Anarchy
بدنظمی!
بے لگام سیاسی افراتفری‘ نراج‘ بے حکومتی اور طوائف الملوکی ایک ایسے حکمرانی کے دور کا کہا جاتا ہے جس میں ’قانونی حکومت کا تعطل ہو جائے۔ ریاستی اِداروں کی حکمرانی کمزور ہو‘ تو ایسی صورت حال سے ’بدنظمی (انارکی)‘ جنم لیتی ہے۔ پاکستان بھی آج ایک ایسے ہی دور سے گزر رہا ہے‘ آخر کیوں؟ اِس سوال کا جواب یہ ہے کہ ریاست کی عمل داری کمزور پڑ گئی ہے۔ عمل داری کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ حکومت طاقت کے استعمال‘ احکامات دینے‘ کسی قسم کے حالات سے نمٹنے کے لئے فیصلے کرنے اور ریاستی حکم نہ ماننے والوں سے معاملہ کرنے میں طاقت کا استعمال کرتی ہے۔‘‘ نوازشریف پاکستان کے فی الحقیقت (باالفعل) وزیراعظم ہیں جبکہ شاہد خاقان عباسی ’حسب قانون‘ وزیراعظم اُور شہباز شریف (یا شاید مریم نواز) آئندہ وزیراعظم بننے کے متمنی (اُمیدوار) ہیں۔ پاکستان میں اختیارات کس کے پاس ہیں؟ پاکستان میں کون ہے جو احکامات صادر کرے؟ پاکستان سے متعلق فیصلے کون کر رہا ہے؟ کیا فی الحقیقت یا حسب قانون یا وزارت عظمیٰ کے متمنی اختیارات رکھتے ہیں؟
فی الحقیقت وزیراعظم نے اپنے سیاسی مفادات کے لئے ریاستی اداروں کو ایک دوسرے کے مدمقابل لا کھڑا کیا ہے۔ فوج بمقابلہ احتجاجی مظاہرین۔ عدلیہ بمقابلہ پارلیمینٹ۔ عدلیہ بمقابلہ فوج۔ حسب قانون وزیراعظم (شاہد خاقان عباسی) سمجھتے ہیں کہ نوازشریف کے پاس وزارت عظمیٰ کے اختیارات رہنے چاہیءں اور اصل اختیارات اُنہی کو حاصل رہنے چاہیءں۔ یہی سوچ حسب قانون وفاقی کابینہ کے اراکین کی بھی ہے جو پاکستان کی وزارت عظمیٰ اور فیصلوں کااختیار عملاً شریف خاندان کو سونپ چکے ہیں۔ نتیجہ ’بدنظمی‘ کی صورت سب کے سامنے ہے۔
پاکستان کو کنٹرول کرنے والے اداروں پر ایک نظر ڈالیں۔ 22 فروری کو سپرئم کورٹ (عدالت عظمیٰ) نے اٹھارنی جنرل آف پاکستان کو کہا کہ ’’نیب کا انتقال ہو چکا ہے۔‘‘ وفاقی وزارت خزانہ ’ایف بی آر‘ نے حال ہی میں ایوان بالا (سینیٹ) کی قائمہ کمیٹی برائے فنانس میں ایک رپورٹ جمع کروائی ہے‘ جس میں تسلیم کیا گیا ہے کہ کرپشن اُور نااہلی ’ایف بی آر‘ کی رگوں میں سرایت کر چکے ہیں۔
دس نومبر کے روز‘ عدالت نے سیکورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کے سابق چیئرمین ظفرحجازی کی ایک درخواست مسترد کی جس میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ ظفر حجازی نے نوازشریف سے متعلق چوہدری شوگر ملز کے ایک معاملے میں دستاویزات میں ردوبدل نہیں کیا۔
اٹھائیس اکتوبر کو 23 سینیٹرز نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا اور اُنہوں نے ’اسٹیٹ بینک آف پاکستان‘ کے نئے گورنر کی تعیناتی پر اظہار تشویش کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ گورنر اسٹیٹ بینک کی تعیناتی میں قانونی قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ سپرئم کورٹ آف پاکستان کے مطابق ’’مقدمے کی سماعت کے دوران ریاستی اہم اداروں کا تعاون جن میں نیب‘ الیکشن کمشن‘ ایف بی آر‘ اسٹیٹ بینک‘ نیشنل بینک‘ انٹلی جنس بیورو شامل ہیں ریاست کی بجائے شخصیات کے مفادات کے محافظ ثابت ہوئے۔‘‘
