ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
قائد اعظمؒ : اظہار عقیدت!
بانئ پاکستان‘ بابائے قوم اُور قائد اعظمؒ جیسے جلیل القابات ’’محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ (پیدائش: 25 دسمبر 1876ء۔ وفات: 11 ستمبر 1948ء)‘‘ کی عملی زندگی‘ سیاسی جدوجہد اُور خداداد (شخصی) صلاحیتوں کا ’جامع تعارف‘ نہیں بلکہ پشاور سے اُن کی محبت کا ایک جیتا جاگتا مَظہر اور مُظہر ’اسلامیہ کالج‘ کی صورت یادگار بھی ہے جو آج ’پچیس دسمبر‘ کے روز بالخصوص ’دعوت (صلائے عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لئے)‘ دے رہی ہے کہ قائداعظمؒ کی ذات و فلسفے کو صرف نصابی اَسباق اور اُن کی یاد میں مخصوص ایام کے سانچوں تک ہی محدود نہ رکھا جائے بلکہ اُن کے اقوال و افعال کا گہرائی سے مطالعہ اور ’تدبر و تذکر‘ کیا جائے کہ آج کی تاریخ میں جبکہ ہر شعبے میں اغیار کی حکمرانی قائم و دائم ہو رہی ہے تو مستقبل کے چیلنجز سے نمٹنے کے لئے ’’قومی ترجیحات کا تعین کرتے ہوئے رہنما اَصول کیا ہونے چاہیئں؟‘‘
قائد اعظمؒ نے جس عملی انداز میں شعبۂ تعلیم (درس وتدریس) کو پیش نظر رکھا‘ کیا پاکستان کی موجودہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اُس بلند معیار کے کم سے کم درجے پر بھی پوری اُترتی ہیں؟ قائد اعظمؒ نے وطن سے محبت کو ’’بے جان حلف ناموں‘‘ کی حد تک محدود نہیں رکھا بلکہ ذاتی اثاثہ جات تعلیمی اِداروں کے نام وقف کر کے (درحقیقت) تلقین کی ہے کہ ہمیں نہ صرف قومی وسائل بلکہ ذاتی سرمایہ بھی اگر کسی چیز کے لئے وقف کرنا پڑے تو وہ تعلیم ہوگی‘ جس میں ’’ملک و ملت کا اِرتقاء‘ ترقی اُور بقاء‘‘ جیسے عروج (راز) پوشیدہ ہیں۔
پچیس دسمبر‘ آج پاکستان قائد اعظمؒ کی ’’142ویں‘‘ سالگرہ (جنم دن) منایا جا رہا ہے اور ایک روایت (رسم) رہی ہے کہ اِس دن کی مناسبت سے قومی سطح پر ’عام تعطیل‘ ہوتی ہے‘ حالانکہ یہ دن چند گھنٹے اضافی کام کرنے کا ہے۔
سرکاری سطح پر تقاریب کا انعقاد ایک معمول بن چکا ہے اور جہاں جہاں سرکاری وسائل مہیا (دستیاب) ہوں وہاں وہاں سیاسی‘ سماجی اور ثقافتی حلقوں سے تعلق رکھنے والے ’قائد اعظمؒ ‘ کی ذات کو ’خراج عقیدت‘ پیش کرنے کے لئے مدعو کئے جاتے ہیں‘ حالانکہ سچ تو یہ ہے کہ اُس گرامی ذات کو کسی ایسی ’’اندھی عقیدت‘‘ کی قطعی کوئی ضرورت (حاجت) نہیں جس میں اُس کے پیغام‘ تعلیمات اور مقصد کو پس پشت ڈال دیا جائے۔ یاد دہانی اور یاد آوری کے لئے ایسی تقاریب کا انعقاد اپنی جگہ ایک ’’شعوری کوشش (تصور)‘‘ تو ہو سکتی ہیں کہ قوم اور قوم کی قیادت کرنے والوں کے ضمیر کو جھنجوڑ کر بیدار کیا جائے لیکن یہ عمل کافی نہیں۔
تجدید عہد کی گھڑی ہے کہ قائد اعظمؒ کو دل سے ’’قائد‘‘ تسلیم کرتے ہوئے اُن کی فراموش تعلیمات و اسباق پر پڑی تہہ در تہہ ۔۔۔ بے حسی و خودغرضی‘ لالچ و فریب اور بدعنوانی (کرپشن) کی گرد جھاڑ دی جائے گی۔
قائد اعظمؒ جب کبھی بھی پشاور تشریف لائے اُنہوں نے اپنی فرصت نہیں بلکہ مصروفیات میں ’اِسلامیہ کالج‘ کو شامل رکھا۔ تاریخی طور پر اُن کی اِسلامیہ کالج کے معلوم تین دورے بالترتیب 1939ء‘ 1945ء اُور 1948ء میں ہوئے لیکن وہ بناء تقاریب و اہتمام بھی اِس اہم درسگاہ آتے رہے اور کچھ عجب نہیں کہ آج بھی اُن کی روح اسلامیہ کالج میں ہونے والی اُن خصوصی تقاریب کا حصہ بن کر مسرور ہو کہ اُن کے تحائف کی قدر کی گئی اُور اُن کا پیغام عام کرنے میں پشاور کا ’اسلامیہ کالج‘ آج بھی کلیدی (لانچ پیڈ جیسا) کردار اَدا کرسکتا ہے‘ جو یقیناًوقت کی ضرورت ہے۔ قائد اعظمؒ کی توجہ پاکستان کے ’شمال مغربی سرحدی صوبے (موجودہ خیبرپختونخوا اُور ملحقہ قبائلی علاقہ جات) کی جانب ’دل کو دل سے راہ‘ کی عکاس تھی۔ کوچہ آقا پیر جان (اندرون یکہ توت) پشاور کا سرتاج سادات گھرانہ‘ شروع دن سے مسلم لیگ کے ہراوّل دستے کا حصہ رہا‘ جن کی ضخیم سیاسی خدمات کا احاطہ کسی مضمون میں الگ سے ہونا چاہئے تاکہ پشاور کو اُس کے ماضی اور محسنوں سے روشناس کرایا جاسکے۔
