Friday, December 15, 2017

Dec 2017: Masood Barakati remembered

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
نایاب ہستیاں: مسعود برکاتی
سترہ اکتوبر اُنیس سو اَٹھانوے ’بے رحم کراچی‘ کی ایک مصروف شاہراہ پر حکیم محمد سعید نامی اُس ’محسن پاکستان‘ کو دن دیہاڑے قتل کیا گیا‘ جن کے وقف پاکستان تحائف میں ’ہمدرد نونہال‘ (نامی اِشاعت) بھی شامل ہے۔ 

پاکستان میں بچوں کے لئے اَدب کی تخلیق اُور تعلیم و اخلاقی تربیت میں اِس رسالے کا کردار ناقابل تردید حقیقت ہے۔ ہمدرد نونہال کے پینسٹھ برس تک منسلک رہنے والے مسعود برکاتی ’دس دسمبر‘ کے روز خالق حقیقی سے جا ملے‘ جنہیں گیارہ دسمبر کو کراچی کے سخی حسن قبرستان میں سپردخاک کر دیا گیا۔ ستاسی برس کی عمر کا بڑھا حصہ ’ہمدرد‘ ہی سے وابستگی میں گزرا اور اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہو گا کہ وہ حکیم سعید کے دیرینہ ساتھی اور پاکستان کی ایک اہم شخصیت تھے تو غلط نہیں ہوگا جنہوں نے تن تنہا ایک ایسی ذمہ داری خوش اسلوبی سے ادا کی‘ جس کے بارے میں کہا جا رہا تھا کہ حکیم سعید کی شہادت کے بعد یہ سلسلہ رُک جائے گا لیکن برکاتی صاحب اِصلاح و تربیت کے تادم آخر عملبردار رہے۔ وہ صرف مدیر ہی نہیں بلکہ مترجم بھی تھے اور انہوں نے فرانسیسی و دیگر زبانوں سے ’’عالمی معیاری و اصلاحی ادب‘‘ کا انتخاب کرکے اُسے اردو میں ترجمہ کیا جن میں الیگزینڈر ڈوما کے ناول بطور خاص شامل تھے‘ اُن کا اردو عنوان ’تین بندوقچی‘ رکھا گیا تھا جس میں بہادری اور سازشوں کا مقابلہ کرنے جیسے واقعات کا ذکر ملتا ہے۔ 

خصوصیت یہ ہے کہ اس سے بچوں کو فیصلہ سازی کی باریکیوں کے بارے سکھایا جا سکتا ہے۔ اِسی طرح ’’مونٹی کرسٹو کا نواب‘‘ اور ’’سونے کی تین ڈلیاں‘‘ ناقابل فراموش ادبی شاہکار ہیں۔ برکاتی صاحب کو کمال حاصل تھا کہ وہ لوک کہانیوں کے اخلاقی پہلو اجاگر کرتے ہوئے کہانیوں کو زیادہ دلچسپ اور سبق آموز بنا دیا کرتے تھے۔ وہ جدید علوم اور سائنسی ایجادات کو تحریروں میں سمونے کا ہنر بھی جانتے تھے اور نہایت ہی سلیس انداز میں مشکل مضامین بیان کرتے تھے۔

سینیٹ جانز ہائی سکول (سٹی سرکلر روڈ پشاور) میں ’’کتب میلہ‘‘ کا انعقاد اگرچہ باقاعدگی سے نہیں ہوتا تھا تاہم چرچ سے متصل ہال میں کبھی کبھار ہونے والے اِس میلے سے میں ’ہمدرد نونہال‘ سے تعارف اَسی کی دہائی سے ہوا‘ جو آج بھی قائم ہے۔ اُس زمانے میں کہانیاں آڈیو (صوتی) کیسٹوں پر بھی سننے کو ملتی تھیں لیکن جو مزا پڑھنے میں آتا‘ وہ کہانیاں سننے میں نہیں آتا تھا‘ جس کی ایک وجہ ’ٹیپ ریکارڈ‘ نہ ہونا بھی تھا بہرحال صوتی کہانیوں کی بدولت الفاظ کا درست تلفظ جاننے میں مدد ملتی اور مغربی معاشروں میں آج بھی بچوں کو صوتی کہانیاں پڑھنے کو دی جاتی ہیں۔ حتیٰ کہ پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا کہ وہ کتب بینی کی بجائے اب کتابیں سننے کو ترجیح دیتے ہیں۔ تو مغرب نے خود کو ایک روایت سے جوڑ رکھا ہے۔ 