پاکستان کی پولیس پر نظر کریں۔ اقوام متحدہ کے 193 رکن ممالک میں پاکستان پولیس دنیا کی 10بڑی پولیس فورس ہے جس کے اراکین کی تعداد تین لاکھ اٹھاسی ہزار سے زیادہ ہے۔ گذشتہ چار برس کے دوران سات سو ارب روپے پولیس کے محکمے پر خرچ کئے جا چکے ہیں لیکن اگر برسرزمین تبدیلی دیکھیں تو سوائے ہر پولیس اہلکار کو سال میں ایک مرتبہ یونیفارم اور تنخواہیں ملنے کے سوأ کچھ حاصل نہیں ہوسکا۔ ہماری پولیس فورس کے پاس موجود ربڑ کی تمام گولیوں کی مدت ختم ہو چکی ہے۔ سندھ پولیس کے پاس ایسی بکتربند گاڑیاں ہیں جن پر اسلحے کا اثر ہوتا ہے۔ پولیس کی تربیت کا خاطرخواہ بندوبست نہیں۔ جرائم سے نمٹنے کے لئے آلات اور دیگر سہولیات دستیاب نہیں ہیں اور 700 ارب روپے خرچ ہو چکے ہیں!
داخلی طور پر پاکستان ایک ایسی صورتحال سے گزر رہا ہے جس میں حکومت کا اختیار کمزور ہے اور بیرونی طور پر پاکستان کے ایسے دشمن ہیں جو پاکستان کے خلاف سازشوں کی منصوبہ بندی اور دہشت گرد کاروائیوں کی پشت پناہی کرنے پر اربوں خرچ کر رہے ہیں۔ داخلی طور پر بدنظمی کا فائدہ ملک کے خلاف سازش کرنے والے عناصر اور بیرونی طاقتیں اٹھا رہی ہیں۔ ہم داخلی طور پر کمزور ہیں اور یہی وجہ ہے کہ بیرونی طاقتیں اِس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ملک میں انتشار و بدنظمی میں اضافہ کر رہی ہیں۔
براڈفورڈ (Bradford) یونیورسٹی کے پروفیسر شام گریگورے (Prof. Sham Gregory) نے ’ملک میں استحکام کے لئے پاک فوج کے کردار‘ کے عنوان سے لکھا ہے کہ ’’پاکستان کی فوج ایک عرصے سے مضبوط ادارہ ہے اور پاکستان کا صرف یہی ایک ادارہ اپنی کارکردگی کا درست مظاہرہ کر رہا ہے۔ پاکستان کے دشمن ملک کو تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔ خفیہ اداروں کی کارکردگی اور طریقۂ کار کے حوالے سے امریکہ کے تحقیقی ادارے ’سٹراٹ فور (Stratfor)‘ کے مطابق ’’اگر پاکستان ایک قوم بننے کا خواہشمند ہے تو اِس کے بنیادی ادارے فوج کو مضبوط بنانا ہوگا جب تک فوج ملک سے وفادار اور متحد و منظم رہے گی اُس وقت پاکستان کے خلاف کوئی بھی سازش کامیاب نہیں ہوسکتی۔‘‘ اگر منظم فوج کے ساتھ سول ریاستی اداروں کی بات کی جائے تو ہمیں پاکستان کے سیاسی کلچر کو تبدیل کرنا ہوگا جس پر موروثی سوچ اور حاکمیت رکھنے والوں نے قبضہ کر رکھا ہے۔ ہمیں اپنے طرز حکمرانی کا نظام (ماڈل) بھی تبدیل کرنا ہوگا اور سخت گیر و بلاامتیاز ادارہ جاتی کارکردگی کا احتساب لاگو کرنا ہوگا۔
(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ تلخیص و ترجمہ: شبیرحسین اِمام)
Anarchy is a ‘state of disorder due to absence of authority or other controlling institutions’. Pakistan is in a state of disorder. Why? Answer: Absence of authority. Authority is the “power or right to give orders, make decisions, and enforce obedience.” Our de-facto PM is Nawaz Sharif, the de-jure PM is Shahid Khaqan Abbasi and the PM-in-waiting is Shahbaz Sharif (or Maryam Nawaz). Who has the authority in Pakistan? Who has the power to give orders? Who has the power to make decisions? Is it the de-facto PM, the de-jure PM or the PM-in-waiting?
