ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
روشنائی رابطوں کی!
تعلیمی اِداروں میں داخلہ‘ ماہانہ ٹیوشن فیس‘ درسی یا اندرون و بیرون ملک ملازمتی و اعلیٰ تعلیم کے لئے لازمی اِمتحانات ہوں یا بجلی گیس و ٹیلی فون بلوں کی ادائیگی جیسی ضرورت‘ عام صارفین کے لئے پاکستان میں ’بینکاری کا شعبہ‘ اہم و کلیدی کردار اَدا کر رہا ہے‘ جس میں وسعت (بہتری) کی گنجائش موجود ہے۔ بالخصوص نوجوان نسل میں ’بچت‘ کی عادت متعارف کرانے‘ تعلیم‘ صنعتی ترقی اُور چھوٹے پیمانے پر ’خود روزگار منصوبوں‘ کے لئے آسان شرائط اور کم شرح سود پر قرضہ جات سے ترقی کے نئے جہان دریافت کئے جا سکتے ہیں لیکن اِس ہدف کے لئے بالخصوص نجی شعبے میں بینکوں کو ’قومی ذمہ داری‘ کا اِحساس کرنا ہوگا۔ ہر سال اَربوں (ہزاروں کروڑ) روپے کا منافع کمانے والے مالیاتی اِداروں کی ’قومی ترقی میں حصہ داری (شراکت)‘ زیادہ حوصلہ اَفزأ نہیں لیکن ’سنہری بینک‘ نامی نجی مالیاتی اِدارے نے ایک ایسی مثال قائم کی ہے‘ جو ہم عصر اداروں کے لئے قابل تقلید اور پاکستان کی تاریخ و حالات سے نئی نسل کو روشناس کرانے کی کامیاب کوشش ہے۔
عیسوی سال ’دوہزار اَٹھارہ‘ کے نت نئے اَنداز سے جنتری (کیلنڈر) شائع کرنا‘ مالیاتی اِداروں کی نفیس روایات کا تسلسل ہے ‘ جس میں یہ اِدارے ہمیشہ ہی سے ایک دوسرے پر سبقت لیجانے کی کوشش کرتے ہیں جنہیں نہ صرف ملکی بلکہ عالمی سطح پر بھی اِعزازات اُور توصیف سے نوازہ جاتا ہے۔ ’’روشن ہر قدم‘‘ کا عزم لئے ’’سنہری بینک‘‘ نے پہل کرتے ہوئے ’’روشنائی رابطوں کی‘‘ ڈیسک ٹاپ کلینڈر (Desktop Calendar) متعارف کرایا ہے جس پر ’بارہ مہینوں‘ کو الگ الگ صفحات پر درج کرنے کے ساتھ پاکستان کے نایاب ڈاک ٹکٹ شامل اشاعت کئے گئے ہیں تاکہ ’’ڈاک سے جڑی روشن یادیں‘‘ تازہ ہو جائیں۔ ایک وقت تھا جب ڈاک ٹکٹ جمع کرنے کا شوق ہر دوسرے یا تیسرے طالب علم کی ہم نصابی سرگرمیوں کاحصہ ہوا کرتا تھا لیکن ایسے بہت سے شوق ’انٹرنیٹ‘ (سماجی رابطہ کاری) کا سیلاب بہا لے گیا ہے۔ ’سنہری بینک‘ نے 1948ء سے 1979ء کے درمیان جاری ہونے والے چند ڈاک ٹکٹوں کے ساتھ ’اُردو زبان میں خطوط نگاری‘ کو بھی متعارف کرایا ہے جس کی سوشل میڈیا کے ذریعے تشہیر بالخصوص نئی نسل کے لئے کارآمد و مفید ثابت ہوگی۔ ہم بھول چکے ہیں کہ ’’اُردو دنیا کی اُن چند بڑی زبانوں میں شامل ہے‘ جس کے دامن میں ہر موضوع‘ ہر خیال‘ ہر اِنسانی جذبہ و اِحساس کے بیان کی صلاحیت موجود ہے۔ (قابل ذکر ہے کہ) عالمی ادب میں موجود اصناف سخن اپنے تمام ادبی حسن کے ساتھ اُردو کا حصہ بن چکی ہیں۔ خطوط نگاری‘ اُردو ادب کی وہ نرالی صنف ہے جسے غالب‘ پطرس‘ آزاد‘ اقبال‘ سرسیّد و حالی نے اُوج کمال تک پہنچایا۔ شستہ زبان‘ عمدہ تراکیب‘ تشبیہات و استعارات سے پُر ’اُردو اَدب‘ میں موجود یہ خطوط ادبِ عالی کا شاہکار تصور کئے جاتے ہیں۔‘‘ سنہری بینک نے ماضی میں خاص وعام رائج لفظوں کی زبان سے لطف اندوز ہونے کا بہانہ (موقع) ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ یاد آوری کا شکریہ۔ وہ بھی کیا دور تھا جب برجستہ جملوں‘ حکایتوں کے استعمال‘ شکوے اور شکایتیں بڑے اہتمام سے سطح قرطاس پر منتقل کی جاتی تھیں۔ آج تو انگریزی زبان میں اُردو لکھنے کا رواج بڑھ گیا ہے۔ انگریزی کئی زبانوں کو نگل چکی ہے اور نئی نسل کی نظر و بصیرت ’دانش فرہنگ‘ کے جلوؤں سے خیرہ ہو چکی ہے اور وہ اپنی قومی زبان اُردو سے جس تیزی سے دور ہو رہی ہے‘ قطعی تعمیری نہیں۔ سنہری بینک کے ’ڈیسک ٹاپ کلینڈر‘ پر درج اُردو تحریروں کو ’نئی زندگی‘ عطا کر دی گئی ہے! جنہیں پڑھ کر آنکھیں نم ہونا شرط ہے اور یہ دل میں اُترتی محسوس ہوں گی۔
