Thursday, December 28, 2017

Dec 2017: Sugar Mafia hold over the commodity & farming!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
’ ۔۔۔’مالیاتی دہشت گرد!‘
نصاب تعلیم کا حصہ ہے کہ ’’پاکستان ایک زرعی ملک ہے‘‘ لیکن اِس حقیقت پر خاطرخواہ یقین اور اعتماد تو دور کی بات ’زرعی شعبے کی ترقی‘ میں پنہاں اِمکانات اُور غذائی خودکفالت جیسے کثیرالجہتی ثمرات بھی پیش نظر نہیں رہے۔ 

زرعی ملک‘ زرعی معیشت ومعاشرت‘ زرعی اقتصادی نظام‘ زرعی انحصار‘ زرعی منڈیاں‘ زرعی پیداواری عوامل‘ زرعی روزگار کے مواقع اور زرعی توسیع و تحقیق جیسے جملہ متعلقہ شعبے خاطرخواہ توجہ چاہتے ہیں۔ زراعت کے بارے ہمیں کسی مظالطے یا خوش فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہئے بلکہ اِس حقیقت کے کماحقہ ادراک کے لئے سیاسی و غیرسیاسی فیصلہ سازوں کا تجاہل عارفانہ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے‘ جو دل کے اندھے ہیں‘ جنہیں توانائی بحران کی موجودگی میں ماحولیاتی و موسمیاتی منفی تبدیلیوں کا باعث بننے والی ’صنعتی ترقی‘ زیادہ پائیدار دکھائی دیتی ہے۔ 

زراعت کی سرپرستی چھوٹے کاشتکاروں اور زمینداروں کے لئے مراعات دینے سے ممکن ہے لیکن حکومت سطح پر رعائت (سبسڈی) کا بڑا حصہ صنعتوں جیسا کہ ’شوگرملز‘ کے لئے مخصوص کر دیا جاتا ہے لیکن اُن محنت کشوں کا ضامن اور سرپرست بننے کے کوئی تیار نہیں‘ جنہیں بلاسود یا آسان شرائط پر قرضہ جات اِس لئے نہیں ملتے کہ اُن کی جان پہچان نہیں ہوتی۔ آج کھیتوں میں کام کرنے والوں کو اگر روزگار میسر نہیں تو اِس کا سبب وسائل کی غلط تقسیم اور سرکاری سطح پر غلط فیصلے ہیں کیونکہ جس محنت کش کو اعزاز ملنا چاہئے وہ راندۂ درگار ہے۔ جنہوں نے غذائی خودکفالت عملاً ممکن بنانے کے لئے اپنا خون پسینہ ایک کر رکھا ہے‘ اُسی کی خدمات کا اعتراف نہیں کیا جارہا تو یاد رہے کہ ’’حکومتیں کفر سے تو قائم رہ سکتی ہیں لیکن ظلم سے نہیں!‘‘

کراچی سے پشاور تک ’گنے کے کاشتکار‘ سراپا احتجاج ہیں کیونکہ شوگر ملوں نے پہلے گنے کی فصل خریدنے سے انکار کیا اور بعدازاں اُس کی قیمت بھی خود ہی مقرر کی‘ جن سے فصل کی کاشت (پیداواری) اور نقل و حمل پر اُٹھنے والے اخراجات ہی کی ادائیگی بمشکل ممکن ہو پاتی ہے۔ ’پاکستان شوگرملز ایسوسی ایشن‘ کا مؤقف ہے کہ اُن کے پاس پہلے ہی پچاس فیصد سے زائد گنے کا ذخیرہ موجود ہے جبکہ ملک کی سالانہ ضروریات کے لئے درکار گنے کی مقدار 120 روپے فی 40 کلوگرام سے زیادہ نہیں خریدی جائے گی۔‘‘ یاد رہے کہ مالی سال 2017ء کے پنجاب‘ سندھ اور خیبرپختونخوا (صوبائی) حکومتوں نے گنے کی اُس امدادی ’قیمت خرید‘ کو برقرار رکھا تھا‘ جو مالی سال 2015ء میں طے (مقرر) کی گئی تھی۔ یہ قیمت پنجاب اور خیبرپختونخوا کے لئے 180 روپے‘ سندھ کے لئے 182 روپے فی چالیس کلوگرام تھی جبکہ حکومت نے شوگرملز کے لئے دس روپے ستر پیسے فی کلوگرام سبسڈی (رعائت) دینے کا بھی اعلان کیا تھا‘ جو تین مراحل میں ڈیڑھ لاکھ ٹن چینی برآمد کرنے والوں کو دی جائے گی تاکہ وہ عالمی منڈی میں چینی کی قیمتوں کا مقابلہ کر سکیں۔

