ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
سزاوار پشاور کیوں؟
سیاست دانوں کے منہ سے اکثر نکلنے والے جملوں میں جہاں جمہوریت‘ جمہوری عمل‘ جمہوری اِداروں کے تحفظ کی تکرار ملتی ہے وہیں قانون ساز ایوانوں (پارلیمینٹ) کی بالادستی اُور خودمختاری پر آنچ نہ آنے دینے کے عزم کا اظہار بھی کیا جاتا ہے لیکن کوئی ایک بھی ایسی منتخب حکومت نہیں آئی جس نے پارلیمینٹ کے فیصلوں کو صوابدیدی اختیارات سے بدلنے کی کوشش نہ کی ہو بلکہ ہر سیاسی (منتخب) حکومت کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے دور اقتدار میں صوابدیدی اختیارات میں اضافہ کرے چاہے اِس سے پارلیمینٹ کو کتنی ہی سبکی کا سامنا کیوں نہ کرنا پڑے۔
مثالیں موجود ہیں کہ ماضی و حال کے وزرائے اعلیٰ نے ترقیاتی فنڈز کی تقسیم کرتے ہوئے اپنے منصب‘ ذمہ داریوں اور سب سے بڑھ کر خیبرپختونخوا کے عام آدمی (ہم عوام) سے اِنصاف نہیں کیا بلکہ اِس بات کو زیادہ اہم سمجھا کہ اپنے اپنے آبائی حلقوں (علاقوں) کو ترجیح دی جائے۔ یہ معاملہ (سیاسی بدنیتی) عدالت عالیہ (پشاور ہائی کورٹ) میں زیرسماعت (زیرغور) آئی تو ضمنی طور پر اِس بات کا بھی جائزہ لیا گیا کہ کسی طرح ترقیاتی فنڈز کی منصفانہ (درست) تقسیم کا کوئی ایسا (عادلانہ) طریقۂ کار (فارمولہ یا پیمانہ) وضع کر دیا جائے جس کے بعد کسی بھی حکومت کے لئے ممکن نہ رہے کہ وہ صوابدیدی اختیارات کے بل بوتے پر پسماندہ اور بالخصوص دور دراز کے اضلاع کی حق تلفی کی مرتکب ہو۔ بائیس دسمبر کے روز پشاور ہائی کورٹ نے اِس بات کو ’’غیرقانونی‘‘ قرار دیا کہ صوبائی اسمبلی سے منظور ہونے والی سالانہ ترقیاتی حکمت عملی (اینول ڈویلپمنٹ پروگرام ’اے ڈی پی‘) میں شامل کسی ایک بھی منصوبے کو ختم کیا جا سکے۔ اگر کوئی ترقیاتی منصوبہ ایک مرتبہ ’اے ڈی پی‘ میں شامل ہو جائے تو اُس کے لئے مختص مالی وسائل کسی بھی صورت نہ تو روکے جا سکیں گے اور نہ ہی اُسے کسی دوسرے ترقیاتی منصوبے سے تبدیل کیا جا سکے گا۔ عدالت کی جانب سے واضح احکامات ہیں کہ وزیراعلیٰ (خیبرپختونخوا) سمیت کسی بھی صوبائی وزیر یا محکمے کے نگران کو یہ اختیار حاصل نہیں ہوگا کہ وہ ترقیاتی منصوبوں کی اسمبلی سے منظوری کے بعد اپنے صوابدیدی اختیارات کے ذریعے اُن میں ردوبدل کرسکے!
جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس محمد غضنفر خان کا یہ واضح حکم رکن صوبائی اسمبلی ضیاء اللہ آفریدی کے دائر کردہ مقدمے کی سماعت کے بعد ’تفصیلی فیصلے‘ میں لکھا گیا ہے‘ جو عدالت کی ویب سائٹ پر تاحال جاری نہیں ہوا اُور اُمید ہے کہ پہلی فرصت میں معاون عملہ اِسے جاری (اَپ لوڈ) کر دے گا۔ یوں تو ہر عدالتی فیصلہ ہی اہم اور لائق مطالعہ ہوتا ہے لیکن ’پشاور سے متعلق یہ فیصلہ یقیناًپورے خیبرپختونخوا اور ملک کے دیگر حصوں کے لئے ’رہنما اصول‘ ثابت ہوگا‘ جس سے سیاسی بددیانتی کے ایک ایسے دور (حاکمیت) کا اختتام ممکن ہوگا‘ جس کی وجہ سے ترقیاتی فنڈز انتخابی حلقوں سے متعلق ترجیحات کی نذر ہوجاتے ہیں اور حکمراں جماعت کی ترجیحات ذاتی و سیاسی مفادات کے گرد گھومتی رہتی ہیں!
