ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
گداگری: بہ اَمر مجبوری!
ہم بے حس ہے۔ معاشرہ اجتماعی طور پر بے حس ہے اور یہی نتیجہ ہے کہ ہم پر مسلط ہونے والے حکمرانوں کو بھی برسرزمین حقیقت کا احساس نہیں کہ ہر دن غربت بڑھ رہی ہے۔
گداگری بہ امر مجبوری بھی تو ہو سکتی ہے۔ ’پیشہ ور گداگری‘ ایک الگ اور وسیع موضوع ہے جس کا تعلق کسی بھی طرح مہنگائی کی بڑھتی شرح (معاشی مسائل ومشکلات) اور غیرمستحکم و ناپائیدار آمدنی کے ذرائع (روزگار کی کمی) سے نہیں بلکہ یہ ایک ایسا ’مستقل کاروبار‘ بن چکا ہے جو کئی صورتوں میں رائج اور اپنی ذات میں پیچیدہ پہلو رکھتا ہے۔ گداگری کے ناسور اُور سماجی بُرائی کی حوصلہ شکنی کرنے کے لئے پشاور کی ضلعی انتظامیہ نے ’گداگری پر پابندی عائد کر دی ہے‘ لیکن کیا اِس سے خاطرخواہ مطلوبہ نتائج حاصل ہوں گے؟
ماضی میں (متحدہ مجلس عمل کی حکومت کے دوران) بھی اِسی قسم کی پابندی کا انجام فائلوں میں دبا پڑا ہے۔ پشاور میں مقامی اُور غیرمقامی گداگروں کی درست تعداد اگرچہ معلوم نہیں لیکن طریقۂ واردات سب کے سامنے ہے جس میں جسمانی و ذہنی معذوروں سے لے کر حاملہ خواتین اور بچوں کو گود میں اٹھائے جوانسال خواتین ہر جگہ ڈیرے ڈالے دکھائی دیتی ہیں۔ شہر اور مضافات کا کوئی ایک بھی ایسا علاقہ ایسا نہیں جہاں کے ٹریفک سگنلز اور مصروف تجارتی مراکز اجارے پر نہ دیئے گئے ہوں۔ گداگری کی سرپرستی اگر مقامی پولیس تھانے نہیں کرتے تو اُنہیں گداگروں سے کچھ نہ کچھ ملتا ضرور ہے وگرنہ کوئی آنکھیں یوں نہیں موندھ لیتا۔ گداگری کا ایک طریقہ اسلامی کتب اور مقدسات کی نقول فروخت کرنے والے بھی ہیں جو عموماً مساجد‘ درسگاہوں اور پارکنگ ایریاز کا احاطہ کرتا ہے‘ جہاں کم قیمت اشیاء کی فروخت کے بہانے دست سوال دراز کیا جاتا ہے۔ علاؤہ ازیں گداگری کے لئے ایام بھی مخصوص ہیں جیسا کہ جمعرات کے روز خواجہ سراؤں کی ایک بڑی تعداد مختلف بازاروں کے چکر لگاتی دکھائی دیتی ہے اور دکاندار گاہگوں کی طرح ایسے مستقل کرداروں کا گویا انتظار کرتے ہیں جن سے معمولی چھیڑچھاڑ ہنسی مذاق کا ذریعہ بھی ہوتا ہے۔ گداگر معاشرے کی بدصورتی تو ہیں لیکن اِس سے معاشرے کی اجتماعی و انفرادی سطح پر جان و مال کا خطرہ نہیں۔ تو کیا صرف گداگر ہی سماجی بدصورتی کا سبب ہیں یا ایسے دیگر کردار و محرکات بھی ہیں‘ جن کا ازالہ ہونا چاہئے؟ سترہ ربیع الاوّل کی مبارک ساعتوں میں اِمام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کا قول یاد آ رہا ہے جنہوں نے گداگروں کی تعظیم اور اُنہیں سمجھنے کی تلقین اِن الفاظ میں کی کہ ’’کسی سوال کرنے والے کو خیرات درحقیقت اللہ کے ہاتھ میں دی جا رہی ہوتی ہے!‘‘ اور گداگروں کی عزت نفس کے بارے میں اِس سے جامع بات اُور کیا ہو سکتی ہے کہ ’’صدقہ و خیرات یوں دی جائے کہ ایک ہاتھ سے دوسرے کو علم نہ ہو پائے!‘‘
پشاور کے ضلعی حکمران (ڈپٹی کمشنر دفتر) سے رواں ہفتے جاری ہونے والی ’پریس ریلیز‘ مختلف اخبارات میں شائع بھی ہوئی اور ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو ’واٹس ایپ‘ کے ذریعے بھی ارسال کی گئی‘ کہ ’’پشاور میں ’کریمینل پروسیجر کوڈ (پی پی سی کی) دفعہ 144‘ کا نفاذ کرتے ہوئے گداگری پر پابندی عائد کر دی گئی ہے کیونکہ اِس سے پشاور کے امن کو خطرات لاحق ہیں!‘‘
