Thursday, December 14, 2017

Dec 2017: Education & Politics - side by side, sliding!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
شعبۂ تعلیم اُور سیاست!
آم جیسے پھل کی طرح تعلیمی اِداروں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اِن کی تعداد جس قدر بھی ہو‘ کم ہے لیکن کیا غضب ہے کہ خیبرپختونخوا میں ایسے سینکڑوں سکولوں کی موجودگی کا انکشاف ہوا ہے‘ جن کی ضرورت نہیں اور وہ ایک دوسرے کے اِس قدر قریب (کم فاصلوں) پر واقع ہیں کہ اِن سکولوں میں زیرتعلیم بچوں کی تعداد کبھی بھی اِس قدر نہیں رہتی کہ اُن کے مطابق تعینات اساتذہ کی تعداد کا جواز دیا جا سکے۔ 

سرکاری وسائل کا اندھا دھند اور اِس غلط استعمال (معمول) کو روکنا (اصلاح کی گنجائش) اپنی جگہ اہم لیکن ماضی کے اُن حکمرانوں کی بھی خبر لینی چاہئے جنہیں صرف اور صرف اپنے انتخابی و سیاسی مفادات عزیز رہے اور انہوں نے سکولوں کے قیام و تعمیر میں ’ضروریات‘ کو مدنظر نہیں رکھا۔ رواں ہفتے خیبرپختونخوا حکومت کی جانب سے ایسے 725 تعلیمی اداروں کو ضم (ختم) کرنے کا فیصلہ کی منظوری دے دی گئی ہے جنہیں سیاسی بنیادوں پر بنایا گیا تھا۔ لمحۂ فکریہ ہے کہ کسی بھی مقام پر سکول کے قیام کے لئے قواعد و ضوابط موجود ہیں‘ جن میں یہ بات بھی شامل ہے کہ سکولوں کے درمیان فاصلہ اِس قدر ہونا چاہئے کہ آبادی کے بڑے حصے میں رہنے والوں کا مرکز ہو۔ سرکاری وسائل کا بیدردی سے ضیاع ’بنیادی و ثانوی تعلیمی اِداروں (ایلیمنٹری اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن)‘ سے متعلق صوبائی وزارت کی دریافت ہے لیکن اگر اِسی اصول پر خیبرپختونخوا کے طول وعرض میں اعلیٰ تعلیمی اِداروں کے محل وقوع کا بھی جائزہ لیا جائے تو صورتحال زیادہ مختلف ثابت نہیں ہوگی۔ خیبرپختونخوا کے کئی ایسے اضلاع ہیں جہاں پورے ضلع میں سکولوں اور کالجوں کی تعداد حسب آبادی نہیں اور کہیں تو گلی گلی تعلیمی ادارے اِس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ فیصلہ سازی کے منصب پر فائز سیاسی اور غیرسیاسی حکمرانوں نے اپنے فرائض و ذمہ داری کماحقہ انداز سے ادا نہیں کیں۔

صوبائی وزیر تعلیم عاطف خان نے ’سات سو پچیس‘ سکولوں کے انضمام کی تصدیق کرتے ہوئے اُس محکمانہ رپورٹ پر عمل درآمد شروع کرنے کا بھی عندیہ دیا ہے‘ جس کے تحت نہ صرف سرکاری تعلیمی اداروں بلکہ محکمۂ تعلیم کے سرکاری ملازمین کا بھی جائزہ لیا جا رہا ہے کہ کیا اُن کی تعداد حسب ضرورت ہے یا ماضی کے حکمرانوں نے اپنے منظورنظر افراد کو ملازمتیں دینے سے زیادہ کسی دوسرے پہلو پر غور نہیں کیا۔ تعلیمی اداروں کی تعداد زیادہ ہونی چاہئے لیکن اِس کا قطعی مطلب یہ نہیں کہ اُنہیں بلاضرورت بنایا جائے۔ محکمۂ بنیادی و ثانوی تعلیم کو اضافی سکولوں کا علم فی سکول کم بچوں کی تعداد سے متعلق اعدادوشمار سامنے آنے سے ہوا۔ ماضی میں ایسے اعدادوشمار مرتب ہی نہیں کئے جاتے تھے لیکن موجودہ حکومت نے تعلیمی اداروں کی نگرانی کے لئے ایک الگ شعبہ (انڈیپینڈنٹ مانیٹرنگ یونٹ) قائم کیا‘ جس سے نہ صرف تعلیمی معیار اور اساتذہ کی حاضری و کارکردگی پر نظر رکھنا ممکن ہوا بلکہ تعلیمی اداروں میں بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی اور فراہمی جیسے ترقیاتی اَہداف بھی مقرر کرنے میں مدد ملی۔

حقیقت یہ ہے کہ خیبرپختونخوا میں حکومت ملنا ’تحریک انصاف‘ کے لئے ’کانٹوں بھرا تاج‘ ثابت ہوا‘ کیونکہ ایک تو انہیں حکومت کرنے کا تجربہ نہیں تھا اور دوسرا کسی بھی حکومتی محکمے کی اجتماعی کارکردگی مثالی (تسلی بخش) نہیں تھی۔ اِن دونوں عوامل کی موجودگی میں ایک ایسی صوبائی حکومت جسے اپنے اتحادیوں کو بھی ہمراہ رکھنے کے لئے وقتاً فوقتاً مصلحتوں سے کام لینا پڑا جس سے تبدیلی (اصلاحات) کے عملی نفاذ کی راہ میں رکاوٹیں آتی رہیں اور وقت ضائع ہوتا رہا۔ 

