ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
جان کی اَمان!
حکومتِ پاکستان نے قانون نافذ کرنے والے اِداروں کے علاؤہ ممنوعہ بور کا ’خودکار‘ اسلحہ رکھنے کو ’’ممنوع‘‘ قرار دیا ہے اور اِس سلسلے میں ’چھبیس دسمبر دوہزار سترہ‘ کو جاری کئے گئے حکمنامے کے ذریعے پورے ملک میں ممنوعہ بور کے اسلحہ لائسینس منسوخ کر دیئے گئے ہیں جبکہ اِن لائسینسوں کی تبدیلی کی حتمی تاریخ رواں ماہ کا اختتام مقرر کی گئی ہے۔
وفاقی وزارت داخلہ کی جانب سے اِس انتہائی اقدام کے سب سے زیادہ منفی اثرات خیبرپختونخوا اور ملحقہ قبائلی علاقوں پر مرتب ہوں گے کیونکہ یہاں امن و امان کی صورتحال ملک کے دیگر حصوں کی نسبت مثالی و یقینی نہیں لیکن کیا ممنوعہ بور کا اسلحہ رکھنا اِس بات کی ضمانت ہو سکتا ہے کہ منظم جرائم پیشہ عناصر یا عسکریت پسند اپنی وارداتیں ترک کر دیں گے؟ اگر معاشرے کے ہر شخص کو اپنا دفاع خود ہی کرنا ہے تو پھر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار کس مرض کی دوا ہیں؟ کیا معاشرے میں صرف اُنہی افراد کو محفوظ رہنے کا حق حاصل ہے جو لاکھوں روپے مالیت کا خودکار اسلحہ اور بھاری فیسوں کے عوض انہیں رکھنے کی مالی سکت رکھتے ہیں؟ وہ عام لوگ (ہم عوام) جن کے پاس اسلحہ خریدنے کی مالی سکت ہی نہیں‘ اُن کی جان و مال کا محافظ کون ہے؟ ایسے بہت سے سوالات سنجیدہ غوروخوض کے متقاضی ہیں!
ایک ایسے پاکستان کا تصور کیجئے جو ہر قسم کے اسلحے سے پاک ہو۔ آبادی کے مراکز امن و امان کی مثال ہو۔ شہر ’’مدینۃ الفاضلہ‘‘ ہوں لیکن اِس مشکل کام کی بجائے فیصلہ سازوں نے اِس بات کو زیادہ آسان سمجھ لیا کہ بااثر اور سرمایہ داروں کو ممنوعہ بور کے اسلحہ لائسینس جاری کر دیئے جائیں اور یوں اسلحہ رکھنا کسی شخصیت کے معاشرے میں اہم (وی آئی پی) ہونے کی نشانی بھی بن گیا!
وفاقی حکومت نے تمام ممنوعہ بور اسلحہ لائسینس رکھنے والوں کو حکم دے دکھا ہے کہ وہ منظورشدہ اسلحہ ڈیلرز یا اسلحہ سازوں کے ذریعے اپنا خودکار اسلحہ تبدیل کروائیں۔ اِس سلسلے میں اسلحہ فروخت کرنے والوں اور اسلحہ سازوں کو بھی حکم دیا گیا تھا کہ وہ متعلقہ ضلعی پولیس آفیسر‘ ڈپٹی کمشنر‘ ڈسٹرکٹ کوآرڈینیشن آفیسر‘ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ یا پھر پولیٹیکل ایجنٹ سے اجازت لینے کے بعد اسلحہ تبدیلی کریں اور یہ عمل رواں ماہ کے اختتام (31 جنوری2018ء) تک بہرصورت مکمل ہو جانا چاہئے۔
حکومت کی جانب سے خودکار بندوق کی قیمت 50 ہزار جبکہ خودکار پستول یا ہینڈ گن کی قیمت 20ہزار روپے مقرر کی گئی۔ اگر خودکار اسلحہ کے مالک مذکورہ متعلقہ حکام میں سے کسی کے دفتر میں اپنا خودکار اسلحہ جمع کرواتے ہیں تو اُنہیں یہ قیمت ادا کی جائے گی۔ تعجب خیز ہے کہ خودکار درآمد شدہ بندوق کی قیمت پانچ سے دس لاکھ کے درمیان تک ہو سکتی ہے لیکن اُسے حکومت کو واپس کرنے کی صورت پچاس ہزار روپے ادا کئے جائیں گے۔ اِسی طرح کون پسند کرے گا کہ وہ ایک سے پانچ لاکھ روپے مالیت کا خودکار پستول بیس ہزار روپے کے عوض حکومت کے حوالے کر دے!
