Another amnesty
ٹیکس معافی: ایک مرتبہ پھر!؟
پاکستان کے پہلے فوجی حکمراں‘ فیلڈ مارشل ایوب خان نے سال 1958ء کے دوران پہلی مرتبہ محصولات (ٹیکسوں) کی وصولی میں ’عام معافی‘ کا اعلان کیا اُور اِس سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت 71 ہزار 289 افراد کو ’ٹیکس دھندگان (ٹیکس ادا کرنے والوں) میں شامل کر لیا گیا‘ جس کے بعد ٹیکس ادا کرنے والوں کی تعداد 1.3 ارب ہو گئی۔
سال 1969ء میں جنرل آغا محمد یحیی خان جو کہ پاکستان کے دوسرے فوجی حکمران تھے اُنہوں نے بھی ٹیکس نیٹ کو بڑھانے کے لئے ٹیکسوں کی وصولی میں عام معافی کا اعلان کیا اور اِس طرح مزید 19 ہزار 600 افراد کو ٹیکس ادا کرنے والوں میں شامل کر لیا گیا جنہوں نے 92 کروڑ روپے مالیت کے اپنے اثاثے ظاہر کئے۔
سال 1976ء میں پاکستان کے پہلے سویلین مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر ذوالفقار علی بھٹو‘ جو کہ ملک کے 10ویں وزیراعظم بھی تھے‘ نے ’ٹیکس معافی‘ کا اعلان کیا جس سے قومی خزانے کو 27 کروڑ روپے حاصل ہوئے۔
سال 1986ء میں جنرل محمد ضیاء الحق جو کہ پاکستان کے تیسرے فوجی آمر تھے اُنہوں نے بھی ’ٹیکس معافی‘ کا اعلان کیا لیکن یہ حکمت عملی زیادہ کامیاب ثابت نہ ہو سکی۔ سال 1997ء میں اُس وقت کے وزیراعظم میاں نواز شریف جو کہ پاکستان کے پہلے ایسے وزیراعظم بھی تھے کہ جن کا تعلق کاروباری طبقے تھا‘ ماضی کے حکمرانوں کی طرح ’ٹیکس معافی‘ کے ذریعے 14 کروڑ روپے محاصل لا سکے۔ سال 1999ء میں پاکستان کے چوتھے فوجی آمر جنرل پرویز مشرف نے ملک کی پانچویں ’ٹیکس معافی‘ کا اعلان کیا جو خاطرخواہ کامیابی حاصل نہ کرسکی۔ سال 2008ء میں پاکستان پیپلزپارٹی کا دور حکومت آیا تو اُس کے قیادت اُس وقت کے صدر پاکستان‘ آصف علی زرداری کر رہے تھے اور اُنہوں نے بھی ’ٹیکس معافی‘ کا اعلان کیا لیکن اِس کی ناکامی کا اندازہ اِس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ صرف اور صرف 128 پاکستانیوں کا ملک کے ’ٹیکس نیٹ‘ میں اضافہ ہوا۔
سوال یہ ہے کہ مختلف فوجی اور غیرفوجی حکومتوں کے ادوار میں ٹیکس معافی کے اعلانات ہوتے رہے لیکن اِس کے باوجود یہ حکمت عملیاں ناکام کیوں ہوئیں؟ اِس سوال کا کوئی ایک جواب نہیں ہوسکتا بلکہ اِس کے کئی ایک پہلو ہیں جن میں یہ ’مالی بدعنوانیوں‘ سے جمع کیا جانے والا سرمایہ بھی ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے پاکستان میں ٹیکس چوری کی مالیت کو سالانہ کھربوں روپے بیان کرتے ہیں لیکن ایسا نہیں ہے۔ میرا اندازہ ہے کہ پاکستان کے اندر اور بیرون ملک پاکستانیوں کے 90فیصد اثاثوں کا تعلق مالی بدعنوانیوں سے حاصل کردہ سرمائے سے ہے اور یہ اثاثے ٹیکس چوری سے نہیں بنائے گئے ہیں اور جہاں کہیں بدعنوانی سے اثاثے بنائے جاتے ہیں اُنہیں کبھی بھی ظاہر نہیں کیا جاتا چاہے ٹیکسوں کی معافی کی حکمت عملی کتنی ہی وسیع اور مفید ہو۔ مالی بدعنوانیوں کے ذریعے اثاثہ جات بنانے والوں کی ایک مجبوری یہ بھی ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے اثاثہ جات ظاہر نہیں کرتے کہ اگر وہ اپنے اثاثے ظاہر کردیں تو یہ مالی بدعنوانی ایک قابل سزا جرم ہے۔
ٹیکس معافی کی حکمت عملی ناکام ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے ہاں پے در پے ٹیکس معافی کے اعلانات کئے گئے۔ جب لوگوں کو پتہ ہو کہ ہر چند برس بعد ٹیکس معافی کا اعلان ہونا ہے تو وہ کیوں اپنے اثاثے ظاہر کریں بلکہ ہر ٹیکس معافی اعلان کے بعد وہ آئندہ کے اعلان کے منتظر رہتے ہیں اور ٹیکس چوری کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہئے کہ ٹیکس معافی کی حکمت عملی ناکام ہونے کی ایک وجہ یہ بھی رہی ہے کہ ٹیکس دھندگان کا حکومت پر اعتماد نہیں ہوتا اور اُن میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ چاہے ٹیکس معافی ہو یا نہ ہو لیکن اُن کے ادا کردہ ٹیکس حکمرانوں کی بدعنوانیوں‘ غلط فیصلوں اور خردبرد کی نذر ہو جائیں گے۔ پاکستان میں حکومت اور ٹیکس ادا کرنے والوں میں عدم اعتماد کی خلیج ہر گزرتے دن وسیع ہورہی ہے اور جس طرح سرمایہ داروں کی ایک تعداد امن و امان کے حوالے سے پاکستان میں رہنے کو محفوظ نہیں سمجھتی بالکل اِسی طرح اپنے سرمائے کو بھی پاکستان میں رکھنا اُنہیں غیرمحفوظ محسوس ہوتا ہے اور پھر جب ٹیکس ادا کرنے کی بات ہوتی ہے تو کوئی عوام اور ملک کی بجائے صرف اور صرف فیصلہ سازوں کی آسائش کے لئے ٹیکس کیوں ادا کرے؟
جس ملک کے سرمایہ دار حسب آمدنی ٹیکس ادا نہیں کرتے وہاں ٹیکسوں کا بوجھ اُن طبقات پر منتقل ہو جاتا ہے جن کی مالی حیثیت پہلے ہی کمزور ہوتی ہے۔ حکومتیں اگر ٹیکس معافی کی بجائے ٹیکس وصولی کے قواعد اور ٹیکس وصولی کے اداروں کی فعالیت پر توجہ کریں اور معاشرے کے سرمایہ داروں‘ سیاسی اثرورسوخ رکھنے والوں پر بلاامتیاز قواعد لاگو کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ بناء ٹیکس معافی کے بھی ٹیکس دھندگان کی تعداد بڑھائی جا سکے لیکن ایسا کرنے کے لئے موجودہ نظام میں موجود خامیوں اور اِن خامیوں کا فائدہ اٹھانے والوں سے بلاامتیاز معاملہ کرنے کی ضرورت ہے۔
