٰ اور ایسے قرضہ جات کا حصول جو کہ ڈالر کی کرنسی میں ہیں اور اُن کی ادائیگی بھی ڈالرز ہی میں کرنا ہو گی۔ دسمبر دوہزار سترہ کے دوسرے ہفتے میں پاکستان کی ’کرنسی پالیسی‘ کو دو قوتوں (ہستیوں) کے حوالے کر دیا گیا‘ اِن میں سے ایک عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) ہے اور دوسرا کرنسی کی قدر میں کمی بیشی سے فائدہ اٹھانے والے سٹہ باز ہیں۔
گذشتہ ہفتے کے دوران‘ پاکستان پر غیرملکی قرضہ جات کا حجم 8.9 کھرب روپے سے بڑھ کر 9.4 کھرب روپے ہو گئے یعنی کرنسی کی قدر میں کمی سے پاکستان پر واجب الادأ قرضہ جات میں 500 ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ ہر پاکستانی خاندان پر 17 ہزار روپے ’قومی قرض‘ کا بوجھ بڑھ گیا ہے۔ اِسی طرح گذشتہ ہفتے کے دوران ہمارے سالانہ درآمدات 5.7 کھرب روپے سے بڑھ کر 6.1 کھرب روپے ہوگئی ہیں یعنی 330 ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں ہر پاکستانی خاندان کو 11 ہزار روپے اضافی مہنگائی کا بوجھ برداشت کرنا پڑے گا۔ روپے کی قدر میں کمی کے ’مجموعی اثرات‘ اگر پاکستان کے ہر خاندان پر دیکھے جائیں تو یہ 28 ہزار روپے فی خاندان بنتے ہیں لیکن ابھی مشکلات کا خاتمہ نہیں ہوا۔
پاکستان کی وزارت خزانہ کا بناء سربراہ ملکی معیشت کو لاحق امراض اور اس کی علامات کا علاج ممکن نہیں۔ مرض سرطان جیسی خطرناک صورت اختیار کر چکا ہے اور اب اِس کا علاج عمومی ادویات یا عارضی علاج سے نہیں ہوگا۔
پاکستان میں کاروبار کرنے والوں کو جن تین بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اُس میں مہنگی بجلی‘ گیس اور ٹیکسوں کا غیرحقیقی اور جابرانہ نظام ہے۔ قریب پانچ برس قبل پاکستان اور بنگلہ دیش کی برآمدات مساوی یعنی پچیس ارب ڈالر تھیں۔ بعدازاں پانچ برس میں بنگلہ دیش کی برآمدات بڑھ کر 38 ارب ڈالر سالانہ ہو گئیں جبکہ پاکستان کی برآمدات کم ہو کر 20 ارب ڈالر سالانہ تک آ گئیں۔ اگر پاکستان کی برآمدات میں بنگلہ دیش کی طرح اضافہ ہوتا تو آج ہمیں قرضوں کی ادائیگی اور دیگر اخراجات کے لئے زرمبادلہ کی کمی جیسی صورتحال سے دوچار ہونا نہ پڑتا جس کا بوجھ ہماری کرنسی پر بھی مرتب ہوا ہے۔
پاکستان کی برآمدات میں اضافہ اُس وقت تک ممکن نہیں جب تک بجلی و گیس کی قیمتوں میں کمی نہیں لائی جاتی اور انہیں کم سے کم خطے کے اُن ممالک کے مساوی نہیں کردیا جاتا جن کی برآمدات بڑھ رہی ہیں۔ جیسا کہ سری لنکا کی مثال دی جا سکتی ہے جہاں کی صنعتوں کو پاکستان کے مقابلے 2.6 گنا کم قیمت پر گیس ملتی ہے۔ اسی طرح پاکستان میں افرادی قوت بھارت کے مقابلے 2.3فیصد مہنگی ہے۔ پاکستان میں بجلی ویت نام کے مقابلے مہنگی ہے۔ ویت نام میں صنعتوں کو فی یونٹ بجلی 0.07 ڈالر فی یونٹ جبکہ پاکستان میں 0.11 ڈالر فی یونٹ دی جاتی ہے۔ تصور کیجئے کہ بنگلہ دیش میں گیس کی قیمت 0.03 ڈالر فی یونٹ جبکہ پاکستان میں 0.86 ڈالر فی یونٹ مقرر ہے!