تحریک انصاف کی خیبرپختونخوا میں کارکردگی پر اعتراضات (اُنگلیاں) اٹھائی جا سکتی ہیں لیکن جن نامساعد حالات میں حکومت ملی وہ بدستور طاری ہیں! تحریک انصاف کا تیسرا اور سب سے بنیادی مسئلہ یہ رہا کہ اِس میں ’عمران خان‘ جیسا کوئی ایک بھی ایسا کردار ابھر کر سامنے نہیں آ سکا‘ جس کی شخصیت و سیاست پر اندھا اعتماد کیا جاسکے۔ وزراء مشیروں اور اراکین اسمبلی کردار کی اپنی اپنی سیاسی و ذاتی اور انتخابی ترجیحات آڑے آتی رہیں‘ جس سے وہ نادر موقع یقیناًضائع کر دیا گیا‘ جس میں بہت کچھ بہتر کیا جا سکتا تھا۔
صوبائی وزیر عاطف خان پراُمید ہیں کہ وہ ’’بنیادی و ثانوی تعلیم کے طے شدہ قواعد و ضوابط پر مکمل عمل درآمد کروائیں گے جس کے مطابق کسی بھی سکول میں زیرتعلیم بچے بچیوں کی مجموعی تعداد کو پیمانہ تصور کیا جائے گا اور جہاں کہیں زیرتعلیمی بچوں کی تعداد (فی سکول) چالیس سے کم ہوگی اُس کا انضمام قریبی سکول سے کر دیا جائے گا‘ جو 2 کلومیٹر کے احاطے میں واقع ہو۔‘‘ صوبائی وزیر اپنی اور محکمے کی کارکردگی سے بھی مطمئن ہیں کہ ۔۔۔ ’’تحریک انصاف کے برسراقتدار آنے کے بعد سے خیبرپختونخوا میں (سال 2013ء سے) 2700 سے زائد نئے سکول قائم کئے گئے ہیں جن میں 300 ہائر سیکنڈری سکول شامل ہیں جن کی تعداد 605 ہو گئی ہے جبکہ دوہزار تیرہ سے قبل ہائرسکینڈری سکولوں کی تعداد 308 تھی‘ یوں اِن میں دگنا اضافہ غیرمعمولی ہے۔‘‘ لیکن جب اُنہی کے محکمے کی مرتب کردہ ایک رپورٹ سے اِس بیان کا موازنہ کیا جائے تو اعدادوشمار میں کچھ ایسا فرق نظر آتا ہے کہ تعلیمی اداروں کی تعداد میں اضافہ تو ہوا ہے لیکن یہ ’’دو گنا اضافہ نہیں۔‘‘ 

دوہزارتیرہ سے قبل خیبرپختونخوا میں 1 ہزار 796 سرکاری ہائی سکول تھے جن کی تعداد 2 ہزار 200 کر دی گئی ہے لیکن تعداد سے متعلق اعدادوشمار پر زیادہ بھروسہ اور اُن کی بنیاد پر کوئی رائے قائم کافی نہیں۔ اصل مرحلہ (ضرورت) تو یہ ہے سکولوں اُور کالجوں کا آبادی کے مراکز سے فاصلہ اور قربت اِن کے وجود و افادیت میں اضافے کا باعث بنے۔ ماضی میں سیاسی بنیادوں پر سکول قائم کئے گئے تاکہ زیادہ سے زیادہ سیاسی کارکنوں کو ملازمتیں دی جا سکیں لیکن اِس بے قاعدگی کے سامنے آنے کے بعد اور سکولوں کے انضمام سے اُن سرکاری ملازمین کابوجھ کم نہیں ہوا۔ ایسے سکول بھی ہیں جہاں پہلے ہی زیرتعلیم طلباء و طالبات کی تعداد کے لئے بنیادی سہولیات کی کمی ہے تو اگر اُن پر مزید بوجھ بڑھایا گیا تو ایسا کرنے سے اندیشہ ہے کہ اُن سکولوں کی کارکردگی متاثر ہوگی۔ 

تعلیم کے شعبے میں سیاسی عمل دخل اور سیاسی مداخلت سے اِس کے اصلاح کی کوشش میں ہرقدم پھونک پھونک کر رکھنے کی ضرورت ہے‘ کیونکہ کسی ایک سکول کا خاتمہ اِس بات کی ضمانت نہیں ہوسکتا کہ وہاں زیرتعلیم بچے کسی دوسرے دور دراز مقام پر سکول سے استفادہ کریں گے۔ بچوں کے سکولوں سے ’ڈراپ آؤٹ‘ پر بھی نظر رکھنا ہوگی اور بیک جنبش قلم 725 سکولوں کو ختم کرنے کی بجائے اِس عمل کو مرحلہ وار انداز میں مکمل کرنے کے ساتھ حسب ضرورت ٹرانسپورٹ کی دستیابی کا بھی جائزہ لینا ہوگا کیونکہ بالخصوص خیبرپختونخوا کے دور دراز اضلاع میں بہت سے ایسے علاقے بھی ہیں جہاں امن و امان کی صورتحال یا دیگر منفی محرکات کی وجہ سے طلباء بالخصوص طالبات کے لئے پیدل سفر کرنا ممکن نہیں۔
۔

No comments:

Post a Comment