Wednesday, December 6, 2017

Dec 2017: Terrorism - a question mark!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
سوالیہ نشان!
خیبرپختونخوا پولیس کا ’’شعبۂ تفتیش‘‘ اور جملہ خفیہ اداروں کے اہلکار مربوط کوشش کر رہے ہیں کہ بارہ ربیع الاوّل عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (یکم دسمبر) کا اِنتخاب کرتے ہوئے ’زرعی تربیتی مرکز پشاور‘ پر حملے اُور اِس سے حاصل ہونے والے شواہد و ثبوتوں کی بنیاد پر سہولت کاروں تک رسائی حاصل کی جا سکے‘ جنہوں نے دہشت گردی کی اِس واردات کو ممکن بنانے میں (درپردہ رہتے ہوئے) اہم کردار اَدا کیا ہے اُور اتفاق اِس بات پر ہے کہ جب تک دہشت گردوں کے لئے سہولت کاری کرنے والوں کو گرفتار (بے نقاب) نہیں کیا جاتا‘ اُس وقت تک بالخصوص تعلیمی اِداروں پر مزید ایسے حملوں کے اِمکانات (خطرات) کو ختم نہیں کیا جا سکے گا۔ 

تفتیش کا دائرہ یقیناًوسیع تو ہے لیکن اِس میں جس قدر زور (focus) مالی و افرادی وسائل کی دستیابی اور پشاور کے تین اطراف قبائلی علاقوں کی امتیازی حیثیت پر ہونا چاہئے‘ وہ دکھائی نہیں دے رہا۔ یوں لگتا ہے کہ پشاور پولیس سمیت خفیہ اِداروں کے ’پر جل جاتے ہیں‘ جونہی اُن کے سامنے قبائلی علاقوں کی انتظامی سرحد آتی ہے اور اگرچہ پشاور پولیس نے بہادری کی مثال قائم کرتے ہوئے قبائلی علاقوں میں گھس کر جرائم پیشہ عناصر کے خلاف چند ایک کاروائیاں کی ہیں لیکن یہ سلسلہ جاری نہ رہ سکا۔ قبائلی علاقوں کی امتیازی حیثیت برقرار رکھنا صرف اور صرف ’افسرشاہی‘ اور ’سیاسی فیصلہ سازوں‘ کے مفاد میں ہے‘ جو افغانستان سے متصل ’27 ہزار 220 مربع کلومیٹر‘ پر پھیلی ایک پٹی پر حکمرانی برقرار رکھنا چاہتے ہیں جو آمدن کا پائیدار ذریعہ ہے اور 24 دسمبر 2014ء کے روز دہشت گردی کے خلاف ’قومی حکمت عملی (نیشنل ایکشن پلان)‘ میں قبائلی علاقوں کی امتیازی حیثیت تبدیل کرنے پر پاکستان کی سبھی سیاسی جماعتیں اگرچہ اتفاق کر بھی چکی ہیں لیکن یہ ’ضروری کام (ہوم ورک)‘ نہیں کیا گیا اور پشاور سمیت پورے ملک کی سیکورٹی داؤ پر لگا دی گئی ہے؟

حالیہ دہشت گرد حملے پر ’خیبرپختونخوا اسمبلی‘ نے بھی تشویش کا اظہار کیا ہے اور اِس سلسلے میں پولیس سربراہ سے ’بند کمرے اجلاس‘ میں رپورٹ طلب کی ہے‘ جس سے قانون سازوں کے خدشات دور ہوں گے یا نہیں لیکن پہلے سے دباؤ میں محکمۂ پولیس کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ضرور لگ گیا ہے جو قطعی منطقی نہیں۔ ایک ہی سانس میں پولیس کی تعریف اور اُس پر تنقید کرنے والے اراکین صوبائی اسمبلی کی جانب سے ایک جائز مطالبہ بھی سامنے آیا ہے کہ ’’نیشنل ایکشن پلان‘‘ پر اُس کی روح کے مطابق عمل درآمد یقینی بنایا جائے لیکن اِسی ضرورت کو تو خود پولیس کے ذمہ دار بھی محسوس کر رہے ہیں۔ کیا منتخب نمائندے اپنی آمدنی کے مطابق مالی حیثیت اور اثاثہ جات کی تفصیلات سے الیکشن کمیشن کو آگاہ کرنے میں سوفیصد صداقت سے کام لیتے ہیں؟ کیا اراکین اسمبلی سرمائے کی غیرقانونی بیرون ملک منتقلی (ہنڈی کے کاروبار) کا خاتمہ چاہیں گے؟ خواہشات عمل سے مطابق ہونا چاہئے۔ بیانات اور تقاریر سے معاملات کو مزید الجھانے کے ماہرین اگر اپنی خداداد صلاحیتوں کا استعمال کسی دوسرے مقصد کے لئے کریں تو نہ صرف اُن کے حق میں بلکہ ملک کو قوم کے حق میں بھی زیادہ مفید ہوگا۔ 

اراکین صوبائی اسمبلی کی جانب سے وفاقی حکومت کی توجہ اِس جانب مبذول کی گئی ہے کہ خیبرپختونخوا پولیس کی افرادی قوت اور تکنیکی استعداد میں اضافہ کیا جائے لیکن کیا یہی کام صوبائی وسائل سے ممکن نہیں۔ اے کاش کہ نیت (ارادہ) اور کوشش بھی ہمراہ ہوتی!

