Saturday, December 9, 2017

Dec 2017: Development vs the Rapid Bus Project & Peshawar!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
فتوحات و کارکردگی کا اِحتساب!
’پاکستان تحریک اِنصاف‘ کی قیادت میں ’خیبرپختونخوا حکومت‘ کو حال ہی میں حاصل ہونے والی ’’آئینی فتح‘‘ کے ساتھ چند اخلاقی ذمہ داریاں بھی جڑی ہیں‘ جن کے بارے میں حساس و دردمند مؤقف سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ 

پشاور ہائی کورٹ نے ’آٹھ دسمبر‘ کے روز ’ریپیڈ بس ٹرانزٹ (آر بی ٹی)‘ منصوبے کو ’’آئینی‘‘ قرار دیا لیکن اِس نتیجے پر پہنچنے میں عدالت عالیہ کو کم و بیش ایک ماہ کا عرصہ لگا۔ عدالت سے رجوع کرنے والے جمعیت علمائے اسلام (فضل الرحمن) کے رہنما ’مولانا امان اللہ حقانی‘ نے ’’خیبرپختونخوا‘ اربن ماس ٹرانزٹ ایکٹ 2016ء‘‘ کو غیرقانونی اُور مذکورہ قانون کے تحت بننے والے ’بس منصوبے‘ کو آئین پاکستان کی ’شق 140-A‘ سے متصادم قرار دینے کی ہر ممکن کوشش میں جو بھی دلائل دیئے اُن سے جہاں قانون ساز رکن اسمبلی کی آئین شناسی عیاں ہوئی ہے وہیں سیاسی تعصب کی وجہ سے ’’ضعفِ فہم‘‘ بھی ڈھکا چھپا نہیں رہا۔ اصولی طور پر خیبرپختونخوا قانون ساز اسمبلی کے اراکین بالخصوص جمعیت علمائے اسلام (فضل الرحمن) سے تعلق رکھنے والوں کو تحریک انصاف کا شکرگزار ہونا چاہئے کہ اُن کے دور حکومت میں جب وزیراعلیٰ اکرم خان درانی پشاور سمیت پورے صوبے کے ترقیاتی فنڈز اپنے آبائی علاقے و انتخابی حلقے بنوں کی طرف بہا لے گئے تو کیا صوابدیدی اختیارات کی نہایت ہی بدترین عملی مثال اخلاقی اور آئینی اقدام تھا؟ کیا یہ المیہ (وحقیقت) نہیں کہ بانوے یونین کونسلوں‘ صوبائی اسمبلی کے گیارہ حلقوں اور قومی اسمبلی کی چار نشستیں رکھنے والے پشاور کے لوگ پینے کے صاف پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں (لیکن ذمہ دار کون ہے)؟ موسم سرما کے آغاز سے شروع ہونے والی گیس کی قلت (پریشر کی کمی) کی وجہ سے اندرون و بیرون پشاور کے رہنے والوں کو جن پریشانیوں کا سامنا ہے‘ اُن کے لئے الگ خیال سے مضمون باندھا جائے گا لیکن برسرزمین حقیقت کی جانب توجہ مبذول کرانا ہے کہ تحریک انصاف کو واضح اکثریت اور گیارہ میں سے دس صوبائی اسمبلی کی نشستیں دینے کے باوجود بھی پشاور کی محرومی اور مسائل میں کمی نہیں آئی۔ ’نمایاں تبدیلی‘ اگر آئی ہے تو تحریک انصاف کے نامزد اُمیدواروں کی زندگیوں اور مالی حیثیت میں آئی ہے جنہیں مئی دوہزار کے عام انتخابات سے قبل بھی کوئی نہیں جانتا تھا اور آج بھی اُن کا نام لینے یا کارکردگی کو سراہنے والوں کی تعداد تحریک انصاف کے داخلی حلقوں تک ہی محدود ہے!

