ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
روشن پاکستان!
طرزحکمرانی کی اصلاح ہی ملک میں حقیقی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے‘ جس میں کم خرچ ’اِی گورننس‘ کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ خوش آئند ہے کہ ’(وفاقی) وزارت برائے توانائی‘ کے ’پاور ڈویژن‘ نے ایک ’موبائل فون ایپلی کیشن‘ تخلیق کی ہے‘ جس کی رونمائی ’چھبیس دسمبر (دوہزارسترہ)‘ کے روز کی گئی اُور اِس ’’موبائل فون سافٹ وئر‘‘ کو ’’روشن پاکستان‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔
بال کی کھال اُتارنے کی ضرورت نہیں کہ آج کا پاکستان کتنا روشن ہے؟ اور کیا کسی موبائل فون سافٹ وئر کی تخلیق سے ملک میں جاری بجلی کی کمی دور ہو جائے گی؟ حکومت کا مؤقف ہے کہ بجلی کی لوڈشیڈنگ اُنہی علاقوں میں کی جاتی ہے جہاں اِس کی چوری زیادہ ہو‘ لیکن کیا بجلی چوری رپورٹ کرنے کے لئے کوئی ایسا طریقۂ کار (آپشن) وضع کیا جا سکتا ہے‘ جسے استعمال کرنے والوں کے لئے اپنی شناخت خفیہ رکھنا ممکن ہو اور بجلی چوری کی رپورٹ کرتے ہوئے خود کو محفوظ بھی سمجھیں؟
فی الوقت یہ بات بھی غنیمت ہے کہ بجلی کی تقسیم کار اور منتظم دس کمپنیوں (واپڈا‘ لاہور الیکٹرک‘ گوجرانولہ الیکٹرک‘ فیصل آباد الیکٹرک‘ اسلام آباد الیکٹرک‘ پشاور الیکٹرک‘ حیدرآباد الیکٹرک‘ سکھر الیکٹرک‘ کوئٹہ الیکٹرک‘ ٹرائبل ایریاز الیکٹرک سپلائی کمپنی) کے صارفین کی پریشانیوں اور بنیادی ہی سہی لیکن سہولیات فراہم کرنے کا کسی کو تو خیال آیا۔ بھلے ہی ’روشن پاکستان سافٹ وئر‘ سے پاکستان روشن نہ ہو لیکن اِسے اَندھیروں میں رکھنے کے اُوقات تو ’کم سے کم‘ معلوم ہو ہی جائیں گے اُور یہ بھی کسی غنیمت سے کم نہیں۔ مثال کے طور پر صارفین اپنے ہاں خوشی یا غم کی تقریب کے لئے اُوقات کا تعین کرنے میں اِس ’سافٹ وئر‘ کی مدد لے سکتے ہیں اُور بجلی کی فراہمی کے اُوقات کے مطابق معمولات طے کر سکتے ہیں لیکن اِس بات کی ضمانت (گارنٹی) کون دے گا کہ دیئے گئے اُوقات کار حتمی (قابل بھروسہ) ہوں گی!؟
’روشن پاکستان سافٹ وئر‘ تمام سمارٹ فونز جن میں ’اینڈرائڈ (Android)‘ اُور ’آئی اُو ایس (iOS)‘ آپریٹنگ سسٹمز شامل ہیں پر پر اِستعمال کیا جا سکتا ہے‘ لیکن اِس کے لئے انٹرنیٹ (ڈیٹا کنکشن یا وائی فائی نیٹ) سے منسلک ہونا لازمی (ضروری) ہے۔ سافٹ وئر کو محدود رکھنا سمجھ سے بالاتر ہے جس کے ذریعے کسی بھی صارف کو بلاقیمت اور کسی بھی وقت چار بنیادی سہولیات (معلومات) فراہم کی جاتی ہیں۔ 1: کسی بھی علاقے میں لوڈشیڈنگ کا شیڈول (معمولات) کیا ہیں؟ 2: متبادل ماہانہ بجلی بل حاصل کیا جاسکتا ہے۔ 3: نیٹ میٹرنگ (استعمال شدہ بجلی) کے بارے معلومات اور 4: بجلی کی فی یونٹ قیمت کی بنیاد پر اوسط ماہانہ بل حاصل کرنا ممکن بنا دیا گیا ہے۔ ماضی میں یہ کام بناء متعلقہ تقسیم کار دفتر کا دورہ کئے بناء ممکن نہیں ہوتا تھا۔
وزارت توانائی کے ذیلی اِدارے ’پاور اِنفارمیشن ٹیکنالوجی کمپنی (لاہور)‘ کا تخلیق کردہ یہ پہلا سافٹ وئر نہیں بلکہ اِس سے قبل ’بجلی میٹر ریڈنگ‘ بذریعہ اینڈرائڈ موبائل فون جیسے ’انقلابی سافٹ وئر‘ سے یوٹیلٹی بلز بارے صارفین کی بڑی شکایت کا اَزالہ ہو چکا ہے اور عموماً میٹرریڈرز جس انداز میں گھر بیٹھے خرچ ہونے والے بجلی یونٹس کا اندراج کر دیا کرتے تھے یا کسی سب ڈویژن میں بجلی کے چوری شدہ یونٹ پورا کرنے کے لئے صارفین کے بلوں میں یونٹس کا اضافہ کرنا ایک معمول ہوا کرتا تھا تو اب یہ شکایات ممکن نہیں رہیں کیونکہ ہر صارف پر اُس کے میٹر کی ریڈنگ سے متعلق تصویر پرنٹ ہوتی ہے۔ ’روشن پاکستان ایپ‘ کے ذریعے اگر صارفین کو اپنے بجلی میٹروں کی تصاویر اِرسال کرنے کی سہولت بھی دے دی جائے تو اِس سے اُن شکایات کی ’داد رسی‘ ہوگی‘ جن کے بلوں پر تصاویر (پرنٹنگ کی وجہ سے) پڑھنے کے قابل نہیں ہوتیں۔
