Wednesday, December 13, 2017

Dec 2017: Self esteem is equally important as retaining the freedom!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
۔۔۔ خودی!
خواب دیکھنے میں حرج نہیں لیکن ’خوابوں کی دنیا‘ میں رہنے میں کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ گیارہ دسمبر کے روز ’خیبرپختونخوا قانون ساز ایوان‘ نے جس ایک قرارداد کے ذریعے ’مسلمان ممالک (بشمول پاکستان)‘ کو تجویز دی ہے کہ سب مل کر ’’امریکی مصنوعات خریدنا ترک کر دیں۔‘‘ اُس جیسی بہت سی دیگر قراردادیں بھی صوبائی اسمبلی کے وقار اور اِس کی اُوقات پر حرف ہیں! 

تصور کیجئے کہ امریکہ سے ’اِقتصادی کنارہ کشی‘ کا مشورہ کہاں سے آ رہا ہے اور اِسے دینے والے کس طرح اِس انتہاء کے بارے میں سوچ بھی سکتے ہیں‘ جس پر خود دل سے یقین نہیں کرتے اور جو پاکستان جیسے ملک کے لئے قابل عمل بھی نہیں۔ اِس طرح کا خواب تو کوئی دیوانہ ہی دیکھ سکتا ہے کہ جس ملک کے سیاسی فیصلہ ساز اُس ملک سے زیادہ سرمایہ دار ہوں۔ جس ملک پر قرضوں کا بوجھ ایک دلدل کی صورت اختیار کر چکا ہو کہ جس میں وہ دھنستا ہی چلا جا رہا ہو۔ جس ملک پر اندرونی و بیرونی قرضہ جات پر سود کی اقساط ادا کرنے کے لئے بھی مزید قرض لینا پڑ رہا ہو۔ جہاں کی کرنسی‘ پاسپورٹ اور شہریت اِس حد تک اپنی قدر کھو چکی ہو کہ اُس کے سیاسی فیصلہ سازوں کو اپنے اور اپنے اہل خانہ کے لئے الگ سے خصوصی پاسپورٹس کا اجرأ کرنا پڑا ہو۔ جہاں کے فیصلہ ساز اپنے ملک کی بجائے بیرون ملک سرمایہ کاری اور اقامت (اقامہ) رکھنے کو اپنے لئے اعزاز سمجھتے ہوں۔ جہاں امریکہ کے ایک ویزے پر سب کچھ نچھاوڑ کرنے والوں کی کمی نہ ہو۔ جہاں کے سیاسی و غیرسیاسی فیصلہ ساز اپنے کردار‘ گفتار‘ زبان‘ رہن سہن‘ عادات‘ لباس کی ظاہری تراش خراش اور انتخاب (عملی زندگی کی ترجیحات) میں انگریزوں سے زیادہ انگریز (امریکی) دکھائی دیں۔ جہاں کا نظام تعلیم سکول کے یونیفارم سے لیکر ’پری سکول‘ بچوں کو سکھائی جانے والی نظموں میں بطور خاص ’سور‘ جیسے پلید قرار دیئے گئے جانور سے اُنسیت پیدا کرنے پر مبنی ہو۔ جہاں بیک وقت ایک درجن سے زائد نظام تعلیم رائج ہوں۔ جہاں کے سیاسی و غیرسیاسی فیصلہ ساز مغربی ملبوسات ذوق و شوق سے زیب تن فرمائیں۔ جہاں اپنی قومی زبان پر اغیار کے لب و لہجے (الفاظ اور تراکیب) حاوی ہوں۔ جہاں خریدوفروخت کے مراکز (شاپنگ مال) میں درآمدی اشیاء (مغربی فیشن) کی بھرمار ہو‘ اُس معاشرے میں تبدیلی کا آغاز اُوپر سے ہوگا اُور اِس کے لئے سیاست دانوں کو سادگی بھری زندگی اور کم خرچ طرزحکمرانی اختیار کر کے خود کو بطور ’رول ماڈل‘ پیش کرنا ہوگا۔ 

اراکین اسمبلی جب عملاً اصلاح کرتے ہوئے اپنے قول اور فعل کو خیالات و مطالبات سے ہم آہنگ کر لیں گے تو خود کلامی کی بجائے ’خودی‘ اُس بلندی تک جا پہنچے گی جہاں ’’خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے؟‘‘ المیہ نہیں تو کیا ہے کہ ہمارے سیاسی و غیرسیاسی فیصلہ سازوں کی اَکثریت ’میڈ اِن پاکستان‘ گاڑیاں استعمال نہیں کرتی۔ کسی کی جیب میں ’میڈ اِن پاکستان‘ موبائل فون اور کلائی پر میڈ اِن پاکستان گھڑیاں نہیں۔ حتیٰ کہ جس مائیکروفون پر امریکہ سے اقتصادی کنارہ کشی (بائیکاٹ) کا مطالبہ کیا گیا وہ بھی پاکستان یا کسی مسلم دنیا کا ساختہ نہیں تھا۔ 

کیا یہ امر تعجب خیز اور توجہ طلب نہیں کہ صوبائی اسمبلی کی عمارت‘ تعمیرات و خوبصورتی‘ جملہ سہولیات‘ حفاظتی آلات و ہتھیار کسی مقامی تحقیق (ہنرمندی) کا نتیجہ نہیں۔ تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ مسلم دنیا نے صدیوں سے تحقیق و ایجادات کو خیرباد کہتے ہوئے مغربی ممالک کے سامنے سرتسلیم خم کر دیا ہے اور نتیجہ سب کے سامنے ہے کہ ہم اور مسلم ممالک مصنوعات و ہتھیاروں کی منڈی بن چکے ہیں‘ تو اِس غلامی سے نجات‘ اِس بیماری کا علاج (کم سے کم) کسی صوبائی اسمبلی سے منظور ہونے والی قرارداد (محض ایک مطالبے) سے تو قطعی طور پر ممکن نہیں!

