Saturday, December 16, 2017

Dec 2017: The big verdict - justice for model town Lahore

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
بڑے فیصلے!
پندرہ دسمبر پہلا فیصلہ: قومی اِحتساب بیورو (نیب) کی جانب سے شریف خاندان کے خلاف دائر ’’حدیبیہ پیپر ملز ریفرنس‘‘ کو دوبارہ کھولنے سے متعلق دائر اپیل مسترد کر دی گئی۔ جس سے وقتی طور پر شریف خاندان بالخصوص شہباز شریف اور سلطانی گواہ ’اسحاق ڈار‘ کو کتنا ریلیف ملا ہے‘ اِس بارے میں حتمی رائے تفصیلی فیصلہ آنے کے بعد ہی دی جا سکے گی کہ کیا یہ مقدمہ بعدازاں آگے بڑھانے کی گنجائش موجود ہے یا یہ باب ہمیشہ کے لئے بند کر دیا گیا ہے۔پندرہ دسمبر دوسرا فیصلہ: ایک سال کے عرصے میں پچاس سے زائد سماعتوں کے بعد ’سپرئم کورٹ نے پاکستان‘ اِس نتیجے پر پہنچی ہے کہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نااہل نہیں ہوئے اور غیر ملکی فنڈنگ کیس الیکشن کمیشن کو بھجوا دیا گیا ہے۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اِن دونوں عدالتی فیصلوں نے پاکستانی سیاست کی ہیت تبدیل کر کے رکھ دی ہے۔ شریف خاندان بالخصوص شہباز شریف اور حمزہ شریف ’حدیبیہ کیس‘ سے متعلق فیصلے پر اظہار اطمینان کر رہے ہیں لیکن اُنہیں نہیں بھولنا چاہئے کہ ’’سانحہ ماڈل ٹاؤن (لاہور)‘‘ کی ننگی تلوار لیگی قیادت کے سروں پر لٹک رہی ہے۔

’حدیبیہ کیس‘ پیپلزپارٹی کے دور میں شروع ہوا۔ پانچ سال بعد پرویز مشرف نے اسے عدالت تک پہنچایا اور پھر سعودی بادشاہ کی مداخلت سے نواز شریف ملک سے باہر چلے گئے اور کیس سردخانے کی نذر ہو گیا۔ بعدازاں پیپلزپارٹی اور نواز لیگ میں ’میثاق جمہوریت (معاہدہ)‘ ہوا کہ دونوں جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف عدالتی مقدمات نہیں کھولیں گی اور یوں وعدہ معاف گواہ بننے اور تمام جرائم بیان کرنے کے باوجود بھی اسحاق ڈار سمیت تمام ملزمان صاف بچ گئے ہیں! تو کیا کیس بند ہونے سے معاملہ حلال (حل) ہو گیا؟ سپرئم کورٹ کا فیصلہ جو بھی ہو لیکن پاکستان کی سیاسی تاریخ اور آئینی تاریخ سے ’حدیبیہ کیس‘ کا باب ختم نہیں کیا جاسکے گا۔ یہ پاکستان کے عوام کا پیسہ ہے جسے لوٹنے والوں کو یوں معاف کرنا کسی بھی طرح مبنی بر انصاف نہیں۔ یہ معاملہ صرف اور صرف نیب کے رحم وکرم پر چھوڑنا کافی نہیں ہوگا یقیناًحدیبیہ کیس کو منطقی انجام تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔ نیب نے نہایت ہی غیرذمہ داری کا مظاہرہ کیا اور حکمراں جماعت اور نواز خاندان کے ریلیف دیا گیا ہے۔ مرکزی ملزم اسحاق ڈار وعدہ معاف گواہ بنے اور اب انہوں نے اپنا بیان بدل لیا ہے تو وہ بھی ملزم بن گئے ہیں اِس بنیاد پر تو نیا ریفرنس بننا چاہئے تھا۔ پرانا کیس کھولنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی بلکہ ایک نیا ریفرنس (مقدمہ) دائر ہونا چاہئے تھا۔

حدیبیہ کیس میں ’نیب‘ کا کردار مایوس کن رہا‘ جس نے ایسا کیس نہیں بنایا کہ جس سے اسحاق ڈار پر فرد جرم عائد کی جا سکتی بلکہ نیب یہ کیس لے کر گئی کہ حدیبیہ کا کیس دوبارہ کھولا جائے۔ اگر نیب اپنا کیس عدالت کے روبرو ’’مضبوط ثبوتوں‘‘ کے ساتھ پیش نہیں کر سکا تو اس میں عدالت کو قصوروار نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ مسلم لیگ (نواز) کو شادیانے بجانے کی ضرورت نہیں کیونکہ ثابت ہوا ہے کہ عدالت اہلیت کی بنیاد پر فیصلے کر رہی ہے۔ عدالت پر کسی ایک فیصلے پر اعتراض اور دوسرے فیصلے پر خوشی منانا کہاں کی دانشمندی ہے؟ فی الوقت صورتحال یہ ہے کہ جس شخص نے چار سال تک پاکستان کی معیشت کو تباہ کیا اُس اسحاق ڈار کو لندن میں رکھا گیا ہے اور دوسری غلطی یہ ہے کہ شاہد خاقان عباسی کو وزیراعظم کے طور پر کام کرنے نہیں دیا جا رہا۔ تاریخ دیکھنی چاہئے کہ زرداری کے خلاف بھی کیسیز بھی اِسی بنیاد پر یکے بعد دیگرے عدالتوں سے (تکنیکی بنیادوں پر) خارج ہوتے چلے گئے کیونکہ نیب کے تفیشی ادارے نے اپنے حصے کا کام ہی نہیں کیا تھا اور اُن کی گلوخلاصی ہوگئی۔ حدیبیہ کا کیس عدالت میں گیا تو تفتیشی اہلکاروں کو سپرئم کورٹ کے سامنے ایسے شواہد اور دستاویزات بھی پیش کرنے چاہیءں تھے‘ جو ناقابل تردید ہوتے۔ نیب کے وکلاء اور نیب کے تفتیش کاروں سے بار بار پوچھا گیا کہ حدیبیہ کیس کیوں کھولا جائے؟ اور ہر مرتبہ خاموشی چھا جاتی!

