Friday, January 19, 2018

Jan 2018: Trendy protest as solution!

مہمان کالم
اِحتجاج بر اِحتجاج!
آخر اِحتجاج کے لئے ’شاہراۂ عام‘ بند کرنا ہی کیوں ضروری ہوتا ہے؟ 
یہ ایک ایسا بنیادی سوال ہے جس کا تعلق طرزحکمرانی سے زیادہ اُن معاشرتی روئیوں سے ہے‘ جس میں ہمیں اپنی غلطیاں نظر نہیں آتیں لیکن ہم دوسروں پر تنقید کرنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ سڑکیں بند کرنے میں پاکستان کی سبھی سیاسی و مذہبی جماعتیں ایک سے بڑھ کر ایک ہیں بلکہ مخالفین پر اپنی طاقت اور عوامی مقبولیت کا رعب ڈالنے کے سڑکیں بند کرنے اور سرکاری و نجی املاک کو نقصان پہنچایا جاتا ہے اور ایسا کرنے میں صرف سیاسی و مذہبی جماعتوں ہی قصوروار نہیں بلکہ ’معاشرتی حیثیت‘ کا تعین بھی اِس بات سے ہوتا ہے کہ کون کتنی بڑی اور اہم شاہراہ بند کرسکتا ہے۔ 

عمومی طور پر دیکھنے میں آتا ہے کہ شادی بیاہ‘ خوشی و غم کے تہواروں کے موقع پر شاہرائیں اور مصروف و معروف گلی کوچوں کو ہر قسم کی آمدورفت کے لئے بند کر دیا جاتا ہے اور ہونا تو یہ چاہئے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اِس رجحان کی حوصلہ شکنی کریں لیکن وہ سڑکیں بند کرکے پہرہ دے رہے ہوتے ہیں کہ خلاف ورزی یا سڑک احتجاج کرنے پر احتجاج کرنے والوں سے نمٹا جائے۔ افسوس کہ ہم اپنی خوشی‘ غم اور احتجاج کے موقع پر حواس کھو دیتے ہیں ورنہ کئی ایسے طریقے (حل) بھی ڈھونڈے جا سکتے ہیں‘ جن کے ذریعے سانپ بھی مر سکتا ہے اور لاٹھی بھی بچ سکتی ہے! اپنے پاؤں پر اپنی ہی کلہاڑی مارنا کہاں کی دانشمندی ہے اور اپنے ہی لوگوں کو پریشانی سے دوچار کرنے سے سوائے نفرت اور کیا حاصل ہوسکتا ہے‘ اِس بارے سوچنا بھی تو معمول بنایا جا سکتا ہے۔ جس معاشرے سے سوچنے اور اِس معاشرتی خرابیوں کا پائیدار حل تلاش کرنے کے لئے غوروخوض کا عمل اٹھ جائے وہاں کے مسائل ہر گزرتے دن بڑھتے چلے جاتے ہیں‘ جیسا کہ ہم اپنے اردگرد مشاہدہ کرتے ہیں۔ سڑکیں بند نہ ہوں‘ راستے بہرحال کھلے رہیں اور معمولات زندگی متاثر کرنے والوں سے بلاامتیاز قانون کے مطابق معاملہ کیا جائے تو اِس سلسلے میں سب سے زیادہ تعاون اور قربانی اُن سیاسی جماعتوں کو دینا ہوگی جن کی قانون ساز ایوانوں میں نمائندگی موجود ہے کیونکہ جب تک قانون کا احترام قانون سازوں کی جانب سے دیکھنے میں نہیں آئے گا‘ عام آدمی (ہم عوام) اِس جانب متوجہ نہیں ہوں گے۔ رہنمائی کے لئے سپرئم کورٹ آف پاکستان (عدالت عظمیٰ) کے چیف جسٹس کی ایک رولنگ آن دی ریکارڈ ہے کہ ’’سڑک بند کرنا بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔‘‘

