ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
سیرت رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
سلسلۂ عالیہ قادریہ حسنیہ کے سرتاج خانوادہ سے تعلق رکھنے والی پشاور کی معروف روحانی‘ علمی اور سیاسی شخصیت‘ پیرطریقت سیّد محمد امیر شاہ قادری گیلانی (مولوی جی) رحمۃ اللہ علیہ بالعموم اور ماہ ’ربیع الاوّل‘ کے دوران بالخصوص ’رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘ کی سیرت کے اُن پہلوؤں کے بارے میں وعظ فرماتے جن کا تعلق روزمرہ معمولات سے ہوتا۔ خلاصۂ درس و تلقین یہی رہتا کہ کسی طرح خاتم النبین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے والہانہ عشق کے اصول اور عملی تقاضوں کی یاد دہانی کی جائے۔ یاداشت پر بھروسہ کرتے ہوئے مولوی جیؒ (1920ء سے 2004ء) سے تحصیل شدہ ’سیرت‘ کے اُن واقعات کا اقتباس پیش ہے جنہیں اگر عملاً مدنظر رکھا جائے تو زندگی و آخرت میں سرخروی اور کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔
شعب ابی طالب میں تین سالہ محصوری کے دوران قریش کی کوشش رہی کہ مسلمانوں تک کھانے پینے کی کوئی چیز نہ پہنچے۔
مکہ میں غلہ (اشیائے خوردونوش) یمامہ سے آتا تھا۔ یمامہ کے رئیس ’’ثمامہ بن اثال (بنی حنیفہ)‘‘ نے ایسا انتظام کیا کہ یمامہ کے غلے کا ایک دانہ بھی شعب ابی طالب (مسلمانوں) تک نہ پہنچ سکے۔ ہجرت کے بعد ثمامہ گرفتار ہوا‘ اُور اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں پیش کیاگیا۔ (بحوالہ صحیح بخاری کتاب المغازی سترواں باب حدیث نمبر 4372) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا کہ اسے ایک ستون سے باندھ دیا جائے۔ ثمامہ نے بڑی لجاجت سے کہا: ’’اگر مجھے قتل کیا جائے گا تو یہ غلط نہیں ہوگا‘ بلاشبہ میں اِسی سزا کا مستحق ہوں۔ اگر احسان کیا جائے تو یہ ایک شکر گزار پر احسان ہوگا اُور فدیہ کے بدلے میری رہائی ہوسکتی ہے‘ تو میں فدیہ اَداکرنے کے لئے بھی تیار ہوں۔‘‘ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی بات کا کوئی جواب نہ دیا اور آپ مسجد نبوی تشریف لے گئے۔ دوسرے دن بھی زیرحراست ثمامہ نے پھر یہی بات کی لیکن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سکوت اختیار فرمایا۔ تیسرے دن التجا پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم دیا کہ ’’اسے آزاد کردو۔‘‘ ثمامہ کو اپنی اسلام دشمنی‘ ظلم اورزیادتی کا اچھی طرح علم تھا۔ اسے بڑی سخت سزا کا اندیشہ تھا لیکن خلاف توقع رہائی سے اسے حیرت ہوئی اور وہ اس لطف وکرم اورعفو ودرگزر سے بڑا متاثر ہوا۔ اُس نے اسلام قبول کیا اورگریہ کناں ہوکر حضور علیہ الصلوۃ التسلیم کی خدمت میں عرض کی ’’یا رسول اللہ! آج سے پہلے مجھ سے بڑھ کرآپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دشمن کوئی نہیں تھا لیکن اب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بڑھ کر مجھے کوئی اورمحبوب نہیں ہے۔ اسلام کو میں بدترین مذہب سمجھتا تھا لیکن آج یہ میرے نزدیک بہترین دین ہے۔ مجھے مدینہ سے سخت نفرت تھی لیکن آج اس سے زیادہ پسندیدہ شہر میرے نزدیک کوئی اور نہیں ہے۔‘‘
اِسلام قبول کرنے کے بعدحضرت ثمامہ رضی اللہ عنہ مکہ معظمہ گئے تو قریش نے انہیں لعن طعن کیا اورکہا: ’’شاید تیری عقل ٹھکانے نہیں رہی۔‘‘ ثمامہ نے یہ سنا تو بڑے غضب ناک ہوئے اُورکہا اچھا یہ بات ہے تو سنو! خدا کی قسم‘ اب رسول اللہ کی اجازت کے بغیر غلہ کا ایک دانہ بھی یمامہ سے یہاں نہیں آئے گا۔ انہوں نے مکہ والوں کو غلہ کی ترسیل روک دی جس سے مکہ میں غلے کا کال پڑگیا۔ اہل قریش نے ایک وفد سرکار دوعالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں بھیجا‘ اُور گزارش کی کہ سب مرد و زن‘ بچے بوڑھے دانے دانے کو ترس گئے ہیں۔ آپ مہربانی فرمائیں اُور ثمامہ کوغلے کی حسب سابق ترسیل کا حکم دیں۔ حضور رحمت عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اِن کی درخواست قبول فرمالی اورثمامہ کو بندش اٹھانے کا حکم دیا۔‘‘
پہلی بات کیا آج ہم اپنے کردار سے دوسروں کو اسلام کی دعوت دے سکتے ہیں؟
دوسری بات مسلمان ملک و معاشرہ کسی غیرمسلم ملک کی کسی ایسی درخواست کو قبول کرسکتا ہے‘ جس کی وجہ سے غیرمسلم بچے بوڑھے اور خواتین متاثر ہو رہے ہوں؟ سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یہ عملی پہلو کہ جس میں ایک دشمن سے سلوک کا ذکر ہے‘ تو کیا ہم اپنی عملی زندگیوں میں دوسروں کے لئے کم سے کم اِس قدر ’رحم‘ محسوس کرتے ہیں کہ اُن کی غلطیوں کو معاف کریں؟
آج (بارہ ربیع الاوّل) کی مبارک ’سعد ساعتوں‘ میں خود سے عہد کرنے کی ضرورت ہے کہ سیرت کے اُن واقعات کا بھی اپنی زندگی پر اطلاق کریں گے‘ جو رہتی دنیا تک زندہ حقیقت ہیں۔ ’’پھر گڈریوں کو لعل دے‘ جاں پتھروں میں ڈال دے ۔۔۔ حاوی ہوں مستقبل پہ ہم: ماضی سا ہم کو حال دے ۔۔۔ دعویٰ ہے تیری چاہ کا: اِس اُمت گمراہ کا ۔۔۔ تیرے سوا کوئی نہیں یا رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔ مظفروارثی۔
۔
No comments:
Post a Comment