اِس منظرنامے میں نیب کے ادارے کو کمزور رکھنے کی کوششیں بھی پیش نظر رہیں۔ چیئرمین نیب نے وفاقی حکومت کو ’پانچ نام‘ ارسال کئے ہیں جن میں سے کسی ایک کو بطور ’پراسیکوٹر جنرل‘ تعینات کیا جائے لیکن حکومت اِن میں سے ایک کو بھی منتخب نہیں کر رہی بلکہ آزاد و خودمختار ’پراسیکوٹر جنرل‘ کی تعیناتی نہیں چاہتی۔ عجب نہیں ہوگا کہ حدیبیہ کیس فیصلے کے بعد اِسے بھی اپنے خلاف سازش قرار دیں کہ میرے چھوٹے بھائی کو تو عدالت نے کلین چٹ دی ہے لیکن مجھے نااہل قرار دیا گیا ہے! نیب کے پاس آپشن ہے کہ وہ آئندہ تیس دن کے اندر ’نظرثانی اپیل‘ دائر کریں اور اس کے علاؤہ کوئی دوسرا چارہ نہیں۔ نیب کے اب تک کردار کو دیکھ کر یہی لگتا ہے کہ آخری فیصلہ آ چکا ہے اور حدیبیہ کیس کا ’باب بند ہو گیا ہے!‘
پندرہ دسمبر کے سپرئم کورٹ فیصلے سے متعلق نواز شریف کا جو بھی ردعمل آئے وہ بڑی حد تک منطقی ہوگا کیونکہ وہ اِس وقت جس ذہنی کیفیت سے گزر رہے ہیں اُن سے کسی مثبت ردعمل کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ ختم نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مسئلے پر جس طرح نواز لیگ اور پارلیمینٹ کی ساکھ متاثر ہوئی ہے اُس کی بحالی کے لئے خاطرخواہ اقدامات دیکھنے میں نہیں آئے اور مزید ایسے اقدامات سے گریز بھی نہیں کیا جارہا۔ تصور کیجئے کہ سینیٹر حمد اللہ نے چیئرمین سینیٹ کے نام خط میں لکھا ہے کہ ’’توہین رسالت سے متعلق قوانین سے چھیڑچھاڑ کرنے کی کوشش ہو رہی ہے اگر ایسا ہی ہے تو آنے والے دنوں یہ بات زیادہ طوفان خیز ثابت ہوئی کیونکہ اقوام متحدہ کی طرف سے مطالبہ سامنے آیا ہے کہ پاکستانی قوانین پر نظرثانی کی جائے اور بالخصوص آئین کی شق 295-C ختم کی جائے!

سوال یہ ہے پانامہ ریفرنس کے پانچ رکنی بینچ کے فیصلے میں بھی ’حدیبیبہ کیس‘ کا ذکر کیا گیا تھا‘ تو اِس معاملے کی کچھ نہ کچھ آئینی اہمیت ضرور تھی۔ پہلے تو نیب کے چیئرمین نے حدیبیہ کیس تاخیر سے داخل کیا اور پھر ایسے شواہد پیش نہیں کئے کہ جن کی بنیاد پر عدالت کسی نتیجے پر پہنچ سکتی۔ نکتہ تو ہے کہ جس عدالت عظمی نے ’حدیبیہ کیس‘ کو قابل سماعت سمجھا تھا تو پھر اچانک اُس کے مؤقف میں تبدیلی کیسے آ گئی لیکن عدالتی فیصلوں سے زیادہ اُن کے نتائج اہم ہوتے ہیں۔ اگر عدالت عظمی موجودہ تمام سیاستدانوں کو بھی نااہل قرار دے دیتی ہیں تو یہ گھاٹے کا سودا نہیں ہوگا۔ پاکستان کو بدعنوانی سے پاک ہونا چاہئے۔ چاہے اِس کے لئے جہانگیر ترین یا کسی کی قربانی ہی کیوں نہ دینی پڑے! بالخصوص ’حدیبیہ کیس‘ سے ہمارے عدالتی نظام پر بھی سنجیدہ سوالات اُٹھے ہیں جن کے جوابات آج کے لئے نہیں بلکہ پاکستان کے مستقبل کے لئے تلاش کرنا ضروری ہیں۔
۔

No comments:

Post a Comment