کیا پاکستان حکومت نے ماضی کی اپنی غلطیوں سے کوئی سبق سیکھا ہے؟
کیا پاکستان حکومت نے ٹیکس معافی کے طور پر دی جانے والی بار بار کی رعایت کی ناکامی سے کچھ قابل ذکر حاصل کیا ہے؟ اِس سلسلے میں رہنما اور کامیاب اصول موجود ہیں کیا ہمارے حکمران دوسرں کی فہم و فراست اور علم و دانش سے فائدہ اٹھانا پسند فرمائیں گے؟
کیا ٹیکس نیٹ بڑھانے اور مالیاتی حکمت عملیاں وضع کرنے کے لئے بیرون ملک ہونے والی تحریر و تحقیق کا مطالعہ کیا جائے گا؟ اِس بارے میں صرف اُمید ہی کی جا سکتی ہے کیونکہ اُمید پر دنیا قائم ہے!
(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیرحسین اِمام)
In 1958, Field Marshal Ayub Khan, Pakistan’s first martial law ruler, announced the country’s first tax amnesty scheme. Pakistan’s first martial law ruler managed to bring 71,289 people into the tax net. The new taxpayers declared Rs1.3 billion.
ReplyDeleteIn 1969, General Agha Muhammad Yahya Khan, Pakistan’s second martial law ruler, announced the country’s second tax amnesty scheme. Pakistan’s second martial law ruler managed to bring 19,600 people into the tax net who declared Rs920 million.
In 1976, Zulfikar Ali Bhutto, Pakistan’s first civilian martial law administrator and its 10th prime minister, also brought in his own tax amnesty scheme under which Rs270 million was paid in taxes.
In 1986, General Muhammad Ziaul Haq, Pakistan’s third martial law ruler, announced the country’s fourth tax amnesty scheme without much success. In 1997, the then PM Nawaz Sharif, Pakistan’s first businessman-prime minister, announced his own tax amnesty scheme that brought in a meagre Rs141 million.
In 1999, General Pervez Musharraf, Pakistan’s fourth military ruler, announced Pakistan’s fifth tax amnesty scheme without much success. In 2008, the PPP government, led by the then president Asif Ali Zardari, announced its own tax amnesty scheme that brought in a paltry Rs2.8 billion.
In 2016, former PM Nawaz Sharif announced another tax amnesty scheme under which the government had expected to bring in a million new taxpayers. Lo and behold, only 128 people participated in the scheme, which was a total failure.
Why do tax amnesty schemes fail? To begin with, there’s a fine line between tax evasion and assets accumulated through corruption. Yes, there’s tax evasion in Pakistan. But the amounts do not run into trillions of rupees (as the IMF, the World Bank and our governments continue to claim). My estimate: around 90 percent of assets accumulated within and outside the country by Pakistanis are corruption-related and not related to tax evasion. Consequently, assets accumulated through corruption will never be declared under any amnesty scheme (because ‘assets beyond known means of income’ are punishable under criminal laws).
ReplyDeleteWhy do tax amnesty schemes fail? Research suggests that a “tax amnesty can be successful only if it is perceived as a unique event. Many countries offering tax amnesties on a repeated basis have met with little or no success after the initial programme. The reason is fairly simple. If the citizens of a country expect there to be more than one amnesty, they have little or no incentive to report or redress an offence immediately. In fact, because they expect a future amnesty, they have an incentive not to pay current taxes”.
Why do tax amnesty schemes fail? An “amnesty alone may not be sufficient to induce delinquent taxpayers to declare unreported income. They may come forward, however, if the amnesty is accompanied by the increased likelihood of detection”.
Why do tax amnesty schemes fail? To be certain, “tax evasion is often the result of high tax rates and poor economic policies… amnesties have also proved more successful when they have been part of an overall package of tax changes”.
Will our government learn from our own history? Will our government learn from research done elsewhere? Hopefully.