سچ تو یہ ہے کہ مئی دوہزار تیرہ کے عام انتخابات میں پشاور نے تعصب کا مظاہرہ نہیں کیا اُور یہی وجہ تھی کہ تبدیلی کے غیرمقامی اور مقامی گمنام علمبرداروں کو دل کھول کر ووٹ دیئے گئے۔ اندرون پشاور کے حلقہ این اے ون پر تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے ’’نوے ہزار پانچ سو‘‘ ریکارڈ ووٹ حاصل کئے جبکہ اُن کے مدمقابل متواتر کامیاب رہنے والے عوامی نیشنل پارٹی کے نامزد الحاج غلام احمد بلور نے چوبیس ہزار چارسواڑسٹھ ووٹ لئے تھے لیکن عمران خان نے مڑ کر پشاور کی طرف نہیں دیکھا اُور حقوق کی ادائیگی تو دور کی بات پشاور نے اُن سے جس دلی محبت کا اظہار کیا‘ اُس کی قدر کرنے کی انہیں توفیق نصیب نہ ہو سکی!

عدالت عالیہ کے روبرو ’پشاور بس منصوبے‘ پر اعتراضات کا دائرہ صرف آئینی نہیں تھا بلکہ اِس میں تکنیکی اعتبار سے بھی کئی ایسے سوالات اُٹھائے گئے جن کی قریب ایک ماہ تک ذرائع ابلاغ میں رپورٹنگ سے یہ تاثر عام ہوا کہ جیسے یہ منصوبہ (میگا پراجیکٹ) ’تکنیکی اعتبار سے بھی غلط فیصلہ‘ ہے۔ اعتراض کرنے والوں نے اپنے گریبانوں میں جھانکنے کی ضرورت محسوس نہیں کی اور بالخصوص اگر بنوں و مردان میں بیٹھ کر پشاور کی طرف نگاہ کرنے والوں کے ضمیر زندہ ہوتے تو کم سے کم خاموشی ہی اختیار کر لیتے لیکن جمعیت علمائے اسلام (فضل الرحمن) اور عوامی نیشنل پارٹی نے تحریک انصاف کی سیاسی مخالفت میں اُن حدود کو بھی عبور کیا جن سے اُن کی ’پشاور دشمنی‘ عیاں ہو گئی ہے۔ پشاور ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ جس کی سربراہی چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کر رہے تھے اور اُن کے ساتھ جسٹس یونس تھیم نے ’بس منصوبے‘ کے خلاف ’’دلائل‘ اعتراضات اُور تحفظات‘‘ سنے لیکن اَن سنے نہیں کئے بلکہ سماعت (اِس موقع) کو غنیمت جانتے ہوئے بہت سے ضمنی موضوعات کو بھی چھیڑا جیسا کہ پشاور کی ٹریفک کے معاملات‘ جو نہایت ہی پیچیدہ حالت میں بحران کی صورت اختیار کر چکے ہیں۔ 

عدالت عالیہ نے پشاور ٹریفک پولیس کے اعلیٰ اہلکاروں کو طلب کیا جنہوں نے تسلی بخش انداز میں وہ متبادل ٹریفک حکمت عملی بیان کی‘ جو مذکورہ بس منصوبے پر تعمیراتی کام شروع ہونے سے پہلے وضع کر لی گئی تھی لیکن اگر ’مین جی ٹی روڈ‘ کو کھودنے سے قبل ’رنگ روڈ‘ کی تعمیر و توسیع مکمل کر لی جاتی تو ٹریفک کا دباؤ بڑی حد تک کنٹرول کیا جاسکتا تھا۔ علاؤہ ازیں بس منصوبے کے لئے مرکزی شاہراہ کا انتخاب کرنے سے وسائل کا ضیاع ہوا ہے اور پہلے سے موجود ایک انتہائی اچھی حالت میں سڑک کو اکھاڑ دیا گیا ہے۔ نجانے ہمارے فیصلہ سازوں اتنی دانش و بصیرت اچانک کیسے کوٹ کوٹ کر بھر جاتی ہے کہ حکومت میں آنے سے قبل اُنہیں سرکاری وسائل کی لوٹ مار اور اُن کا اسراف دکھائی دیتا ہے لیکن برسراقتدار آنے کے بعد وہ بھی ماضی کے حکمرانوں کی طرح ’افسرشاہی‘ کے ہاتھوں گمراہ ہو جاتے ہیں! چغل پورہ سے حیات آباد تک متبادل راستہ بنانے کی بجائے پہلے سے موجود ایک ہی سڑک کا انتخاب کرنا کہاں کی دانشمندی ہے؟ بس منصوبے کی بجائے میٹرو ٹرین منصوبہ کیوں نہیں جو کہ ماحول دوست‘ برق رفتار‘ موسمی اثرات سے نسبتاً محفوظ اور کم لاگت میں زیادہ مسافروں کو ایک مقام سے زیادہ تک لیجانے کی صلاحیت (گنجائش) کا حامل ہو سکتا ہے؟ 