بہرحال قائد اعظمؒ 1913ء سے ’(آل انڈیا) مسلم لیگ‘ کا حصہ بنے لیکن یہ جماعت 1886ء میں ’علی گڑھ مسلم یونیورسٹی‘ کے طلبہ تحریک کی ترقی یافتہ اور منظم شکل تھی جو مختلف ادوار سے گزرتے ہوئے 1930ء میں باقاعدہ سیاسی جماعت کے طور پر اُبھری۔ اِس کے بانئ اراکین میں خواجہ سلیم اللہ‘ وقار الملک‘ خان بہادر غلام‘ مصطفی چوہدری‘ سید امیر علی اور سید نبی اللہ کے مشن آگے بڑھانے کے لئے 30 دسمبر 1906ء بمقام ’’ڈھاکہ (موجودہ بنگلہ دیش)‘‘ آل انڈیا مسلم لیگ‘‘ کی بنیاد رکھی گئی جس کے رہنماؤں میں قائد اعظمؒ ‘ اے کے فضل حق‘ حسین شہید سہرودی‘ سر فیروز خان نون‘ خواجہ ناظم الدین‘ لیاقت علی خان‘ خلیق الزمان اور محمد علی بوگرہ شامل تھے۔ تاریخ شاہد ہے کہ ’مسلم لیگ طلوع ہوئی اور غروب ہو گئی!‘ جبکہ اِس کا نام استعمال کرنے والی مختلف النظریات سیاسی جماعتیں (دھڑے) پاکستان‘ بنگلہ دیش اُور بھارت میں وجود تو رکھتے ہیں لیکن معنویت نہیں۔
یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ قیام پاکستان (14اگست 1947ء) کے روز جب ’’آل انڈیا مسلم لیگ‘‘ تحلیل ہوئی تب اُن کی نظریاتی اَساس بھی جاتی رہی۔ پاکستان کی سطح پر مطالعہ کریں تو موقع پرست سیاست دان ’مسلم لیگ‘ کے نام سے فائدہ اُٹھاتے رہے‘ جنہیں پہچان ملی‘ عزت ملی‘ اقتدار و اختیار ملا‘ لیکن اُنہوں نے ’’قائداعظمؒ کے نظریات اور عمل سے ثابت تعلیمات کا احیاء‘‘ نہیں کیا اور آج ’بمعہ اہل خانہ‘ عدالتوں میں مالی بدعنوانی جیسے سنگین و شرمناک الزامات کا دفاع کرنے میں مصروف ہیں۔
قائداعظمؒ کی اِس سے بڑھ کر توہین نہیں ہوسکتی کہ اُن کے نام اور نظریات سے خود کو منسوب کرنے والے مالی و انتظامی بدعنوانیوں کے مرتکب پائے گئے ہیں۔ پانچ براعظموں میں ظاہری اثاثے اور سرمایہ کاری رکھنے والی آج کی حکمراں ’مسلم لیگ (نواز)‘ عدالتوں کے سامنے اپنی ’’حیثیت سے بڑھ کر مالی حیثیت‘‘ کے دستاویزی شواہد پیش کرنے کی بجائے خود کو ’’سیاسی انتقام‘‘ کا نشانہ قرار دے رہی ہے! تاریخ سوال رہے گی کہ ’نوازلیگ‘ قائداعظم کو منہ دکھانے کے لائق ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ قائد اعظمؒ کے اَصولوں پر کوئی ایک بھی ’مسلم لیگ‘ عوامی لیگ یا انڈین یونین مسلم لیگ‘ کاربند نہیں اور نہ ہی مسلم لیگ کا نام استعمال کرنے والی جماعتیں ہی ’’قائداعظمؒ شناسی‘‘ کو (آج کی تاریخ میں) ضروری سمجھتی ہیں! الگ الگ سیاسی و انتخابی منشور اُور اہداف اِس بات کا بین ثبوت ہیں کہ اگر کسی ایک بات پر آج کی تاریخ میں سب سے کم غور ہوا ہے۔ اگر کسی ایک اثاثے کی سب سے کم حفاظت کی گئی ہے تو وہ بصورت ’’پاکستان‘‘ قائد اعظمؒ کے وہ نظریات ہیں‘ جس میں ’درس وتدریس (علوم و فنون کے حصول)‘کو مرکزی‘ کلیدی و بنیادی اہمیت حاصل ہے۔
لب لباب (خلاصۂ کلام) یہ ہے کہ ’’پاکستان پر یقین‘‘ اُور ’’پاکستان میں یقین‘‘ وقت کی ضرورت ہے۔ کیا ہم قائداعظمؒ کے علاؤہ کسی دوسرے ایسے رہنما کا نام جانتے ہیں‘ جس نے اپنے اثاثہ جات (میراث) درس و تدریس کے لئے وقف کر دی ہو؟
۔
No comments:
Post a Comment