اِسی طرح ماہانہ بل کی اقساط کروانے اور آخری تاریخ کے بعد جمع کئے جانے والے بلوں کا مرکزی ڈیٹابیس میں اندارج کرنے کی سہولت ہونی چاہئے۔ بجلی کے نئے کنکشن کی درخواست ‘ کنکشن عارضی یا مستقل معطل کرنے اور صارف کے کوائف میں تبدیلی کے بارے میں سہولیات اور طریقۂ کار بارے معلومات بھی اگر آن لائن فراہم کر دی جائیں تو اِس سے متعلقہ دفاتر سے رجوع کرنے والے صارفین کے دباؤ میں نمایاں کمی آئے گی۔
پاکستان میں ’بجلی کا ترسیلی نظام‘ سنجیدہ توجہ کا مستحق ہے۔ اِس بارے میں ’قومی سطح پر جائزہ‘ ضروری ہے۔ بجلی کی بوسیدہ تاریں نہ صرف برقی رو کی ’بلارکاوٹ ترسیلی مراحل‘ کی راہ میں حائل رہتی ہے بلکہ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات بھی برداشت کرنے کے قابل نہیں بالخصوص جب ہم خیبرپختونخوا کے شہری اُور بالائی علاقوں کی بات کرتے ہیں جہاں موسم سرما میں شدید برفباری‘ مٹی کے تودے گرنے اور موسم گرما میں ملک کے دیگر حصوں کی نسبت زیادہ بارشیں اور اِن سے پیدا ہونے والے سیلاب یا ندی نالوں میں طغیانی پیدا ہوتی ہے‘ جس کا پہلا منفی اثر بجلی کی فراہمی پر مرتب ہوتا ہے۔
بجلی کا نظام یوں تو سارا سال ہی کسی نہ کسی صورت متاثر (کمی بیشی کا شکار) رہتا ہے لیکن ایسے علاقوں کے بجلی صارفین کو بالخصوص بذریعہ ’روشن پاکستان سافٹ وئر‘ حکام تک رسائی دی جاسکتی ہے جو برقی رو کی کمی نہیں بلکہ ترسیلی نظام کی بوسیدگی کے باعث مشکلات سے دوچار ہیں۔
وزارت توانائی کو چاہئے کہ وہ خیبرپختونخوا میں ’بجلی کے ترسیلی نظام‘ کی وسعت و اصلاح کے لئے بھی کچھ مالی وسائل مختص کرے۔ بطور خاص ’جاری میگا ترقیاتی منصوبوں‘ کی مثالیں موجود ہیں‘ جہاں بجلی کا ترسیلی نظام جدید خطوط پر استوار نہیں کیا جارہا جیسا کہ پشاور کی میٹرو بس (ریپیڈ بس ٹرانزٹ ’آر بی ٹی‘) کے لئے بجلی کے کھمبوں کو اکھاڑ کر دوبارہ ننگی تاریں آہنی کھمبوں پر آویزاں کر دی گئی ہیں۔
گھنٹہ گھر سے گورگٹھڑی (تحصیل) تک ’ہیرئٹیج ٹریل‘ کے لئے بھی ’بجلی کی تاریں بصورت جال (گھچے) بڑا چیلنج ہیں جبکہ مسجد مہابت خان سے متصل صرافہ بازار اُور اندرون شہر کے جملہ گلی محلے‘ کوچے اور تجارتی مراکز میں بجلی کے ’اڑھے ترچھے‘ تار ’پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی (پیسکو)‘ کی کارکردگی (سوچ بچار) کا منہ بولتا ثبوت ہیں! اگر ’روشن پاکستان سافٹ وئر‘ کے ذریعے بجلی صارفین کی شکایت اُور تاثرات (فیڈ بیک) حاصل کرنے کی سبیل بھی مہیا کر دی جائے تو اِس سے بناء کسی اضافی خرچ یا کوشش گرانقدر معلومات (ڈیٹا) حاصل کیا جا سکے گا۔
بجلی کے وہ صارفین جو سمارٹ فونز‘ انٹرنیٹ اور اِی میل سے لیس ہیں‘ اُنہیں پرنٹ شدہ بل اِرسال کرنے کی بجائے الیکٹرانک بلوں کی ترسیل سے کروڑوں کی بچت الگ سے ممکن ہے۔ ’اِی گورننس‘ کا اطلاق جس قدر زیادہ اور جس قدر وسیع پیمانے پر کیا جائے گا‘ اِس سے اُتنے ہی ماحول دوست مثبت نتائج حاصل ہوں گے۔ آزمائش شرط ہے۔
۔۔
No comments:
Post a Comment