پاکستان پیپلزپارٹی (پارلیمینٹرین) سے تعلق رکھنے والے خیبرپختونخوا اسمبلی کے رکن (ایم پی اے) ’فخر اعظم وزیر‘ نے امریکہ کے خلاف جو (تحریرشدہ) قرارداد کے الفاظ پڑھ کر سنائے تو اُن کی آواز میں نجانے کہاں سے ’جوش اُمڈ آیا۔‘ خطابت کی خوبیوں کے ساتھ کہا ’’یہ ایوان وفاقی حکومت کو تجویز دیتا ہے کہ تمام تر سفارتی وسائل کا استعمال کرتے ہوئے امریکہ کو اپنے مؤقف پر نظرثانی کرنے پر مجبور کیا جائے تاکہ وہ اپنا سفارتخانہ یروشلیم منتقل کرنے کے فیصلے سے باز آ جائے اور مسلم دنیا کے اجلاس میں امریکہ کے اقتصادی بائیکاٹ کو قابل عمل بنایا جائے۔‘‘ 

عمدہ خیال ہے۔ عمدہ بات ہے لیکن امریکہ پر اقتصادی انحصار ختم کرنے (تنہائی) سے نقصان کس کا ہوگا؟ ’’تیرے محیط میں کہیں گوہر زندگی نہیں: ڈھونڈ چکا میں موج موج‘ دیکھ چکا صدف صدف۔۔۔ عشق بتاں سے ہاتھ اُٹھا‘ اپنی خودی میں ڈوب جا: نقش و نگار دیر میں خون جگر نہ کر تلف۔ (علامہ اقبالؒ )۔‘‘

خیبرپختونخوا اسمبلی میں اگر جرأت ہے تو وہ پشاور کی اُس اہم شاہراہ کو ’عام آمدورفت‘ کے لئے واگزار کرنے کی قرارداد منظور کرے اور اِس قرارداد پر عمل درآمد یقینی بنائے کیونکہ پشاور میں امریکہ سفارت خانے نے قریب تیس برس سے ایک سڑک بند کر رکھی ہے اور اِس کے ذریعے یونیورسٹی ٹاؤن سے پشاور صدر یا چھاؤنی سے ہوتے ہوئے یونیورسٹی ٹاؤن و حیات آباد آنے جانے والے سینکڑوں گاڑیوں اور سینکڑوں ہزاروں افراد کو لمبا چکر کاٹنا پڑتا ہے لیکن وہ ایک سفارتخانہ جو پورے علاقے کی سیکورٹی کے لئے ایک الگ سے خطرہ ہے‘ اُس کا مقام تبدیل کرنے کی کسی میں جرأت نہیں۔ 

کیا امریکہ یا کسی یورپی ملک میں کسی سفارتخانے کے لئے شاہراہ عام یوں بند ملتی ہے؟ 

ہمارے سیاسی فیصلہ ساز (عوامی نمائندے) ایک سے بڑھ کر ایک‘ بیانات داغنے کے ماہر ہیں۔ امریکہ کا مقابلہ کرنے کے لئے ’کردار کا غازی‘ ہونا پڑے گا۔‘ 

اُمت مسلمہ کے مفادات کے لئے ذاتی ترجیحات کا ازسرنو تعین کرنا پڑے گا۔ خود احتسابی کرنا پڑے گی۔ کیا ہمارے اراکین صوبائی اسمبلی کو معلوم ہے کہ افغانستان و عراق پر فوج کشی ہو یا بدنام زمانہ گوانتاناموبے‘ باگرام اور ابوالغریب قیدخانوں میں مسلمان قیدیوں پر مظالم کی انتہاء‘ دنیا بھر میں امریکہ اور اِس کے اتحادی ممالک کی مذمت کرنے میں پہل اور تعداد کے لحاظ سب سے زیادہ و پرہجوم احتجاج مظاہرے مسلمان ممالک میں نہیں بلکہ مغربی ممالک میں دیکھے گئے اور آج بھی وہاں کے رہنے والے اعلیٰ اقدار‘ اخلاقیات اور بلاامتیاز انسانی حقوق کے لئے آواز اٹھانے میں مصلحت‘ سیاست یا مسلکی عقائد کے تابع نہیں۔ کیا یہ بات معنی رکھتی ہے کہ ’’پاکستان اور مغربی جمہوری معاشروں میں بنیادی فرق یہ ہے کہ وہاں منتخب اراکین اور عوام کی نبضیں ایک ساتھ دھڑکتی ہیں!‘‘ 

دگرگوں ہے جہاں‘ تاروں کی گردش تیز ہے ساقی
دل ہر ذرہ میں غوغائے رستا خیز ہے ساقی
نہیں ہے نااُمید اقبالؔ اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی!
۔

No comments:

Post a Comment