ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
کھلی کچہری: بند گلی!
جمہوریت کسی ایک عام اِنتخاب کے اِنعقاد سے دوسرے چناؤ جیسے ’انتخابی مرحلے‘ کا نام نہیں۔ انتخابات کا خوش اسلوبی (آزادانہ‘ منصفانہ‘ شفافیت) سے انعقاد اپنی جگہ اہم لیکن منتخب نمائندوں اُور عوام کے درمیان مستقل و مسلسل رابطوں سے ایک ایسا وسیع المعانی طرزحکمرانی ’جمہوریت کا وجود (حاصل)‘ ہوتا ہے‘ جس حکومتی سطح پر فیصلہ اور قانون سازی میں اجتماعی مفادات پیش نظر رکھے جاتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں سب سے زیادہ جس ایک تصور کو سمجھا نہیں جا سکا جو ’جمہوریت‘ ہے جس پر اِس نظام کی روح کے مطابق رائج نہیں ہوسکا اور اِسی وجہ سے مغربی جمہوری معاشروں کی طرح ہمارے ہاں نہ تو اِس کے خاطرخواہ ثمرات ظاہر ہوئے اور نہ ہی عام آدمی (ہم عوام) کی نظر میں اِس کی قدرومنزلت (عزت) دکھائی دیتی ہے۔ صرف اُور صرف جمہوریت سے مالی طور پر مستفید ہونے والے منتخب اراکین ہی اِس کی وکالت اُور اِس کی اہمیت بیان کرتے دکھائی دیتے ہیں!
لمحۂ فکریہ ہے کہ جمہوری اِنتخابی عمل سے منتخب ہونے والی موجودہ خیبرپختونخوا حکومت کی آئینی مدت مکمل ہونے میں جب چھ ماہ سے بھی کم عرصہ رہ گیا ہے تو اِس باقی ماندہ عرصے (مہلت) سے فائدہ اُٹھانے کے لئے صوبائی حکومت نے عوام سے منقطع رابطے بحال کرنے کی ضرورت محسوس کی ہے اور اِس غرض سے صوبے کے طول وعرض میں عوامی نمائندے‘ افسرشاہی اور سرکاری اداروں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ عوام کے مسائل ’پوری توجہ سے‘ سنیں اور موقع پر ہی اِن مسائل کے حل کے احکامات بھی صادر کئے جائیں۔ ’کھلی کچہریاں‘ منعقد کرنے کا تصور نیا نہیں بلکہ اِن کا انعقاد بلدیاتی ادوار میں بالخصوص ہوتا رہا ہے لیکن بعدازاں امن و امان (سیکورٹی چیلنجز) کی وجہ سے انہیں معطل کردیا گیا تھا۔
سوالات بہت ہیں جیسا کہ کیا ہمارے منتخب نمائندوں کو معلوم نہیں کہ عوام کے مسائل و مشکلات کیا ہیں؟
ایسے قواعد و ضوابط کیوں تشکیل نہیں دیئے جاتے جن کی وجہ سے مسائل و مشکلات پیدا ہی نہ ہوں اور سرکاری اداروں کی کارکردگی ’سزأ و جزأ کے ذریعے بہتر ہو؟
آخر محکمانہ قواعد و ضوابط اور آئین پر نظرثانی کیوں نہیں کی جاتی کہ اِن میں موجود سقم دور ہوں؟
آج بھی خیبرپختونخوا میں ایسے قوانین رائج ہیں جنہیں قیام پاکستان سے قبل تشکیل دیا گیا تھا تو ایسے قدیمی قوانین کو جدید عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت نہیں یا قانون سازوں کو فرصت نہیں؟
انٹرنیٹ پر بھروسہ کرتے ہوئے ایسے ’آن لائن وسائل‘ کیوں تخلیق نہیں کئے جاتے جن سے سرکاری اداروں سے عمومی و خصوصی رجوع کرنے والوں کو آسانی ہو؟