سنہری بینک کے کلینڈر نے توجہ پاکستان میں بینکاری کے شعبہ کی جانب مبذول کر دی ہے جو بنیادی طور پر چار درجات میں تقسیم ہے۔ بڑے بینک کہلانے والے اِدارے جن کے اثاثہ جات نوے ارب سے زیادہ ہیں۔ درمیانی بینک جن کہ اثاثہ جات پندرہ ارب سے زیادہ ہیں۔ چھوٹے بینک جن کے کل اثاثہ جات پندرہ ارب سے کم اور چوتھی قسم کے ’اسلامی بینک‘ جن کے ذریعے اسلام کے وضع کردہ اَصولوں کے مطابق مالی امور طے ہوتے ہیں اور یہ عمومی و خصوصی لین دین ’سود سے پاک بینکاری‘ کہلاتا ہے۔ بینکوں کا قیام اور اُن کی تعداد میں اضافہ وقت کے ساتھ ہو رہا ہے لیکن چونکہ پاکستان کی کل آبادی کا دس فیصد سے کم حصہ بینکاری سے استفادہ کرتا ہے اِس لئے بینکنگ کا شعبہ حسب طلب پھیلتا چلا جا رہا ہے اور نئے بینک یا نئی سہولیات متعارف کرانے کی کوشش کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ بینکاری سے رجوع کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے۔ اِسی غرض و غائت کے لئے ’اسٹیٹ بینک آف پاکستان‘ نے 28 ستمبر 1991ء کو ’سنہری بینک‘ کے نام سے نجی اِدارے کو مالی سرگرمیوں اُور سہولیات متعارف کرانے کی باضابطہ اِجازت دی اُور وقت نے ثابت کیا کہ اِس ادارے نے نہ صرف صارفین کو بینکاری کے عالمی معیار کے مطابق خدمات فراہم کیں بلکہ ملازمین کے حقوق کی ادائیگی‘ صنفی امتیاز سے پاک یکساں ملازمتی مواقع اُور سماجی ذمہ داریاں (سوشل ریسپانس بلٹیز) کی ادائیگی میں بھی رائج معیار کو نئی بلندیوں سے روشناس کرایا۔ سنہری بینک کی پہلی شاخ (برانچ) کا آغاز 16 اپریل 1992ء کو لاہور سے ہوا۔ جس کے بعد 9 مئی 1992ء کو کراچی اور اب اِس کی 288 شاخیں بشمول ’’16 اسلامی بینکنگ برانچیں‘‘ پاکستان کے طول و عرض بشمول شمالی علاقہ جات میں فعال ہیں۔
سنہری بینک پر صارفین کے اعتماد کا انداز اِس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ بینک نے گذشتہ مالی سال کے اختتام پر (قبل از ٹیکس ادائیگی) دو ارب روپے سے زائد کا منافع کمایا۔ قریب دو ہزار ملازمین پر مشتمل یہ بینک ’پبلک لمٹیڈ‘ کمپنی ہے جس کے حصص کی خریدوفروخت ’سٹاک ایکسچینج آف پاکستان‘ کے ذریعے کی جاتی ہے۔ بینک کے نگران ’روپالی گروپ (Rupali Group)‘ نے مختلف صنعتی اور تجارتی (کمرشل) منصوبوں میں دس ارب روپے کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ سنہری بینک کی ترجیحات میں برآمدات (ایکسپورٹس) کا فروغ سرفہرست ہے اور اِسی غرض سے 40فیصد قرضہ جات برآمدات سے جڑے منصوبوں کو دیئے جاتے ہیں۔
رواں سال کے پہلے نو ماہ (تیس ستمبر دوہزار سترہ) کے دوران ’سنہری بینک‘ نے ٹیکس منہا (اَدا) کرنے کے بعد ’ایک اعشاریہ دو ارب‘ کا منافع ظاہر کیا جبکہ گذشتہ برس (دوہزار سولہ) کے اِسی عرصہ نو ماہ (جنوری سے ستمبر تک) بینک کو ایک اعشاریہ پانچ چار ارب روپے منافع ہوا تھا۔ بیس فیصد سے زائد اِس غیرمعمولی کمی (خسارے) پر قابو پانے کے لئے یقیناًمالیاتی امور کے ماہرین اور بینک انتظامیہ غوروخوض اور مشاورت کے جس دور سے گزر رہی ہے اُس میں بینک کی مقبولیت میں اضافہ بھی شامل ہے اور اِس مقصد کے لئے ’منفرد ڈیسک ٹاپ کلینڈر‘ جاری کرکے ’نئے سال‘ کا جس بامقصد و منفرد انداز سے آغاز و استقبال کیا گیا ہے‘ وہ ایک کامیاب کوشش ہے اور اِس کے نتائج حسب توقع بہتر ثابت ہوں گے۔ سنہری بینک مشعل راہ ہے کہ دیگر مالیاتی اِدارے (بینک) بھی اپنے موجودہ اور نئے صارفین کو متوجہ کرنے کے لئے ’ذرا ہٹ کے‘ اقدامات کر سکتے ہیں۔ جن کے لئے امکانات کا جہاں لامحدود ہے۔
۔
![]() |
http://epaper.dailyaaj.com.pk/index.php?city=peshawar&page=20&date=2017-12-11 |
No comments:
Post a Comment