Tuesday, December 5, 2017

Dec 2017: Terrorism - ignored facts

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
دہشت گردی: متضاد پہلو!
یکم دسمبر کے روز ’زرعی تربیتی مرکز‘ پشاور میں ہوئے دہشت گرد حملے سے متعلق تفتیشی عمل کی جزوی (عبوری) رپورٹ میں تفصیلاتی (پہلوؤں کا احاطہ) ذکر بین السطور اور ظاہراً کیا گیا ہے‘ وہ بڑی حد تک چونکا دینے والے ہیں‘ جیسا کہ حملہ آور موبائل فون کے ذریعے ’براہ راست‘ ویڈیو نشر کر رہے تھے اور انہوں نے حملے سے قبل ہی ’آڈیو ویڈیو رابطے (لنک)‘ افغانستان میں موجود منصوبہ سازوں سے جوڑ لئے تھے‘ جن سے ملنے والی ہدایات پر وہ ’کٹھ پتلی‘ کی طرح عمل کرتے رہے! 

واردات میں استعمال ہونے والا ’آٹو رکشہ‘ پر جعلی نمبر لگا ہوا تھا اُور یہ ’آٹو رکشہ‘ مقامی ساختہ اُن ذرائع کا حصہ ہے‘ جنہیں بنانے کے کارخانے لب سڑک پشاور کے فٹ پاتھوں پر قائم ہیں اور بالخصوص ’سٹی سرکلر روڈ‘ پر ایسے آٹو رکشاؤں کی ’صنعتیں‘ قائم ہیں‘ جہاں بناء کسی ضابطے ایسے آٹورکشا بڑی تعداد میں بن رہے ہیں‘ جن کی خریداری کے لئے قانونی و کاغذی ضوابط پورا کرنا ضروری نہیں ہوتے۔ اگر کسی کے پاس تین سے پانچ لاکھ روپے نقد موجود ہیں تو وہ پشاور میں کھڑے کھڑے آٹو رکشا کا مالک بن سکتا ہے‘ جس کے لئے اُس کے پاس قومی شناختی کارڈ یا ڈرائیونگ لائسینس ہونا بھی ضروری نہیں۔ ابتدائی تفتیش سے معلوم ہونے والی تیسری چشم کشا حقیقت یہ ہے کہ ’زرعی تربیتی مرکز‘ میں لگائے گئے ’سی سی ٹی وی‘ کیمرے نمائشی تھے اور اِن کمروں سے ملنے والی نشریات (فیڈ) کی ریکارڈنگ کا خاطرخواہ بندوبست نہیں تھا۔ چند برس قبل نصب کئے گئے اِن کیمروں کی ظاہری حالت بالکل ٹھیک لیکن ان کی کارکردگی ’بالکل صفر‘ تھی۔ جس کمپیوٹر سے اِن کیمروں کو منسلک کیا گیا تھا اُس میں ریکارڈنگ کے آلات تو نصب تھے لیکن کمپیوٹر کی ’ہارڈ ڈسک (Hard Disk)‘ نہ ہونے کی وجہ سے کیمروں سے آنے والے آڈیو ویڈیو سگنلز (ریکارڈنگ) محفوظ نہیں ہو سکے۔ کمپیوٹرہارڈ ڈسک کیوں غائب تھی‘ چوری ہو چکی تھی یا اِسے دانستہ طور پر ہٹایا گیا؟ 

موبائل فون سے براہ راست ویڈیو اسٹریمنگ‘ جعلی نمبر پلیٹ والا مقامی ساختہ آٹو رکشا کے استعمال اور درست حالت میں ’کلوز سرکٹ‘ کیمرے نصب نہ ہونے کے سبب حملہ آوروں کی حرکات و سکنات کا جائزہ نہیں لیا جاسکتا کہ وہ اُس عمارت کے مختلف حصوں کے بارے میں کس قدر واقفیت (معلومات) رکھتے تھے اور اُنہیں ایک جیسی راہداریوں میں اپنے اہداف کی تلاش میں کتنی دقت یا سہولت کا سامنا کرنا پڑا۔ ’سی سی ٹی وی‘ کیمروں کے فعال نہ ہونے کی وجہ سے اِس بات کا اندازہ لگانا بھی ممکن نہیں رہا کہ ’زرعی تربیتی مرکز‘ کا کوئی اہلکار کیا اِس حملے کی منصوبہ بندی یا سہولت کاری کا حصہ تھا یا نہیں۔ بہرحال ابتدائی تفتیش سے جن (اوّل الذکر) چار باتوں کے بارے میں تفتیش مکمل کر لی گئی ہے‘ اُس سے پولیس حکام نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ حملہ آور ’زرعی تربیتی مرکز‘ کے داخلی راستوں اور عمارت سے آشنا نہیں تھے اور انہیں فراہم کردہ معلومات کم یا غلط تھیں۔ کسی تفتیش کے اِس قدر نتیجہ خیز مرحلے تک پہنچنا بھی پشاور پولیس ہی کا کمال ہے وگرنہ اِس قسم کا نتیجہ اخذ کرنے میں شاید ترقی یافتہ ممالک کے تفتیش کاروں کو مہینے درکار ہوں! پولیس کے ایک انتظامی اہلکار سے ہوئی بات چیت میں یہ تاثر لگانا قطعی مشکل نہیں تھا کہ تفتیشی عمل سمیت پولیس ہر کام فوری طور پر اِس لئے بھی نمٹاتی ہے کیونکہ (خدانخواستہ) کسی دوسری دہشت گرد واردات کی صورت افرادی قوت دستیاب ہو۔ پشاور پولیس کے پاس تفتیش کے لئے دستیاب افرادی و تکنیکی وسائل کی کمی ہے اور یہ راز کی بات بھی نہیں لیکن فیصلہ ساز پولیس کی پیشہ ورانہ تربیت ومہارت‘ استعداد اور تکنیکی و افرادی قوت میں خاطرخواہ اضافہ کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ پشاور پولیس اہلکار کے اِس سوال کا جواب شاید ہی ’بنی گالہ‘ دے سکے‘ کہ پولیس میں سیاسی مداخلت نہ کرنے کا جو دعویٰ کیا جاتا ہے وہ کافی (درست حکمت عملی) نہیں بلکہ عوام تو ووٹ (اختیار) ہی اِس لئے دیتی ہے کہ اُن کے منتخب نمائندے سرکاری محکموں کا قبلہ درست کریں۔ اگر سیاست دان یہ کہتے پھریں کہ اُنہوں نے اداروں میں مداخلت ختم کر دی ہے اور آج کے بعد ہر ادارہ اپنے طور اپنے معاملات چلائے گا تو اِس بات کا تعین (فیصلہ) کون کرے گا کہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ واقعی قواعد و ضوابط کے مطابق ہے؟ 