’ہمدرد نونہال‘ کے ذریعے اُردو زبان کی ترویج واشاعت ایک ایسے وقت میں کی گئی جبکہ معلومات تک رسائی کے لئے آج کی طرح انٹرنیٹ پر منحصر (الیکٹرانک) کتب خانے موجود نہیں تھے اور نہ ہی سکولوں کی سطح پر نصاب کے علاؤہ کتب سے استفادہ کرنے کی حوصلہ افزائی کی جاتی تھی۔ سینٹ جانز ہائی سکول کے سامنے ایک دکان میں قائم کتب خانے سے ’عمران سیریز‘ کی کہانیاں پڑھنے کو مل جاتیں لیکن ایک ہی رات میں سینکڑوں صفحات پر مشتمل کتاب پڑھنا کسی بھی طرح آسان نہ تھا۔ بصورت دیگر ایک اُور دن کاکرایہ اَدا کرنا پڑتا تھا جو اُس وقت بہت بڑا بوجھ ہوتا اور یہیں سے تعلق ’ہمدرد نونہال‘ سے ہوا جو کہانیاں پڑھنے کا ایک متبادل ذریعہ تھا اور یقیناًکراچی سے پشاور تک لاکھوں بچوں کی علمی ادبی زندگی کا لازمی جزو تھا۔ 

وقت گزرتا گیا اور اگرچہ ہم نونہال نہیں رہے لیکن ’نونہال‘ سے تعلق قائم رہا اُور یہ راز کراچی میں برکاتی صاحب سے ہوئی ایک ملاقات سے کھلا کہ وہ کس طرح نہایت ہی محنت سے رسالے کے مضامین کا انتخاب اور تدوین کرتے ہیں لیکن خودنمائی کے قائل نہ تھے۔ ’نونہال‘ کے نام سے اگر حکیم سعید کے ساتھ کسی اور شخصیت کا بطور خاص تذکرہ کیا جاسکتا ہے تو وہ برکاتی صاحب ہی ہیں۔ 

1953ء سے شائع ہونے والا ’ماہنامہ نونہال‘ کی سوچ (خالص اُردو کی ترویج) اور یہ منصوبہ حکیم سعید کا ضرور تھا لیکن اِسے کامیابی سے ہم کنار کرنے والے برکاتی صاحب تھے۔ رسالے کی فہرست میں ’پہلی بات‘ کے زیرِ عنوان اُن کا اداریہ موجود ہونے کے باوجود باقی رسالے میں کہیں اُن کا نام نہیں ملتا تھا۔ اُن کی تصویر بھی شاذ و نادر ہی نونہال کی زینت بنتی‘ یہاں تک کہ آخری صفحات میں نونہالوں کے خطوط (ایڈیٹر کے نام ڈاک کے جوابات) پر مشتمل مستقل سلسلے ’آدھی ملاقات‘ میں بھی یہ اُن کے نام کا تذکرہ نہ ملتا کہ یہ جواب کون دیتا ہے؟ ایک مرتبہ کسی بچے نہ اِس جانب توجہ مبذول کروائی‘ جس کے جواب میں اُنہیں بتانا (راز فاش کرنا) پڑا کہ یہاں بھی اُن ہی کا ’’قلم بولتا ہے!‘‘

برکاتی صاحب کا قلم بولتا رہا جس کی گونج تادیر قائم رہے گا۔ وہ بے تھکان لکھتے رہے لیکن کراچی (سندھ) کے علاؤہ اُن کی وفات کا خاطرخواہ نوٹس نہیں لیا گیا۔ خیبرپختونخوا سے شائع ہونے والے اکثر اخبارات نے اِس خبر کو شائع نہیں کیا بلکہ چند ایک اخبارات نے ’آل پاکستان نیوزپیپرز سوسائٹی (اے پی این ایس)‘ کا تعزیتی بیان تو شائع کیا لیکن خبر شائع کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی! قلم کے ذریعے پاکستان کے خدمت کرنے والے ’حقیقی کردار‘ کی یوں خاموش رخصتی اُن کے شایان شان نہیں تھی۔ 

پاکستانی معاشرے کا المیہ یہ بھی ہے کہ ہمارے ہاں بچوں کا‘ بالخصوص سراہا نہیں جاتا۔ برکاتی صاحب چاہتے تو اپنی ادارت یا قلم کاری کو عام ادب سے منسلک کرتے اور بہت دھوم دھام سے اُن کی خدمات کا اعتراف کرلیا جاتا۔ انہیں صدارتی اعزاز ملنا بھی کچھ مشکل (ناممکن) نہ تھا بلکہ حکیم سعید کا مقام وہ تھا کہ اُن سے وابستہ ہر شخص کو قومی اعزاز ملنا چاہئے۔ وفات سے قریب ایک سال قبل اُنہوں نے نونہال کی ادارت سے علیحدگی اختیار کر لی تھی لیکن اُن کا لگایا ہوا پودا سرسبز (پھلدار) ہے اور اُن کی وضع کردہ اصول آج بھی رہنما ہیں! 

برکاتی صاحب کے جنازے کی تصویر میں چند لوگ اُن کے ’جسدِ خاکی‘ اُٹھائے دیکھے جا سکتے ہیں۔ یہ منظر دیکھ کر سرشرم سے جھکنا چاہئے کیونکہ وہ زیادہ بڑے اور اعلیٰ سرکاری اعزاز کے ساتھ الوداع کے مستحق تھے۔ بچوں کے ادب کی اہمیت اور اِس سلسلے میں مسعود احمد برکاتی کی پرخلوص کوششیں اور خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔
’’یا ترا تذکرہ کرے ہر شخص
یا کوئی ہم سے گفتگو نہ کرے! (شکیل اَحمد ضیاء)
۔

No comments:

Post a Comment