لاہور ہائی کورٹ کے فل بنچ نے سترہ جنوری کو ’مال روڈ لاہور‘ پر احتجاجی جلسۂ عام کے انعقاد کی مشروط اجازت دی تو یہ مصلحت تھی کیونکہ ایک سے زیادہ سیاسی جماعتوں کے مشترکہ احتجاج کے لئے پہلے ہی سے سڑک بند کی جا چکی تھی اور تصادم سے بچنے کے لئے عدالت کو ایک ایسا فیصلہ کرنا پڑا‘ جس سے سب کو اُن کی دلی مراد مل جائیں۔ ’پاکستان عوامی تحریک‘ کے مال روڈ پر مذکورہ احتجاجی جلسے میں پاکستان پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کی اعلیٰ قیادت شریک ہوئی جو انوکھی بات تھی۔ اس موقع پر لاہور میں پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کے درمیان پوسٹرز اور بینرز لگانے کے حوالے سے مقابلہ بھی ذرائع ابلاغ میں رپورٹ ہوا۔ یہ (غیرترقیاتی) اخراجات اگر اِن جماعتوں نے خود سے کئے ہیں تو بڑے دل گردے کی بات ہے۔ 

مذکورہ احتجاج انتہائی افسوسناک ’’سانحۂ ماڈل ٹاؤن‘‘ کے چودہ شہداء کے لئے انصاف کی پکار ہے مگر اِس سانحے پر آنسو بہانے والے برقی قمقموں اور رنگ برنگی روشنیوں جلا کر احتجاج کیوں کرتے ہیں؟ احتجاج میں موسیقی (ترانے اور نغمے) کیوں بجائے جاتے ہیں اور احتجاج کے شرکاء کا لہو گرمانے کے لئے بلند ترین آواز میں جدید ساؤنڈ سسٹم کا استعمال کیوں کیا جاتا ہے!؟

لاہور ہائی کورٹ سال دوہزارگیارہ میں شاہراۂ قائداعظم پر مفاد عامہ کے تحت جلسوں جلوسوں پر پابندی عائد کرچکی ہے لیکن اِس عدالتی فیصلے پر عملدرآمد کرانے کی بجائے دوبارہ عدالت سے رجوع کیا گیا جس سے آئین و قانون پر عملداری کا تاثر پختہ نہیں ہوا‘ بلکہ ثابت ہوا ہے کہ پاکستان میں جس کی لاٹھی اُس کی بھینس ہے! پاکستان عوامی تحریک کے احتجاج میں تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی قابل ذکر اور بڑی جماعتیں شامل ہوئیں‘ اُن کے آپسی نظریات میں سیاسی یکسانیت نہیں پائی جاتی ہے۔ 

سیاست میں پیپلزپارٹی‘ تحریک انصاف اور نواز لیگ ایک دوسرے کے لئے عدم برداشت کی ایک تکون بنی ہوئی ہے اور سیاسی اختلافات ذاتیات اور دشمنی تک پہنچے ہوئے ہیں لیکن لاہور میں پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف نے مل کر احتجاج میں شرکت کی‘ جبکہ عین اسی موقع پر بدین میں پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری‘ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو للکار رہے تھے!

پاکستان کی سیاست تضادات کا مجموعہ ہے۔ 
سیاست دان ایک دوسرے پر تنقید کرتے ہیں لیکن درپردہ اُن کے مفادات اور مقصد ’اقتدار کا حصول‘ ہے‘ جس پر اُنہیں کوئی ندامت یا شرمندگی بھی نہیں۔ کیا پاکستان کا عام آدمی (ہم عوام) خاموش تماشائی بن کر قومی وسائل کی تباہی و بربادی کا نظارہ یونہی کرتا رہے گا؟ کیا ہمیں اِس ’’طرزِ اِحتجاج‘‘ پر ’’اِحتجاج‘‘ نہیں کرنا چاہئے‘ جس سے مسائل حل نہیں بلکہ اُن کی شدت بڑھ رہی ہے۔ حب الوطنی کے تقاضے عملی اِظہار چاہتے ہیں۔ سیاسی اشرافیہ سے توقع ہے کہ پاکستان میں انصاف کی ’’بلاامتیاز‘‘ فراہمی‘ قانون کے ’’بلاامتیاز‘‘ نفاذ اور ’’بلاامتیاز‘‘ تعمیروترقی کے ذریعے ملک سنوارنے جیسے اہداف بھی پیش نظر رکھیں۔
۔

No comments:

Post a Comment