Sunday, December 3, 2017

Dec 2017: Security lapses are damaging!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
غفلت کا انجام!
خیبرپختونخوا میں زراعت سے متعلق (ڈپلومہ) تعلیم و تربیت فراہم کرنے والے اِدارے ’ایگری کلچر انسٹی ٹیوٹ‘ پر یکم دسمبر (بارہ ربیع الاوّل) کی صبح (قریب پونے نو بجے) ہوئے دہشت گرد حملے میں اگرچہ جانی و مالی نقصانات ہوئے ہیں لیکن اگر پشاور پولیس کا ’ردعمل (ریسپانس ٹائم)‘ صرف ’چار منٹ‘ نہ ہوتا تو دہشت گرد زیادہ بڑے پیمانے پر خون خرابہ کرنے کی منصوبہ بندی کئے ہوئے تھے جس کا ثبوت اُن کے قبضے سے برآمد ہونے والی (خودکش) بارودی جیکٹس‘ دستی بم (ہینڈگرنیڈ) اور خودکار اسلحہ کی بڑی مقدار ہے‘ جسے استعمال کرنے کی اُنہیں مہلت نہ مل سکی! 

دہشت گرد دوہزار چودہ میں ’آرمی پبلک سکول‘ پر ہوئے حملے کی تاریخ دہرانا چاہتے تھے اور اِس مرتبہ اُنہوں نے نسبتاً کمزور سیکورٹی انتظامات رکھنے والے ’زرعی تربیتی مرکز‘ کا انتخاب کیا‘ جہاں ہاسٹل میں قیام پذیر سینکڑوں طلباء کی سیکورٹی پر صرف ایک چوکیدار تعینات تھا۔ اِس حملے نے جہاں سیکورٹی اداروں کی مستعدی اور پشاور پولیس کی مہارت کو ثابت کیا ہے وہیں دہشت گردوں کی منصوبہ بندی بھی خوفناک حد تک جامع دکھائی دی‘ جنہوں نے نہ صرف مقامی فیشن کے مطابق (سفید رنگ کے شٹل کاک) برقعوں کا استعمال کیا بلکہ آٹو رکشا جیسی ایک عمومی سواری کے ذریعے اپنے ہدف تک پہنچے اور دوران سفر سیکورٹی اداروں کی نظروں سے اوجھل رہے۔ اگر ’زرعی تربیتی مرکز‘ پر ہوئے حملے کی وجوہات کو ایک جملے میں بیان کیا جائے تو وہ ’’نا مناسب سیکیورٹی انتظامات‘‘ تھے اور صرف ’زرعی تربیتی مرکز‘ ہی نہیں بلکہ پشاور یونیورسٹی اُور دیگر ملحقہ جامعات سمیت جہاں کہیں بھی طلباء و طالبات کو رہائشی (ہاسٹل) سہولیات فراہم کی جاتی ہیں‘ وہاں سیکورٹی کے خاطرخواہ انتظامات دیکھنے میں نہیں آتے۔ دہشت گردوں نے دوسری مرتبہ تعلیمی ادارے کو نشانہ بنانے کی بڑی کوشش کی ہے تو اِسے سنجیدگی سے لیتے ہوئے آخری کوشش بنا دینا چاہئے۔

’زرعی تربیتی مرکز‘ ایک آسان ہدف تھا‘ لیکن دہشت گردوں نے ثابت کیا ہے کہ وہ پشاور سے کامرہ اور کراچی تک ہوائی پٹیوں (ائربیسیس)‘ ہوائی اڈوں جیسی حساس تنصیبات‘ حتیٰ کہ فوج کے صدر دفتر (جی ایچ کیو) انتہائی سیکورٹی رکھنے والے مشکل اہداف کو بھی نشانہ بنا سکتے ہیں اور اِن سبھی اہداف کے پیچھے ’سہولت کار‘ ہوتے ہیں‘ جو اہداف کے انتخاب سے حملے کی منصوبہ بندی کے بارے میں ’ہوم ورک‘ مکمل کرتے ہیں۔ ’زرعی تربیتی مرکز‘ پشاور کا حملہ بھی سہولت کاروں کی کامیابی ہے جو تاحال پکڑے نہیں جا سکے لیکن یہ معلوم ہوچکا ہے کہ حملہ آور افغانستان میں مسلسل ’ویڈیو رابطہ‘ قائم رکھے ہوئے تھے۔ پشاور پولیس کا مؤقف ہے کہ حملہ آور برقع پوش تھے لیکن اگر وہ برقعہ پوش نہ بھی ہوتے تو اُن کے لئے ’زرعی تربیتی مرکز‘ میں داخل ہونا مشکل نہیں تھا کیونکہ وہ ’خودکش مشن‘ پر تھے۔ سوال یہ ہے کہ ہمارے خفیہ ادارے کہاں ہیں اور انہیں کیوں اِس قسم کے حملے کی پیشگی اطلاع نہیں ہوسکی۔ 