اگر صرف قانون نافذ کرنے والے ایک ادارہ یعنی ’پولیس‘ کا قبلہ درست ہوجائے تو نہ صرف معاشرے سے عمومی و خصوصی (منظم) جرائم بلکہ دہشت گردوں کی سہولت کاری بھی انجام کو پہنچ سکتی ہے۔ تجویز من و عن نقل ہے کہ ’’خیبرپختونخوا پولیس سے متعلق اگر بنی گالہ یا پشاور میں کسی غیرسرکاری ’ہیلپ لائن‘ کا اجرأ کیا جائے تو تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان سمیت صوبائی قیادت کو بھی رہنمائی ملے گی کہ کس طرح ’’تھانہ و کچہری کلچر‘‘ تبدیل نہیں ہوا۔‘‘ کس طرح پولیس مجموعی طورپر اختیارات کے استعمال میں مادرپدر آزاد ہے اور صوبائی دارالحکومت پشاور سے دور دراز اضلاع میں محکمۂ پولیس میں آج بھی وہ سیاسی مداخلت جاری ہے‘ جس کے باعث خواص کے مفادات (انتخابی حلقہ بندیوں) کا تحفظ کیا جاتا ہے۔
خیبرپختونخوا کے محکمۂ ’انسداد دہشت گردی‘ کے سینیئر اہلکار ’ایس ایس پی‘ فرقان بلال کے بقول ۔۔۔ ’’جس موبائل فون کے ذریعے براہ راست ویڈیو اسٹریمنگ کی گئی اُسے قبضے میں لے لیا گیا تاہم یہ بات ابھی تک معلوم نہیں ہو سکی ہے کہ دہشت گرد فیس بک لائیو (Facebook Live)‘ واٹس ایپ (What's App) یا ایمو (Imo) میں سے کون سا سافٹ وئر استعمال کر رہے تھے یا اِن کے علاؤہ کوئی دوسرا ایسا سافٹ وئر استعمال کیا جارہا تھا جس سے شناخت کو پوشیدہ رکھا جا سکے۔‘‘ 

حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے ’تحریک طالبان پاکستان‘ کی جانب سے جو چند منٹ (مختصر) دورانیئے ویڈیو جاری (ریلیز) کی گئی اُسے یقیناًحملہ آور کے بازو پر نصب موبائل فون ہی کے ذریعے بنایا گیا ہوگا۔ مارکیٹ اور آن لائن ایسے موبائل فون کور (cover) باآسانی دستیاب ہیں‘ جن کے ذریعے موبائل فون کو کسی بھی بازو پر نصب کیا جاسکتا ہے اور اِس قسم کے کور عموماً کھلاڑی یا جاگنگ (صحت مند رہنے کے لئے بھاگ دوڑ) کرنے والے کرتے ہیں۔ تفتیشی اہلکار موبائل فون اور دیگر آلات کے ذریعے اُس پیچیدہ معاملے کی گھتیاں سلجھانے کی کوشش کر رہے ہیں‘ جو اپنی نوعیت کا پہلا تو نہیں البتہ انوکھا واقعہ ضرور ہے۔ کیا مستقبل قریب میں یہ ممکن ہوگا کہ کسی علاقے میں دہشت گرد حملے کی اطلاع ملتے ہی‘ فوری طور پر وہاں سے ملحقہ تمام موبائل فون ٹاورز کی نشریات (رابطے) بند (ختم) کر دیئے جائیں؟ 

دہشت گرد جدید کیمونیکشن آلات کا استعمال جن مقاصد کے لئے کر رہے ہیں اُس میں اُن کا پراپگنڈہ اُور تربیتی حکمت عملی بھی شامل ہے کیا ہمارے اِدارے کم سے کم اتنے ہوشیار (چالاک) ہو سکتے ہیں کہ وہ اپنی سوچ اُور عمل کو دہشت گردوں سے ایک درجہ بلند رکھیں؟
۔

No comments:

Post a Comment