ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
۔۔۔ مقصود کیا ہے!؟
چھ دسمبر کی یخ بستہ رات جب ہر طرف ’ہو کا عالم‘ تھا‘ تو پاکستان سمیت دنیا کی نظریں ’وائٹ ہاؤس‘ سے براہ راست نشریات پر ٹکی تھیں۔ قریب گیارہ منٹ جاری رہنے والی یہ نشریات پاکستانی وقت کے مطابق گیارہ بج کر پندرہ منٹ پر اختتام پذیر ہوئیں جس کے بعد عالمی ذرائع ابلاغ پر ہنگامہ برپا ہو گیا کیونکہ ’امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مقبوضہ بیت المقدس (یروشلم) کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کرنے کا حکم جاری کرتے ہوئے اسرائیل کی تعریف میں کہتے اور جذبات کی رو میں بہتے چلے گئے!
ٹرمپ نے کہا کہ ’’ماضی کے امریکی صدور میں ہمت نہیں تھی کہ وہ امریکی سفارت خانہ بیت المقدس منتقل کرتے لیکن بیت المقدس کو دارالحکومت تسلیم کرنے کا وقت آگیا ہے۔‘‘ ٹرمپ جس چیز کو ’’وقت آگیا ہے‘‘ کہہ رہے تھے‘ اُس سے صاف ظاہر تھا کہ اِس اعلان سے قبل انہوں نے مسلمان ممالک کی جانب سے ممکنہ مزاحمت (ردعمل) کا حساب کتاب لگا رکھا تھا اور تعجب خیز نہیں ہوگا اگر بعدازاں ثابت ہوا‘ کہ امریکہ امہ کی قیادت کرنے والے مسلمان حکمرانوں کو اعتماد میں لے چکے تھے کیونکہ بصورت دیگر کسی امریکہ صدر کی بھلا یہ جرأت ہو سکتی تھی کہ اسرائیلی مؤقف کی یوں حمایت کرتے ہوئے حکم صادر فرماتے!
امریکی صدر نے اپنے متنازع فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے مسلمانوں کو تسلی بھی دی اور کہا کہ ’’یقین دلاتا ہوں کہ علاقے میں امن وسلامتی کے لئے کاوشیں جاری رہیں گی۔‘‘ حالانکہ جب تک اسرائیل کا ’’ناجائز وجود‘‘ برقرار ہے‘ اُس وقت عرب خطے میں ’امن و سلامتی‘ کے قیام کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ٹرمپ نے کہا کہ ’’مشرق وسطیٰ کا مستقبل روشن اور شاندار ہے اور امن کے لئے مسلمانوں‘ یہودیوں اور عیسائیوں کو متحد ہونا پڑے گا۔‘‘ امریکہ کو ’مشرق وسطی‘ سے زیادہ اپنے اور اسرائیل کے مستقبل کی فکر کرنی چاہئے کیونکہ قابض اسرائیل کی موجودگی میں سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ ’مڈل ایسٹ‘ کا ’مستقبل‘ روشن ہو‘ یقیناًامریکہ کے صدر نے وہی کچھ کیا جو اُن کے بہترین مفاد میں ہے لیکن کیا یہی بات مسلمان ممالک کے سربراہان کے سامنے بھی زیرغور ہے کہ اُن کا ’بہترین مفاد‘ کس امر میں ہے؟ اِس پورے معاملے پر اسرائیل کے خلاف مسلح جدوجہد کرنے والی تنظیم حماس کا فوری ردعمل لائق توجہ ہے کہ ’’امریکہ کے صدر نے جہنم کے دروازے کھول دیئے ہیں!‘‘
کیا یہ امریکی صدر کا بیان اور حماس کا ردعمل مسلمان ممالک کے حکمرانوں کو خواب غفلت سے بیدار کرے گا؟ ’’ہماری تہذیب کے مظاہر جمیل بھی تھے‘ جلیل بھی تھے: اگر تھے ابربہار اپنے قلم تو تیغ اصیل بھی تھے ۔۔۔ مگر بتدریج اپنی عظمت کے ان منازل سے ہٹ گئے ہم: بہت سے اوہام اور اباطیل کے گروہوں میں بٹ گئے ہم!‘‘
محاورہ ہے کہ ’وہ مکا جو لڑائی کے بعد یاد آئے تو اُسے اپنے منہ پر مارنا چاہئے۔‘ مسلمان ممالک کو پوری قوت کے ساتھ ردعمل کا مظاہرہ اُس وقت کرنا چاہئے تھا جب ’’8نومبر 1995ء‘‘ کو امریکہ کے قانون سازوں نے ’’یروشلیم ایمبیسی ایکٹ‘‘ نامی قانون منظور کیا تاہم اِس پر عمل درآمد کرنے کی کسی بھی امریکی صدر کو جرأت نہ ہوسکی اُور وہ اِسے ٹالتے رہے۔ ٹرمپ کے اعلان کے خلاف مسلم دنیا کا ردعمل ’’قابل دید‘‘ اُور ’’حاصل دید‘‘ ہے!