اگر محصولات (ٹیکس) وصولی کے لئے باسہولت ’ون ونڈو آپریشن‘ شروع ہوسکتا ہے تو عوام کے مسائل کے حل کے لئے ایسے ہی ’سہولیات مراکز‘ متعارف نہیں کرائے جا سکتے؟
خیبرپختونخوا میں سب سے زیادہ شکایات تھانے اور کچہری سے جڑی ہوتی ہیں‘ جنہیں حل کرنے کے لئے انفرادی شکایات کو اجتماعی کیوں نہیں سمجھا جاتا؟
ساڑھے چار سال گزر گئے لیکن ’لینڈریکارڈ‘ مکمل طور پر کمپیوٹرائزڈ کیوں نہیں ہو سکا؟
عوام کے لئے مشکل بننے والے سرکاری اہلکاروں کو چند روز کے لئے معطل کرنے کے بعد پھر سے بحال کرنے‘ اُن کا کسی ضلع سے دوسرے ضلع تبادلہ اور انتظامی عہدوں پر محکمانہ ترقیاں دینے سے ’عام آدمی (ہم عوام)‘ کی زندگیاں کسقدر اجیرن ہیں‘ کیا یہ بیان کرنے کی ضرورت ہے؟ ہم ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں اگر کسی کو انصاف نہیں مل رہا تو وہ صرف ’عام آدمی (ہم عوام)‘ ہے۔ باقی ماندہ سبھی طبقات اپنے اپنے حقوق کے تحفظ میں متحد ہیں۔ آپ ڈاکٹروں‘ اساتذہ اور کلرکوں کو دیکھیں کہ کس طرح آئے روز اپنے مطالبات منواتے ہیں اور پھر بھی سیر (مطمئن) نہیں ہوتے! توقع تھی کہ تحریک انصاف ’عام آدمی (ہم عوام)‘ کی توقعات پر پورا اُترے گی لیکن اِس نے بھی ’کھلی کچہری‘ جیسی ’سہل پسندی‘ کو اختیار کیا اُور من پسند افراد کو سہولیات دینے کی راہ اختیار کیا۔ آخر اُن محروم طبقات کی داد رسی کون کرے گا جو کسی ’کھلی کچہری‘ تک رسائی کے وسائل یا اطلاع نہیں رکھتے؟ کیا ہمارے سیاسی فیصلہ سازوں کو ایسا نظام تشکیل نہیں دینا چاہئے جس میں کسی کھلی کچہری کے انعقاد کی ضرورت (حاجت) ہی محسوس نہ ہو؟ سچ تو یہ ہے کہ کھلی کچہریوں کے انعقاد سے ’عام آدمی (ہم عوام)‘ کو بند گلی میں دھکیل دیا گیا ہے!
خیبرپختونخوا میں کھلی کچہریوں کے انعقاد کے لئے ’ٹاؤن ہالز (ضلعی حکومتوں کے دفاتر اور وسائل)‘ کا استعمال کیا جاتا ہے‘ جہاں جملہ سرکاری اداروں کے نمائندے ایک چھت تلے جمع ہوتے ہیں اور رجوع کرنے کے لئے آنے والے درخواست گزاروں (سائلوں) کی فریادیں سنی جاتی ہیں۔ (کہیں آپ کے ذہن میں بھی کسی مغل بادشاہ کے دربار کا منظر تو نہیں آ رہا؟) فیصلہ سازی کے منصب پر فائز اور مراعات یافتہ افسرشاہی کے نمائندوں سے اگر اُن کے دفاتر میں رجوع کیا جائے تو معمول کے دفتری کاموں کے لئے بھی ’داد رسی‘ تو دور کی بات صاحب بہادر کی ’منہ دکھائی‘ بھی نہیں ہوتی کیونکہ سرکاری ملازمین کی ’سزأ و جزأ‘ کا نظام سرے سے موجود ہی نہیں۔ سرکاری ملازمین خود کو عوام کا ملازم نہیں بلکہ حاکم سمجھتے ہیں! اگر کوئی سرکاری اہلکار کسی درخواست گزار کا مسئلہ حل نہیں کرتا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اُسے اپنے خلاف ہونے والی کسی ممکنہ محکمانہ کاروائی یا قانونی چارہ جوئی کا خوف نہیں۔ وہ جانتا ہے کہ عام آدمی کو جس قدر ذلیل کیا جائے اُتنا ہی کم ہے!