پاکستان میں سالانہ 100 ارب یونٹ بجلی سالانہ پیدا ہوتی ہے جس کی قیمت 11 ارب ڈالر ہوتی ہے۔ ویت نام میں اتنی ہی بجلی 7 ارب ڈال رسے پیدا کی جاتی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان میں بجلی استعمال کرنے والے صارفین ویت نام کے مقابلے 4 ارب ڈالر سالانہ زیادہ ادا کرتے ہیں۔ اِس صورتحال میں پاکستان میں تیار ہونیو الی مصنوعات عالمی منڈیوں میں کم قیمت اشیاء کا مقابلہ کیسے کر سکتی ہیں۔ پاکستانی برآمدات کنندگان توانائی اور ٹیکس ادا کرنے کے بعد اِس قابل نہیں رہتے کہ وہ سستے داموں مصنوعات عالمی منڈیوں میں فروخت کے لئے پیش کر سکیں! اِس صورتحال سے نکلنے کا واحد راستہ (صورت) یہ ہے کہ پاکستان میں کاروبار کرنے پر آنے والی لاگت (کاسٹ آف بزنس) کم کی جائے۔
بجلی کم قیمت پر پیدا کرنے کے لئے پیداواری کمپنیوں سے ازسرنو معاہدے کئے جائیں۔ جب تک ہم سستی توانائی فراہم نہیں کریں‘ ٹیکسوں کو کم نہیں کریں گے اُس وقت تک پاکستان میں تیار ہونیو الی اشیاء عالمی منڈیوں میں قیمتوں کا مقابلہ نہیں کر پائیں گی۔ اِس سلسلے میں تنزانیہ کی مثال موجود ہے جہاں بجلی کی پیداوار کرنے والے نجی شعبے سے حکومت نے مذاکرات کئے اور قیمتوں کا ازسرنوتعین کیا گیا اُور اِسی طرح کی مثالیں دیگر کئی ممالک جیسا کہ ایکواڈور‘ کوسٹا ریکا اور بھارت میں بھی ملتی ہیں لیکن اگر توانائی کی پیداواری لاگت اور اِس کے فروخت کرنے کی قیمت کو کم نہیں کیا جاتا اور اس کے مقابلے روپے کی قدر کم کی جاتی ہے تو یہ مسئلے کا حل نہیں بلکہ اس سے مسئلے (بحران) کی شدت میں مزید اضافہ ہوگا۔
(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیرحسین اِمام)
A disease is a “disorder of structure or function especially one that produces specific symptoms.” And a symptom is an “indication of the existence of something, especially of an undesirable situation.”
ReplyDeleteDevaluation is a symptom, not a disease. The Pakistani rupee losing value against the US dollar is a symptom, not a disease. Devaluation is an ‘indication of the existence of something undesirable’. The disease is the ‘cost of doing business’ in Pakistan; devaluation is a mere symptom.
For the past couple of years, Pakistan’s ‘currency policy’ has had four ingredients: ego, figure fudging, artificial controls and dollar-denominated loans. In the second week of December 2017, Pakistan’s ‘currency policy’ was handed over to two entities: the IMF and currency speculators.
Over the past week, our foreign loans have gone up from Rs8.9 trillion to Rs9.4 trillion; an increase of Rs500 billion. And that means an additional debt burden of Rs17,000 for each and every Pakistani family. Over the past week, the value of our annual imports has gone up from Rs5.7 trillion to Rs6.1 trillion; an increase of Rs330 billion. And that means an inflationary burden of Rs11,000 for each and every Pakistani family. Lo and behold, the rupee devaluation of the past week has cost each and every Pakistani family a hefty Rs28,000. And the story of this suffering hasn’t come to an end yet.
ReplyDeleteThe captain-less Ministry of Finance is out to suppress the symptoms – nothing about the disease so far. The disease requires chemotherapy; the only thing that our Ministry of Finance is administering is aspirin. The cure of the disease lies in chemotherapy and aspirin would only suppress the symptoms (that too temporarily).
The ‘cost of doing business’ in Pakistan has at least three components: expensive electricity, expensive gas and an oppressive tax system. Some five years ago, Pakistan and Bangladesh’s exports were at about the same level – around $25 billion a year. Bangladesh has since moved up to $38 billion a year while Pakistan went down to under $20 billion. If our exports had kept pace with Bangladesh we would have had no balance of payment crises.
Imagine: the cost of natural gas to Pakistan’s industry is 2.6 times that of Sri Lanka’s. Imagine: labour cost in Pakistan is 2.3 times that of India’s. Imagine: the electricity tariff in Vietnam is $0.07 per unit as oppose to $0.11 per unit. Imagine: the gas tariff in Bangladesh is $0.03 per unit as oppose to $0.86 per unit.
Pakistan, for instance, produces around 100 billion units of electricity a year at a cost of $11 billion. Vietnam produces the same for $7 billion. What that means is that Pakistani electricity consumers are paying $4 billion a year over and above Vietnamese consumers. How can Pakistani exporters compete with Vietnamese exporters?
What’s the way out? The only way out is to reduce the ‘cost of doing business’ in Pakistan. The only way out is a wholesale renegotiation of sovereign contracts throughout our energy sector. There is no other way that the government of Pakistan – regardless of which political party is in power – can bring down the ‘cost of doing business’ in Pakistan.
Yes, Tanzania has renegotiated sovereign contracts in the past. So have Ecuador, Costa Rica and India. Devaluation won’t do it.