پاکستان کی جانب سے امریکی صدر کے اعلان کے فوراً بعد فلسطین سے ’’اظہار یک جہتی‘‘کا بیان جاری کرنے پر اکتفا کافی نہیں۔ فلسطینی جماعت حماس نے ٹرمپ کے فیصلے کے خلاف تین روزہ احتجاجی مہم کا اعلان کیا ہے جبکہ غزہ سمیت کئی شہروں میں مظاہروں کا سلسلہ رات ہی سے شروع ہو چکا تھا۔ فلسطینی صدر محمود عباس نے بھی ٹرمپ کے اعلان کو مسترد کیا۔ فرانس کے صدر ایمانوئیل میکرن امریکی فیصلے کو ’’افسوس ناک‘‘ کہا اور اعلان کیا کہ فرانس اس کی توثیق نہیں کرے گا۔‘‘ فلسطینی حکام کے علاؤہ ترکی‘ پاکستان‘ ایران سمیت مسلم دنیا کی جانب سے امریکہ کے ممکنہ متنازع فیصلے کا اعلان سامنے آنے سے قبل بھی اِس کی مخالفت میں بیانات جاری کر چکے ہیں۔
اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کی جانب سے جاری ہونے والے بیان کی حمایت کرتے ہوئے وزیراعظم پاکستان نے اس معاملے پر ’او آئی سی‘ فیصلے کی توثیق کی جبکہ ترک صدر رجب طیب اژدگان نے ’او آئی سی‘ کا ہنگامی اجلاس طلب کرتے ہوئے معاملے پر سنجیدگی سے گفت وشنید کا مطالبہ کیا اور امریکی فیصلے کو یکسر مسترد کر دیا ہے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ’یروشلم‘ یا بیت المقدس میں اسرائیل کی جانب سے کسی بھی قسم کی کاروائی یا دباؤ اور طاقت کے استعمال کو غیر قانونی قرار دینے اور اس سے گریز کرنے کے حوالے سے اسرائیل مخالف قرارداد منظور ہو چکی ہے‘ جو اُن میڈیا رپورٹس کے بعد پیش کی گئی تھی کہ ٹرمپ انتظامیہ امریکی سفارت خانہ بیت المقدس منتقل کرنے پر غور کر رہی ہے۔ اس قرار داد کے حق میں سب سے زیادہ 151ممالک نے ووٹ دیا جبکہ چھ ممالک امریکہ‘ کینیڈا‘ مائیکرونیزیا کی وفاقی ریاستوں‘ اسرائیل‘ جزائر مارشل اور ناورو نے قرارداد کی مخالفت میں ووٹ دیا تھا۔ اس کے علاوہ نو ممالک آسٹریلیا‘ کیمرون‘ وسطی جمہوری افریقہ‘ ہونڈراس‘ پاناما‘ پاپوا نیو گنی‘ پیراگوائے‘ جنوبی سوڈان اور ٹوگو نے قرارداد پر رائے شماری میں حصہ نہیں لیا تھا۔ صورتحال واضح ہے لیکن امریکہ ایک بڑا انتشار چاہتا ہے۔
مسلم و غیرمسلم ممالک کی اکثریت یروشلیم سے متعلق امریکی فیصلے کے خلاف ہے لیکن طاقت کے نشے میں امریکہ کی سیاسی قیادت پر ’’کلام نرم و نازک‘‘ کا اثر نہیں ہو رہا تو ایسی صورتحال میں مسلم دنیا کو ’اقوام متحدہ‘ کے غیرمؤثر ’پلیٹ فارم‘ سے علیحدہ ہو کر فلسطینی مسئلے کے بارے میں ایک ایسی متفقہ حکمت عملی وضع کرنا ہوگی‘ جس سے نہ صرف مسلم ممالک کی بلکہ ’دنیا کی تقدیر بدل جائے۔‘ یہ امر بھی زیرغور لانا ضروری ہے کہ ’’انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج و زوال کے اسباب و اثرات‘‘ کیا ہیں اور نیند سے بیداری (لاشرقیہ لاغربیہ‘ اسلامیہ اسلامیہ) ضروری ہے کیونکہ مزید غفلت کی گنجائش باقی نہیں رہی!
مسلمانوں کو اپنی تقدیر اپنے ہاتھ میں لینی ہوگی کیونکہ اُمہ کی زندگی کسی معجزے سے نہیں بلکہ صرف اُور صرف ’عمل‘ سے تبدیل ہوگی۔
تفریق ملل حکمت افرنگ کا مقصود
اسلام کا مقصود فقط ملت آدم
مکے نے دیا خاک جنیوا کو یہ پیغام
جمعیت اقوام کہ جمعیت آدم؟ (علامہ اِقبالؒ )
۔
No comments:
Post a Comment