پاکستان میں کاشتکاروں کی قسمت اُس وقت تک تبدیل نہیں ہوسکتی‘ جب تک ہر شعبے کی طرح شوگر ملوں کی ملکیت اُن بااثر شخصیات کے نام رہے گی‘ جن کی فیصلہ سازی اور کاروباری و ذاتی مفادات آپس میں متصادم ہیں۔ شریف اور زرداری (بھٹو) خاندان بالترتیب پنجاب اور سندھ کی پچاس فیصد سے زائد شوگر ملوں کے مالک ہیں جبکہ باقی ماندہ شوگر ملوں میں سے بھی اکثر سیاست دانوں یا اُن کے اہل خانہ کی ملکیت ہیں‘ یہی وجہ ہے کہ کاروباری طبقات کی طرح شوگر ملز مالکان اپنی آمدن کا ایک خاص حصہ قومی سیاست کے لئے مختص رکھتے ہیں اور عام انتخابات میں سرمایہ کاری کے ذریعے فیصلہ سازی کے اُس عمل کو یرغمال (ہائی جیک) کئے ہوئے ہیں‘ جس کے ذریعے چھوٹے کاشتکاروں‘ زمینداروں‘ مزدوروں‘ محنت کشوں اور صارفین کے حقوق کا تحفظ ہونا چاہئے۔ المیہ ہے کہ بہرصورت برسراقتدار حکمراں خاندانوں کی کھلم کھلا ’مالیاتی اجارہ داری‘ درحقیقت ’مالیاتی دہشت گردی‘ ہے‘ جس کا ادراک ہونے کے باوجود بھی عام آدمی (ہم عوام) اُنہی سیاست دانوں کو مرکز نگاہ و یقین بنائے ہوئے ہیں‘ جن کے ’قول و فعل‘ تضادات کا مجموعہ ہیں۔ بھلا ایسے حکمران پاکستان اور پاکستانیوں کے کیا کام آ سکتے ہیں جنہوں نے اپنے اثاثے‘ اہل و عیال اور سرمایہ کاری بیرون ملک محفوظ کر رکھے ہوں!؟ 

معلوم آمدن سے بڑھ کر اثاثہ جات کے علاؤہ مالی بدعنوانی میں ملوث ہمارے حکمرانوں کے کرتوت صرف پانامہ پیپرز ہی کے ذریعے منظرعام پر نہیں آئے بلکہ یورپ‘ اَمریکہ‘ خلیجی ریاستوں بشمول متحدہ عرب اَمارات میں جائیدادوں (ریئل اسٹیٹ) کی خریدوفروخت کرنے والوں میں بھی (الحمدوللہ) سرفہرست پاکستانی ہی ہیں‘ جو یہاں سے کمانے اور ٹیکس چوری کے عادی ہیں لیکن نہ تو پاکستانی قوانین و قواعد کے مطابق (حسب آمدن) ٹیکس اَدا کرتے ہیں اور نہ ہی پاکستانی قوانین کا احترام کرتے ہیں!

انسداد دہشت گردی کے خلاف قومی حکمت عملی وضع کی گئی ہے۔ ہر سطح پر ’’سیاسی و غیرسیاسی‘‘ حکمران‘ تجزیہ کار‘ محقق‘ دانشور اور سرکاری اہلکار عام آدمی (ہم عوام) کو یقین دلاتے ہیں کہ داخلی و خارجی محاذوں پر پاکستان کو درپیش چیلنجز زیادہ گھمبیر ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ معاشی و اِقتصادی دہشت گرد‘ جو پاکستان کے زرعی شعبے کو مسلسل ڈس رہے ہیں‘ اُن کا سر کچلے بغیر کسی بھی محاذ اور مرحلے پر کامیابی حاصل نہیں ہوگی۔ پاکستان کے ’’اَن دیکھے‘‘ دشمنوں کے عزائم تو معلوم ہیں لیکن دوستوں کے بھیس میں دشمنوں (آستین کے سانپوں) سے زیادہ ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے‘ جو مسلسل ڈس بھی رہے ہیں اور احسان بھی کر رہے ہیں۔ ’’عذاب دے گا تو پھر مجھ کو خواب بھی دے گا ۔۔۔ میں مطمئن ہوں‘ میرا دل تیری پناہ میں ہے!‘‘
۔

No comments:

Post a Comment