خطے کے ممالک (بھارت‘ چین اور ایران) کی مثالیں موجود ہیں جبکہ ترقی یافتہ دنیا کے سبھی بڑے شہروں میں میٹرو ٹرین پر انحصار کیا جا رہا ہے۔ خدا جانے جب ہمارے سیاستدان بیرون ملک دوروں پر جاتے ہیں تو اپنی سمجھ بوجھ پاکستان ہی میں کیوں چھوڑ جاتے ہیں کہ انہیں بظاہر ترقی کے درپردہ محرکات اور حکمت عملیاں دکھائی و سجھائی نہیں دیتیں! بات اتنی مشکل نہیں کہ سمجھ میں نہ آئے اور شہری سہولیات میں حسب حال و مستقبل کی ضروریات کے مطابق ترقی سے متعلق علوم بھی اتنے پیچیدہ (راکٹ سائنس) نہیں کہ اِنہیں تجرباتی طور مراحل سے گزارنے پر اربوں روپے خرچ کر دیئے جائیں!

بس منصوبے سے متعلق سماعتوں کے دوران ٹریفک پولیس کی جانب سے یقین دہانی کرائی گئی کہ ’ہیوی ٹریفک‘ کا دباؤ رنگ روڈ پر منتقل کر دیا جائے گا لیکن خود ٹریفک پولیس کی جانب سے اعتراف بھی کیا گیا کہ پشاور میں پچاس فیصد ماحولیاتی آلودگی کا سبب ’ہیوی ٹریفک‘ ہے تو کیا اِس کا مستقل و پائیدار حل نہیں ہونا چاہئے؟ 

پشاور بس منصوبے کے نگران (پراجیکٹ منیجر) امین الدین خان کو قومی احتساب بیورو (نیب) میں بدعنوانی کے مقدمات کا سامنا ہے اور یہ بات پشاور ہائی کورٹ کے لئے بھی تشویش کا باعث تھی جبکہ ایک موقع پر جسٹس یحییٰ آفریدی نے اُن سے پوچھا کہ کیا وہ ’پشاور بس منصوبے‘ سے جڑی اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کے قابل ہوں گے جبکہ اُنہیں ’نیب‘ کا بھی سامنا ہے لیکن جب اُن کی جانب سے تسلی بخش نہ ملا تو عدالت نے حکم دیا کہ اِس میگاپراجیکٹ کے لئے نیا نگران مقرر کیا جائے اور جب تک نیا نگران مقرر نہیں ہوتا‘ اُس وقت تک ’پشاور کا ترقیاتی ادارہ (پی ڈی اے) کا سربراہ (ڈائریکٹر جنرل) اِس منصوبے کی نگرانی کرے گا۔ کسی سیاسی حکومت کے لئے مالی معاملات میں شفافیت نہایت ہی اہم اور کلیدی ضرورت ہوتی ہے‘ اُمید کی جا سکتی ہے کہ نہایت ہی تاخیر سے شروع ہونے والا ’پشاور بس (آر بی ٹی) منصوبہ‘ تحریک اِنصاف کی ساکھ اور پشاور میں مقبولیت کے لئے سہارا ثابت ہوگا۔
۔

No comments:

Post a Comment