ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
تہذیب ’زبان‘ کی!
آٹھ دسمبر قریب ہے‘ جب ایک اُور سنگ میل عبور ہو جائے گا۔ پشاور میں ’عالمی ہندکو کانفرنس‘ کے مندوبین (خیر نال آئیو) کی آمد کا سلسلہ جاری ہے جو ایک دوسرے سے مبارکبادوں کا تبادلہ اُور اپنے مقالات بعنوان ’’ہندآریائی تے پاکستانی زباناں دی ترقی دے ذریعے قومی یک جہتی دا حصول‘‘ کے ذریعے اِس عزم کے اظہار کی تیاریاں کئے بیٹھے ہیں کہ ’چھٹی مرتبہ‘ منعقد ہونے والا ’عالمی اِجتماع‘ تو اِک نکتۂ آغاز‘ اک جذبہ اور جذبے کا اظہار ہے کہ ۔۔۔ ’’بات چل نکلی ہے اب دیکھیں کہاں تک پہنچے۔‘‘
خوش آمدید‘ اے عاشقان ہندکو‘ جنوب مشرق ایشیاء کا زندہ تاریخی شہر ’پشاور‘ آپ کی تشریف آوری سے مسرور اُور دعاگو ہے کہ ہندکو زبان کی طرح پشاور سے بھی آپ کا ’دلی تعلق‘ ہر گزرتے دن کے ساتھ مضبوط ہوتا چلا جائے گا یقیناً(ایک تیر دو شکار) ’چھٹی عالمی ہندکو کانفرنس‘ کے ذریعے ’پشاور شناسی‘ کا ہدف بھی حاصل ہو جائے گا کہ ’اہل محبت پشاور سے اپنے عہد کی تجدید کر لیں۔‘
تین روزہ کانفرنس کا باقاعدہ آغاز (آٹھ دسمبر‘ پہلے روز کی پہلی نشست) کے لئے ’گورنر خیبرپختونخوا اِقبال ظفر جھگڑا‘ مدعو ہیں‘ جو ’گندھارا ہندکو بورڈ و اکیڈمی‘ کے صدر دفتر‘ یونیورسٹی ٹاؤن میں منعقد ہوگی اُور اِس کے لئے ’اَحمد علی سائیں ہال‘ سمیت پوری عمارت کو سجایا گیا ہے۔ ’آٹھ‘ اور ’نو دسمبر’ کی نشستیں چنار روڈ‘ آبدرہ‘ یونیورسٹی ٹاؤن پشاور جبکہ دس دسمبر کی اختتامی نشست کے لئے ’آرکائیوز لائبریری ہال‘ نزد عجائب گھر‘ پشاور کا انتخاب کیا گیا ہے‘ جس کے الیکٹرانک اور شائع شدہ دعوت ناموں کی تقسیم اور شرکاء کو فرداً فرداً یاد دہانی کا عمل وقت سے قبل مکمل کرنے سے عیاں ہے کہ ’ہندکو عالمی کانفرنس‘ گپ شپ نہیں بلکہ ایک سنجیدہ موضوع کا احاطہ کرنے والی سنجیدہ کوشش ہے‘ جس سے نئی نسل نہ صرف ہندکو زبان و ادب بلکہ اِس پورے خطے کے بارے میں بھی بہت کچھ سیکھے گی۔ اُمید ہے پاکستان کا نجی الیکٹرانک میڈیا اِس اہم کانفرنس اور اِس کے غیرملکی‘ ملکی اور مقامی مندوبین کو خاطرخواہ توجہ دے گا۔ خلوص و لگن سے کانفرنس کی تیاریاں اور اِسے عملاً ممکن بنانے والے جملہ منتظمین مبارکباد کے مستحق ہیں‘ جنہیں دیکھ کر ’گندھارا تہذیب‘ بالخصوص ہندکو زبان اور پشاور شہر‘ کو صرف اِک نیا تعارف‘ ہی نہیں بلکہ مقصد بھی میسر ہے۔ قبلہ سیّد محمد اَمیرشاہ قادری گیلانی (مولوی جیؒ ) کی دعاؤں کا نتیجہ ہے کہ ’چراغ سے چراغ جلنے کا سلسلہ باوجود مخالفت و رکاوٹوں کے بھی جاری و ساری ہے‘ رہے گا۔
اِنسانی معاشرے کے اِرتقاء کی کہانی کھلے آسمان تلے رات بسر کرنے سے ہوئی‘ تو گردوپیش میں ہر شے پر تعجب سے زیادہ تفکر سے کام لینا پڑا‘ اور مجھے کہنے دیجئے کہ یہی ضرورت قدرے مشکل (قدرے پیچیدہ) انداز میں آج بھی ’پیش و درپیش‘ ہے۔ موسم کی سختیوں سے بچنے کے لئے درختوں پر ٹھکانہ جب مسئلے کا پائیدار حل ثابت نہ ہوا‘ تو غار کی دریافت اور اِس میں رہنے کو ترجیح دی گئی جو زیادہ زیادہ آرام دہ اور پرسکون تجربہ ثابت ہوا۔ تجربات سے زندگی آگے بڑھتی رہی۔ غاروں سے شروع ہونے والی انسانی تہذیب کے اَن گنت نقوش آج بھی دیواروں پر ثبت ملتے ہیں‘ جن کے ذریعے واقعات اور کہانیاں بیان کی جاتی تھیں تاکہ دوسروں تک پیغام پہنچ سکے۔ الفاظ نہیں تھے لیکن آواز (صوت) موجود تھی اور اِسی صلاحیت کے سہارے بات چیت کا آغاز ہوا جو آواز کے اُتارچڑھاؤ پر مبنی تھی جنہیں ’الفاظ‘ کہا جا سکتا ہے کہ آج بھی ایسی آوازیں اپنا وجود اُور معنی رکھتی ہیں‘ جو درحقیقت انسان کے ساتھ اُس کے زمین پر پہلے دن سے ہمراہ ہیں۔ معروف آوازوں کے متواتر دُہرانے سے الفاظ وجود میں آئے جن کی آج کی طرح اُس وقت بھی ادائیگی ’’رابطہ کاری‘‘ کا بنیادی اور سب سے اہم ذریعہ تھی۔ اِسی کے ذریعے انسانوں نے اپنے ’ہم زمین‘ انسانوں کے محسوسات کو سمجھنا اُور انہیں دوسروں تک پہنچانا شروع کیا لیکن کیسی بدقسمتی ہے کہ آوازوں سے بننے والے الفاظ اور الفاظ سے تشکیل پانے والی زبانوں نے ہمیں ایک دوسرے سے قریب لانے کی بجائے ایک دوسرے سے دور دھکیل دیا ہے۔ ہمیں مانوس کرنے کی بجائے اجنبی بنا دیا ہے۔
اقوام کی ترقی کا راز اگر غوروفکر‘ تحریر و تحقیق اور قول و بیاں میں پنہاں ہے تو تدبر کرنے والوں کو سب کچھ مل جاتا ہے‘ جس کی بنیاد پر وہ ’ترقی یافتہ‘ کہلاتے ہیں لیکن زبانوں کی نقل اُور اُن میں سمانے کی کوشش کرنے والوں کے ہاتھ آنے والی ’ترقی پذیری‘ میں ناپائیداری نمایاں ہے۔ حضرت انسان کی ذات و صفات میں وسعت اور بالخصوص یہ وصف رکھا گیا ہے کہ یہ کسی ایک زبان میں نہیں بلکہ زبانیں اِس میں سما جائیں لیکن ایسا عملاً نہ ہوسکا۔ یہی وہ مقام ہے جہاں ’گندھارا ہندکو بورڈ‘ کے ذریعے مجھ جیسے بہت سے بھٹکے ہوؤں کو کم سے کم یہ تو معلوم ہو ہی چکا ہے کہ وہ بھٹک گئے ہیں۔ اُنہیں اپنی منزل کا نشان مل چکا ہے اور یقیناًایک اکثریت ایسی بھی ہوگی‘ جس نے اپنے شعوری اور معنوی وجود کو تلاش کر لیا ہو۔
روزمرہ تجربات سے اِنسانوں نے جو کچھ بھی سیکھا‘ اُس کا لب لباب زبانیں اور اُن کے لہجے ہیں۔ اِنہی سے محبتیں پھیلیں۔ تعلقات استوار ہوئے۔ ایک دوسرے پر بھروسہ ہونے لگا۔ آوازیں پہچان بنیں لیکن الفاظ‘ بولیاں‘ لہجے اور اِن کے معانی انسانی معاشرے کے درجات کی بلندی کا ذریعہ بنے۔
مقدس صحیفے اُور ہدایت کے لئے بھیجا جانے والا نور‘ ہمراہ ’سراج منیر‘ بھی الفاظ تھے‘ جنہوں نے انسانی معاشرے میں پائے جانے والے اُس فلسفے کی بھی تکمیل کر دی‘ جو منتشر تھا۔ اُن علوم و فنون کو بھی معراج بخشی جن سے متعلق ابہام و بے یقینی جیسے تاثرات عام تھے۔ انسانی حیات و بقاء کے منشور کو کتابی شکل میں مکمل پیش کرنے کے لئے بھی الفاظ اور زبان کا انتخاب اِس بات کا گواہی دے رہا ہے کہ انسانی زندگی کا ہر لمحہ اور اِس ہر لمحے میں ہر لفظ ایک بیش قیمت جنس ہے‘ جس کی حقیقت کی پہچان اور قدردانی کی جانب متوجہ کرتے ہوئے امیرالمومنین اِمام علی ابن ابیطالب کرم اللہ وجہہ الکریم کا ارشاد گرامی رہنما ہے کہ ’’میں الفاظ کے معانی نہیں جانتا تھا تو اُن کا بادشاہ تھا لیکن اِن کے بارے میں علم نے مجھے اِن کا غلام بنا دیا ہے!‘‘ یعنی انسانی معاشرے کی امتیاز خصوصیت ہی یہ ہے کہ اِس میں ہر لفظ اور سوچ کے ساتھ ایک ’احتیاط‘ جڑی ہے! زبان کی شناخت‘ درحقیقت اپنی ذات کی شناخت ہے جس کے درست استعمال سے زندگی کو شعور اور معنویت مل سکتی ہے۔
’گندھارا ہندکو بورڈ‘ نے نہ صرف مجھے ’جھنجوڑا‘ اور مجھے میری مادری زبان سے کی حقیقت و ضرورت سے آشنا کیا بلکہ اِس ’’تحریک‘‘ سے مجھ پر یہ حقیقت بھی آشکار ہوئی کہ ہر لفظ معلوم ہونے کا یہ قطعی مطلب نہیں ہوتا کہ اُس کا استعمال بھی کیا جائے بلکہ الفاظ سے استفادہ‘ اُور اُن کے انتخاب کا سلیقہ ہی سے انسانی معاشرے کا حسن‘ انسانی معاشرے کی تہذیب تخلیق پاتی ہے۔
’’سوچو تو بڑی چیز ہے تہذیب ’زبان‘ کی ۔۔۔
ورنہ تو ’زباں‘ آگ لگانے کے لئے ہے!‘‘
۔
No comments:
Post a Comment