ماضی کی طرح آج بھی مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے طبقات کی جانب سے گداگری پر پابندی کا عائد کرنے کا مطالبہ کیا جاتا رہا ہے لیکن اِس مطالبے کا قطعی مطلب ’اِس قسم کی پابندی‘ نہیں تھا بلکہ حکومت سے ایسی اصلاحات متعارف کرانے کی توقع کی جا رہی تھی کہ جس سے ایسے حالات پیدا ہوں کہ معاشرے کے مجبور و لاچار طبقات اپنی روزمرہ ضروریات کے لئے کسی کے بھی آگے ہاتھ نہ پھیلائیں! کیا ڈپٹی کمشنر پشاور اسلام زیب سے یہ بات پوچھنے کی جسارت کی جاسکتی ہے کہ ’’شوقیہ طور پر بھی گداگری کے ثبوت ملے ہیں؟‘‘ فیصلہ سازوں کے سامنے سال 2011ء میں ہوئے ایک جائزہ رپورٹ پڑی ہے جس میں کہا گیا تھا کہ جرائم میں گداگر گروہ ملوث پائے گئے ہیں یعنی کہا یہ گیا کہ گداگری کے روپ میں جرائم پیشہ عناصر وارداتیں کر رہے ہیں اور بجائے ایسے گروہوں کی خفیہ اداروں سے کھوج کرنے فیصلہ سازوں نے اِس بات کو زیادہ آسان (قابل عمل) سمجھا ہے کہ گداگری (کے فعل) پر ہی پابندی عائد کر دی جائے۔‘‘ ظاہر سی بات ہے کہ جرائم پیشہ عناصر اپنا روپ (طریقۂ واردات) بدل لیں گے لیکن وہ محض اِس لئے جرائم ترک نہیں کریں گے کیونکہ گداگری پر پابندی عائد کر دی گئی ہے اور یوں جن مجبور و لاچار افراد کی کل دو وقت کی روزی روٹی (آمدن) کا ذریعہ ہی گداگری ہے وہ مزید متاثر ہوں گے۔ کیا ریاست ایسے تمام افراد کے حقوق کی ادائیگی کر رہی ہے‘ جن کا کوئی سرپرست نہیں رہا؟
ہر عمل کا ردعمل اور ہر ردعمل کے جواب میں ہونے والا عمل زیادہ شدید (نقصان کا باعث) ہوسکتا ہے۔ جیسا کہ اگر گداگری پر پابندی عائد کی گئی تو عین ممکن ہے کہ مجبور افراد منشیات کی اسمگلنگ یا استعمال یا جنسی تعلقات کے ذریعے آمدنی حاصل کرنے کی طرف مائل ہو جائیں یا وہ چھوٹی موٹی چوریاں کرنے لگیں اور ناتجربہ کاری کی وجہ دھر لئے جائیں جن کا بوجھ جیل خانوں کو منتقل ہو جائے!
پابندی کوئی حل (علاج) نہیں بلکہ فیصلہ سازوں کو روزگار اور آمدن کے متبادل ذرائع کا بندوبست کرنا چاہئے۔ گداگر صرف حکومت ہی کے لئے (چیلنج) نہیں بلکہ معاشرے کے ہر کردار بالخصوص صاحبان ثروت کی توجہات کے بھی مستحق ہیں۔
معاشرے کے ہر ایک کردار کو (مجھے اُور آپ کو بھی) اِس سماجی مسئلے یا بُرائی کے بارے میں سوچنا‘ گداگری سے نجات و پائیدار و باعزت حل کے لئے اپنے اپنے کردار کا تعین اور ہم زمینوں پر ہمدردی سے نگاہ کرنی ہوگی جو ایک مذہبی ذمہ داری بھی ہے تاکہ ہم پر بھی خالق کائنات کے رحم و کرم کی اُس وقت ’’موسلادھار بارش‘‘ ہو جبکہ اِس کی ’عاصی ذات‘ کو شدت سے ضرورت محسوس ہو رہی ہو۔ سوچئے اُور صاحب ضمیر اور عملاً حب الوطن ہونے اِس گھڑی میں ’’مسدس حالی‘‘ کو ’’مسدس حال‘‘ سمجھتے ہوئے اِن اشعار سے رہنمائی تلاش کیجئے کہ
خدا رحم کرتا نہیں اُس بشر پر
نہ ہو درد کی چوٹ جس کے جگر پر
کسی کے گر آفت گزر جائے سر پر
پڑے غم کا سایہ نہ اُس بے اثر پر
کرو مہربانی تم اہل زمیں پر
خدا مہرباں ہوگا عرش بریں پر۔
۔
No comments:
Post a Comment