ReplyDeleteThe de-facto PM somehow sees intra-state institutional conflicts being in his political interest – army v protesters; judiciary v parliament; judiciary v army. The de-jure PM somehow feels that the exercise of real authority is the exclusive domain of the de-facto PM. The de-jure cabinet is unable to decide if it wants to govern Pakistan or focus on defending the de-facto PM and his family. Result: anarchy.
Have a look at our controlling institutions. On February 22, the Supreme Court of Pakistan told the attorney general of Pakistan: ‘NAB died yesterday’. The FBR recently submitted a report to the Senate Standing Committee on Finance accepting that ‘corruption, inefficiency’ were rampant in the FBR.
On November 10, a “court rejected a plea to acquit former Securities and Exchange Commission of Pakistan (SECP) chairman Zafar Hijazi in a record-tampering case related to the Sharif family’s Chaudhry Sugar Mills”.
On October 28, as many as 23 senators moved the Islamabad High Court “against the appointment of the new governor of the State Bank of Pakistan (SBP), accusing the government of ruthless violation of the legal requirements and procedures in making the appointment.”
According to the Supreme Court of Pakistan, “had there been no institutional capture, seizure and subjugation of all the important institutions of the state, including NAB, the Election Commission of Pakistan, the FBR, the SBP, the National Bank of Pakistan and the Intelligence Bureau through the cronies and collaborators of the person at the peak, as has been evidenced during the course of [the] hearing.”
Have a look at our police. There are 193 member atates of the UN and Pakistan’s police with 388,000 personnel are the 10th largest police force in the world. Over the past four years, we have spent a colossal Rs700 billion on our police and there is little to show for it. Amazingly, all that the constables get is a couple of uniforms per year and their salaries. Our rubber bullets are all expired. Sindh has Armored Personnel Carriers (APCs) that are not armoured. There’s no training, no equipment and no facilities. Where has the Rs700 billion gone?
ReplyDeleteInternally, there’s absence of authority. Externally, there are powerful enemies spending billions, hatching conspiracies against Pakistan. To be certain, the fire of anarchy was lit internally; external enemies are adding fuel to the fire. We are weak internally and thus external forces have been successful at spreading chaos and anarchy.
Professor Sham Gregory of Bradford University wrote in ‘The role of the military in the cohesion and stability of Pakistan’ that “The Pakistan military has long been considered the one institution in the country that functions sufficiently well…”
Pakistan’s enemies want to tear Pakistan apart. According to Stratfor, the Texas-based private intelligence outfit, “If Pakistan was a state trying to create a nation, then the primary instrument of the state was the army. It was perhaps the most modern institution…. and the best organized and effective instrument of the state. As long as the army remained united and loyal to the concept of Pakistan, the centrifugal forces could not tear the country apart.”
On the civilian side, we need to change our political culture of sexually transmitted political leadership. We need to change our model of governance. And we must implement institutionalised accountability.