اسلحہ لائسینسوں کی تبدیلی اور اُن کی ردوبدل کا اختیار ’نیشنل ڈیٹابیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا)‘ کو دیا گیا ہے۔ یہ پورا قضیہ اِن دنوں ’پشاور ہائی کورٹ‘ کے دو رکنی بینچ (جسٹس قلندر علی خان اور جسٹس محمد ایوب خان) کے سامنے پیش نظر ہے جنہوں نے ’سترہ جنوری دوہزاٹھارہ‘ کے روز ’وفاقی وزارت داخلہ‘ سے ممنوعہ بور اسلحہ لائسینسوں کو ممنوع قرار ختم کرنے آئندہ دو ہفتوں میں وضاحت طلب کی ہے۔
پاکستان میں قریب 90 ہزار ممنوعہ بور کے خودکار ’اسلحہ لائسینس ہولڈز‘ ہیں لیکن چونکہ اِن لوگوں نے باضابطہ اور قانون کے مطابق اسلحے کی ملکیت رکھنے کے اجازت نامے حاصل کر رکھے ہیں‘ اِس لئے اِنہیں سماج دشمن قرار نہیں دیا جاسکتا۔ جان کی امان چاہتے ہوئے عرض ہے کہ معاشرے میں اسلحہ رکھنے کا رجحان اور طلب کی وجہ وہ افراد (عناصر) ہیں‘ جنہوں نے اسلحہ جرائم اور دہشت گردی کے لئے خرید رکھا ہے اور خیبرپختونخوا و ملحقہ قبائلی علاقوں میں آج بھی ممنوعہ سے انتہائی ممنوعہ اور بھاری ہتھیاروں کی خریداری ناممکن یا مشکل نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قبائلی علاقوں کی امتیازی حیثیت تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا جاتا ہے تاکہ اسلحے کی فروخت کی یہ منڈیاں اور امکانات ختم کئے جا سکیں۔ یقیناًایک مرحلے پر پہنچ کر پورے پاکستان میں ہر قسم کا اسلحہ ممنوع قرار دینے میں کوئی حرج (مضائقہ) نہیں لیکن اُس سے قبل وفاقی حکومت کو اپنی بنیادی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے ’اسلحے کی خریدوفروخت کے اُس غیرقانونی کاروبار پر پوری قوت سے ہاتھ ڈالنا ہوگا‘ جو اربوں روپے مالیت کا دھندا ہے اور اِس میں ملوث افراد سیاسی اثرورسوخ و غیرمعمولی مالی حیثیت کے مالک ہو چکے ہیں۔ قبائلی اور بندوبستی علاقوں میں انتظامی عہدوں پر فائز سرکاری اہلکاروں کی مالی حیثیت کا اگر احتساب کیا جائے تو معلوم ہو جائے گا کہ ذاتی مفادات کے لئے پاکستان کو غیرمحفوظ بنانے والوں میں کتنے اعلیٰ سرکاری اہلکار شامل ہیں۔
ممنوعہ بور کا اسلحہ رکھنے والے اگر رواں ماہ کے اختتام سے قبل اپنا اسلحہ لائسینس ممنوعہ بور سے تبدیل نہیں کراتے تو اُن کے لائسینس منسوخ کرنے جیسے انتہائی اقدام کا فیصلہ بھی کر لیا گیا ہے جبکہ سانحۂ آرمی پبلک سکول (سولہ دسمبر دوہزار چودہ) کے بعد بڑے پیمانے پر صرف تعلیمی اِداروں کے محافظین ہی کو نہیں بلکہ مالکان اُور اساتذہ کرام کو بھی اسلحہ استعمال کرنے کی خصوصی تربیت اور لائسینس جاری کئے گئے تھے۔ وقت نے ثابت کیا ہے کہ وہ ایک جلدبازی میں کیا گیا فیصلہ تھا جبکہ سیاسی اثرورسوخ رکھنے والوں کو اِس قسم کے کسی موقع غنیمت کی ضرورت نہیں ہوتی اور وہ اراکین اسمبلی کے ذریعے ممنوعہ بور کے خودکار لائسینس حاصل کر لیتے ہیں۔
اُنیس سو اٹھاسی سے قومی سیاست میں حصہ لینے والے شاہد خاقان عباسی جب ’اگست دوہزار سترہ‘ میں وزیراعظم بنے تو اُنہوں نے جن اہم مسائل کے بارے میں قومی اسمبلی اجلاس کے دوران اظہار خیال کیا‘ اُن میں ممنوعہ و غیرممنوعہ بور کے اسلحہ لائسینس کا معاملہ بھی شامل تھا اور وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان ’آرمز فری‘ ملک ہو‘ جہاں اسلحہ صرف اور صرف قانون نافذ کرنے کے اِداروں کے اہلکاروں کے پاس ہونا چاہئے۔ یہ تعمیری اور خوش آئند تصور ہے کیونکہ پاکستان کے تناظر میں بات ہو رہی ہے اور حقیقت یہی ہے کہ اَسلحہ ساخت کے لحاظ سے چاہے ممنوعہ ہو یا غیرممنوعہ‘ بہرصورت اِس کی ملکیت و نمائش ’ممنوع‘ ہونی چاہئے اور یہی امر وسیع بنیادوں پر امن کی ضمانت بن سکتا ہے کہ ہم میں سے ہر خاص و عام‘ کی زبان اور اسلحے کی شرانگیزیوں سے دوسرے محفوظ و مامون رہیں۔
۔
No comments:
Post a Comment