متنازعہ شخصیت و منفرد سیاسی اصولوں کے مالک‘ رکن صوبائی اسمبلی ضیاء اللہ آفریدی کی ذات کے بارے میں ہزار ہا اعتراضات اور اُن کی پسند و ناپسند پر مبنی مؤقف سے اختلاف کی گنجائش بہرحال موجود ہے لیکن جب اُنہوں نے پشاور سے صوبائی اسمبلی کے حلقہ ’پی کے ون‘ میں ترقیاتی کاموں کی منسوخی کے حوالے سے پشاور ہائی کورٹ سے باضابطہ رجوع کیا تو صوبائی حکومت کو اپنی غلطی کا فوری اعتراف کرتے ہوئے ’اے ڈی پی اسکیم نمبر 782‘ جو کہ مالی سال دوہزار پندرہ سولہ اور بعدازاں سے متعلق تھی کے لئے مختص فنڈز جاری کر دینے چاہیءں تھے یوں یہ معاملہ پورے پاکستان کی توجہ کا مرکز (بدنامی کا باعث) نہ بنتا لیکن تحریک انصاف کی قیادت میں موجودہ صوبائی حکمرانوں کے لئے اِس بات کی قطعی کوئی اہمیت نہیں کہ اُن کے لئے ’انقلاب و انصاف‘ جیسے ناموں سے سیاست کرنے والی جماعت کی ’نیک نامی (ساکھ)‘ کتنی اہمیت رکھتی ہے! مالی سال دوہزار پندرہ سولہ اور مالی سال دوہزار سولہ سترہ کی ترقیاتی حکمت عملی میں پشاور کے ’محل تیرائی‘ کے لئے متعدد ترقیاتی منصوبوں پر مبنی ایک حکمت عملی وضع کی گئی لیکن چونکہ وہاں سے رکن صوبائی اسمبلی نے تحریک انصاف سے اختلافات کا اظہار کیا اِس لئے وہ منظورشدہ ترقیاتی حکمت عملی منسوخ کر دی گئی یعنی سیاسی مخالفت کی سزا پشاور کو دینے کا فیصلہ کیا گیا۔
معاملہ عدالت میں پہنچا جس کا ’مختصر فیصلہ‘ 3 اکتوبر کو سنایا گیا تھا اور ’تفصیلی فیصلہ‘ بائیس دسمبر کو جاری کرتے ہوئے وزیراعلیٰ کے احکامات کو نہ صرف غیرقانونی قرار دیا گیا بلکہ آئندہ کے لئے بھی ایسی کسی حرکت پر پابندی عائد کر دی گئی! عدالت نے ترقیاتی اسکیم نمبر 782 کو رواں مالی سال ’دوہزار سترہ اٹھارہ‘ کا حصہ بنانے کا حکم دیا ہے اور کہا ہے کہ اِسے آئندہ صوبائی کابینہ کے اجلاس میں منظوری کے لئے پیش کیا جائے۔ منطقی امر ہے کہ جب صوبائی اسمبلی جیسا معزز ایوان کسی ترقیاتی منصوبے کی ایک مرتبہ منظوری دے دیتا ہے تو یہ بات کسی کا بھی صوابدیدی اختیار کس طرح ہو سکتی ہے کہ وہ صوبائی اسمبلی کے اِس فیصلے میں ردوبدل کرے اگر اعتراض ہوتا بھی ہے تو اُسے منظوری سے قبل سامنے آنا چاہئے۔
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے ایک نہیں دو مرتبہ مذکورہ ترقیاتی منصوبوں کو سالانہ ترقیاتی ترجیحاتی فہرست سے الگ (ڈراپ) کیا۔ پہلی مرتبہ دو مارچ دوہزار سولہ اور دوسری مرتبہ ’دس جون دوہزار سولہ‘ کے روز لیکن اُن کی کابینہ میں موجود کسی بھی وزیر و مشیر نے ایسا کرنے پر اعتراض نہیں کیا جس سے عیاں ہے کہ ہر کسی کو اپنے اپنے انتخابی حلقے اور ذاتی وسیاسی مفادات سے غرض ہے۔ کیا تحریک انصاف ادراک رکھتی ہے کہ پشاور کے حقوق غصب کرنے سے جو کچھ حاصل ہوا ہے اُس کا آئندہ عام انتخابات پر کتنا منفی اثر پڑے گا؟ شاہانہ مزاج پر گراں نہ گزرے تو جان کی امان پاتے ہوئے سوال یہ بھی ہے کہ ’خیبرپختونخوا کے کسی بھی ضلع اور علاقے کے لئے مختص (مشتہر) ترقیاتی فنڈز روک کر‘ وہاں کے رہنے والوں کو سزا دینا کہاں کا انصاف و دانشمندانہ اقدام تھا‘ جس کی اگرچہ ’پشاور ہائی کورٹ‘ نے کوئی سزا مقرر نہیں کی اور نہ ہی مالی جرمانہ عائد کیا ہے لیکن درپردہ فیصلے سے ثابت ہو گیا ہے کہ موجودہ فیصلہ ساز قیادت کرنے کی کم سے کم اہلیت کے معیار پر بھی پورا نہیں اُترتے!؟
۔
No comments:
Post a Comment