ستائیس اکتوبر کے روز خیبرپختونخوا حکومت نے ایک اعلامیہ (نوٹیفیکیشن) جاری کیا جس کے تحت صوبے کی تاریخ میں پہلی مرتبہ سرکاری سطح پر ’کھلی کچہریوں‘ کے انعقاد کو قواعد و ضوابط (Standard Operating Procedures) کا پابند بنایا گیا اُور اِس اعلامیے کے ذریعے صوبائی محکموں کے سیکرٹریز‘ تمام ڈویژنز کے کمشنروں اُور صوبے کے تمام ڈپٹی کمشنروں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ ہر ماہ کم سے کم دو مرتبہ ایسی کھلی کچہریوں کے انعقاد میں تعاون کریں اور اپنی موجودگی یقینی بنائیں! کوئی پوچھنے والا نہیں کہ صوبے‘ ڈویژن‘ ضلع اور تحصیل کی سطح پر حکمرانی کرنے والے ’ایک سے زیادہ حکمرانوں‘ کی بادشاہی میں جائز کام اس قدر مشکل و ناممکن کیوں ہو چکے ہیں؟ ایک وقت تھا کہ جب حکمران اخبار پڑھتے تھے اور خبروں‘ ادارتی مضامین اور تصاویر کا نوٹس لیتے تھے لیکن اب تو ٹیلی ویژن کا زمانہ ہے! عام آدمی (ہم عوام) کے پاس حکمرانوں تک مسائل (فریاد) پہنچانے کا بنیادی ذریعہ ’اخبارات‘ کو مسلسل نظرانداز کیا جاتا ہے لیکن ذرائع ابلاغ کے اِداروں کی بہتات اور سوشل میڈیا جیسے برق رفتار وسائل کی موجودگی میں بھی اگر حکمران یہ سمجھتے ہیں کہ اُنہیں کھلی کچہریوں کے انعقاد کی ضرورت ہے تو اِس ’’باوجود عمل‘‘ کو ٹیلی فون اور انٹرنیٹ رابطہ کاری‘ سے مہینے میں دو مرتبہ نہیں بلکہ پورا مہینہ‘ یومیہ کم سے کم آٹھ گھنٹے (دفتری اوقات کے دوران) ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ کیا عام آدمی (ہم عوام) پوچھنے کی جسارت کر سکتے ہیں کہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے جس دھوم دھام سے ’سی ایم ہاؤس میں شکایات سیل‘ کا آغاز کیا تھا‘ وہ تجربہ کیوں ناکام ثابت ہوا؟
جس صوبے کے چیف ایگزیکٹو (وزیراعلیٰ) کو فرصت نہ ہو وہاں ماتحت سیکرٹریز‘ کمشنروں اور ڈپٹی کمشنروں سمیت مراعات یافتہ سرکاری ملازمین سے توقع کرنا کہ وہ عوام کے لئے مسیحا ثابت ہوں گے اور اِس عمل سے منتخب نمائندوں اور عوام کے درمیان منقطع ہونے والا سلسلہ پھر سے بحال ہو جائے گا تو درحقیقت یہ ایک غلطی (مغالطے) کی اِصلاح دوسری (زیادہ سنگین) غلطی سے کرنے کی کوشش ہے!
اے کاش کہ غلطیوں سے اچھے نتائج برآمد ہونا شروع ہو جائیں تو خیبرپختونخوا میں رہنے والوں کی تقدیر راتوں رات بدل جائے گی۔ بصورت دیگر کوئی صورت (حربہ) اور کوئی حل کارگر (پائیدار و نتیجہ خیز) ثابت ہوتا دکھائی نہیں دے رہا! ’’ناکام عشق ہوں سو میرا دیکھنا بھی دیکھ ۔۔۔ کم دیکھتا ہوں اُور غضب دیکھتا ہوں میں!‘‘
۔
No comments:
Post a Comment