’زرعی تربیتی مرکز‘ پر حملے سے متعلق پشاور پولیس کی مرتب کردہ عبوری رپورٹ میں اِس بات کا بالخصوص ذکر ملتا ہے کہ منصوبہ سازوں اور سہولت کار خفیہ ادارے کے دفتر کو نشانہ بنانا چاہتے تھے جنہیں غلط فہمی ہوئی۔ اس سلسلے میں اُن کی طلباء سے بات چیت کا حوالہ بھی دیا گیا ہے کہ ایک موقع پر حملہ آور نے طلباء سے پوچھا کہ کیا یہ انٹلی جنس ایجنسی کا دفتر ہے؟ کیا یہ بات خیبرپختونخوا اسمبلی اراکین کے لئے تعجب خیز ہوگی اگر اُنہیں یہ بتایا جائے کہ ’چار دسمبر‘ کے روز طے شدہ اور اعلان کردہ امریکی سیکرٹری دفاع جیمس میتھیس (James Mattis) کے دورے سے قبل ہوئے دہشت گرد حملے کا زاویہ یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ پاکستان کا مقدمہ عالمی عدالت میں پیش کیا جائے لیکن یہ ایک منفی تاثر ہے‘ جس میں حقیقت تلاش کرنے والوں کے ہاتھ شواہد کبھی نہیں آ سکیں گے۔ 

کیا ’آرمی پبلک سکول‘ پر ہوئے تاریخ کے بدترین دہشت گرد حملے کی تمام تفصیلات قانون ساز ایوان کے سامنے پیش کی گئیں اور اس معزز ایوان کو اطمینان ہے کہ جو کچھ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے کیا گیا وہ کافی تھا؟ کیا آرمی پبلک سکول حملے کے تمام ذمہ داروں کو کیفرکردار تک پہنچایا جا چکا ہے؟

’زرعی تربیتی مرکز‘ پر حملے کی پولیس کے ’انسداد دہشت گردی (کاؤنٹر ٹیرراِزم ڈیپارٹمنٹ) نے پاکستان پینل کوڈ اور انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997ء کے سیکشن سات اور اسلحہ ایکٹ کے سیکشن پندرہ کے تحت ’ایف آئی آر‘ درج کی ہے‘ جس میں تین سو دو‘ تین سو چوبیس‘ تین سو تریپن اور چارسوستائیس دفعات شامل کی گئی ہیں۔ ’ایف آئی آر‘ کے مطابق حملہ صبح آٹھ بج کر پینتیس منٹ پر ہوا‘ جب رکشے میں سوار تین برقع پوش حملہ آوروں نے ’زرعی تربیتی مرکز‘ کے دروازے پر تعینات چوکیدار (عبدالحمید) کو نشانہ بنایا اُور عمارت میں داخل ہوئے۔ جس ایک نکتے پر خیبرپختونخوا اسمبلی کے متعدد اَراکین (محترمہ نکہت اُورکزئی‘ اُورنگزیب نلوٹھا‘ سکندرشیرپاؤ‘ سیّد جنان‘ جعفر شاہ‘ فخر اعظم اور سردار بابک) نے بطور خاص زور دیا ہے وہ طلباء کی جانب سے ایک حملہ آور کو زندہ قابو کرنے اور اُس سے اسلحہ چھین کر واش روم میں بند کرنے سے متعلق ہے۔ طلباء کا یہ دعویٰ ذرائع ابلاغ میں بھی رپورٹ ہوا‘ اُور خود وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے دن ڈھلے اِس بات کی تصدیق کی تھی لیکن بعدازاں پولیس کی جانب سے بتایا گیا کہ اُس حملہ آور کو بھی مار دیا گیا ہے۔ تفتیشی عمل میں حصہ لینے والے ایک اعلیٰ اہلکار کے بقول ’’اس وقت تمام تر توجہ تفتیش پر مرکوز ہے اور ہمیں اِس دعوے کی تصدیق کی (کوئی خاص) ضرورت (بھی) نہیں۔‘‘
۔

No comments:

Post a Comment