’زرعی تربیتی مرکز‘ پر ہوئے حملے سے نمٹنے میں پشاور پولیس کے اعلیٰ و ادنیٰ اہلکاروں نے اپنی جان لگا دی اور فوج کی کمک آنے سے قبل انہوں نے دہشت گردوں کو اِس حد تک مصروف رکھا کہ وہ باوجود خواہش بھی کامیاب نہ ہو سکے لیکن جس انداز میں دہشت گرد واقعات پے در پے رونما ہو رہے ہیں بالخصوص کچھ عرصے سے بلوچستان ہدف بنا ہوا ہے اُسے مدنظر رکھتے ہوئے سہولت کاروں کے خلاف کاروائی کرنے کے ساتھ ایک سے زیادہ خفیہ اداروں (انٹلی جنس) اہلکاروں کو باہم مربوط اُور اُن کے کارکردگی بہتر بنانے کے لئے ’پورے نظام پر نظرثانی‘ کرنا ہوگی کیونکہ اِس ایک (انٹلی جنس) شعبے میں غفلت کے مسلسل ارتکاب کی وجہ سے دہشت گردوں کو وار کرنے کا ہر بار موقع مل رہا ہے۔

پاک فوج کی جانب سے ’زرعی تربیتی مرکز‘ پشاور میں ہوئے حملہ آوروں کی کمان کرنے والوں سے متعلق معلومات کا تبادلہ افغانستان سے کرنا اپنی جگہ اہم و ضروری ہے لیکن جب تک پاک فوج سرحد پار افغانستان میں موجودہ دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو فوری نشانہ بنانے جیسے ردعمل کا مظاہرہ نہیں کرے گی اور اِس سلسلے میں ’ڈرون حملہ آور اور ڈرون جاسوس طیاروں‘ کو پاک افغان سرحدی اور بالخصوص افغانستان کے اُن علاقوں میں کاروائی (ایکشن) کرنے جیسا اختیار نہیں دیا جائے گا‘ اُس وقت تک دہشت گرد حملوں کا سلسلہ جاری رہنے پر تعجب کا اظہار نہیں کرنا چاہئے کیونکہ دہشت گرد مستقل ٹھکانوں کا استعمال نہیں کرتے اِس لئے موبائل فون لوکیشن پر اگر فوری رسپانس نہ کیا جائے تو بعدازاں حملہ آوروں کے ’کمان مرکز‘ تک رسائی ممکن نہیں رہتی! فی الوقت افغانستان میں صرف تحریک طالبان پاکستان کے دہشت گرد ہی نہیں بلکہ جماعت الاحرار‘ داعش اور ساتھ ہی بلوچ عکسریت پسند بھی موجود ہیں اور یقیناًمزید کئی حملوں کی منصوبہ بندی کررہے ہوں گے یا کئے بیٹھے ہوں گے جبکہ افغانستان خود بھی اِس حقیقت کو تسلیم کر چکا ہے کہ دہشت گرد افغان علاقوں میں موجود ہیں لیکن اُن تک افغان حکومت یا افغان سیکورٹی اداروں کی رسائی نہیں! 

افغانستان میں حالیہ چند مہینوں میں ہوئے ڈرون حملے لائق توجہ ہیں‘ جن سے بچنے کے لئے عین ممکن ہے کہ دہشت گرد پاکستان کے قبائلی علاقوں کا رُخ کریں اور ایسی صورتحال زیادہ تشویشناک ہو سکتی ہے کیونکہ قبائلی علاقوں کی جداگانہ امتیازی حیثیت تاحال حل طلب ہے جسے باوجود ضرورت کے بھی ملک کی سیاسی و عسکری قیادت تبدیل کرنے میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتی۔ افغان مہاجرین کی واپسی‘ انہیں پاک افغان سرحدی علاقوں میں کیمپوں تک محدود رکھنے اور پاکستان میں صرف اور صرف ’پری پیڈ‘ موبائل فون کنکشنز کے بناء کوئی دوسرا پائیدار حل نہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ پاکستان اور افغانستان دونوں مل کر دہشت گردی سے نمٹنے کا مؤثر حل نکال سکتے ہیں لیکن اِن دو‘ برادر‘ ہمسایہ‘ مسلمان ممالک کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرنے اور افغان سرزمین اور وہاں کے وسائل پاکستان کے خلاف استعمال کرنے والی طاقتوں میں بھارت پیش پیش ہے‘ تو مزید غفلت اور خاموش تماشائی بننے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔

پاکستان کی داخلی سیکورٹی بالخصوص خیبرپختونخوا کے صدر مقام پشاور کے لئے ’سیف سٹی پراجیکٹ‘ اور اِسے محفوظ بنانے کے لئے سیکورٹی اداروں کی افرادی قوت اور جدید تکنیکی وسائل میں اضافہ بھی اَشد ضروری ہے۔ آدھی شاباش کی مستحق پشاور پولیس نے اپنے حصے کا ایک کام تو پورا کردیا لیکن ابھی آدھا کام تو باقی ہے!
۔

No comments:

Post a Comment