Thursday, January 18, 2018

Jan 2018: Ever changing political ideas!

مہمان کالم
نت نئے سیاسی تصورات!
گردش زندگی کی علامت ہے اور سیاست کا محور مفادات ہوتے ہیں! 

پاکستان عوامی تحریک کے شانہ بشانہ کھڑی پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کی نظریں صوبہ پنجاب کے طول و عرض میں اُس ’بریلوی ووٹ بینک‘ پر جمی ہیں‘ جو رواں برس متوقع عام انتخابات میں فیصلہ کن کردار ادا کرسکتا ہے۔ اب تک کے ضمنی انتخابی نتائج سے بھی یہی ثابت ہوا ہے کہ اگر مذہبی اور سیاسی جماعتیں اتحاد کر لیں تو ’بریلوی ووٹ بینک‘ کسی بھی انتخابی مقابلے کے نتائج اُلٹ پلٹ سکتا ہے۔ 

غیرفطری انتخابی اتحاد میں پاکستان کے لئے ’’اچھی خبر‘‘ تلاش کرنے والے عام آدمی (ہم عوام) کو آئندہ عام انتخابات سے بھی مایوسی ہی ہاتھ آئے گی کیونکہ موجودہ انتخابی و پارلیمانی نظام سے اُمیدیں وابستہ کرنا اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔ موجودہ سیاسی منظرنامے اور نت نئے سیاسی تصورات سے کوئی اِتفاق کرے یا نہ کرے لیکن آصف علی زرداری سمجھتے ہیں کہ اُن میں ’بھٹو‘ کی روح منتقل ہو چکی ہے اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین کا یہ دعویٰ غیرمعمولی ہے گویا بھٹو کی ’روح‘ وہ آخری ’قیمتی چیز‘ تھی جس کو کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچا مگر اب اُس پر بھی آصف علی زرداری کی دعویداری سامنے آگئی ہے اور ایک طبقے کا خیال ہے کہ ’’بھٹو کی جائیداد اور خاندان کی طرح اُن کی روح پر بھی قبضہ ہوگیا ہے۔‘‘ اِس سے پہلے بھٹو کی سیاست‘ ملک گیر بڑی سیاسی جماعت‘ آبائی ملکیت و جائیداد‘ بھٹو کی ذات‘ نعرے‘ بھٹو کے شیدائی‘ حتیٰ کہ جیالے بھی زرداری کے قابو آچکے ہیں!

بھٹو کی روح کسی انسان میں آنے سے کئی تبدیلیاں رونما ہوسکتی ہیں۔ کیا پتہ اِسی روح کی بدولت مستقبل قریب میں ’آصف علی بھٹو زرداری‘ جیسا نام سننے کو ملے۔ یہ بھی عین ممکن ہے کہ چند ہفتوں‘ مہینوں یا ایک دو سال روح کی سینیارٹی دیکھ کر آصف علی زرداری خود کو پورے کا پورے ذوالفقار بھٹو ہی سمجھ بیٹھیں اور کسی دن اسٹیج سے اعلان ہوکہ ہم نہ کہتے تھے کہ ’’بھٹو زندہ ہے‘‘ لو جی میں وہی بھٹو ہوں جو آپ کے سامنے زندہ کھڑا ہے!

آصف علی زرداری کو پاکستان کے ’’نیلسن منڈیلا‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ خودساختہ اعزاز اُن کے وسیع مطالعے کا نچوڑ ہے۔ جنوبی افریقہ کے لوگ ’منڈیلا‘ کو ادب سے ’مادیبا (معزز بزرگ)‘ پکارتے ہیں۔‘ پچانوے برس کی عمر میں ’5 دسمبر 2013ء‘ کے روز فوت ہونے والے ’سیاہ فام مادیبا‘ کی تدفین آبائی گاؤں ’’کونو (Qunu)‘‘ میں کی گئی جبکہ شہید ذوالفقار بھٹو گڑھی خدا بخش میں مدفون ہیں۔ اب یہ معلوم نہیں کہ جب زرداری (پاکستانی مادیبا) بھٹو کی روح سے متعلق اِعلان کر رہے تھے تو جنوبی اَفریقہ کے مادیبا اُور گڑھی خدا بخش کی قبروں میں زیادہ بھونچال کہاں آیا ہوگا!

کسی سیاست دان میں سیاستدان ہی کی روح کا سرائت کرنا نئی بات نہیں‘ کچھ اِس کا اعلان کردیتے ہیں اور کچھ اپنے اعمال سے ظاہر کردیتے ہیں مثلاً میاں نواز شریف میں کس کی روح ہے؟ جی بالکل آپ کا جواب درست ہے لیکن میاں صاحب اب اِس روح سے جان چھڑانے کے چکر میں ہیں‘ جسے ’’چودھری نثار‘‘ نے مرشد بنا رکھا ہے۔ اِس تناظر میں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ کی روحیں بھی تحقیق چاہتی ہیں‘ جن کا سیاسی سفر نظریاتی تضادات کا مجموعہ ہے! سچ تو یہ ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو جس نے سیاست کو پیروں کی گدیوں‘ وڈیروں کی خوابگاہوں‘ نوابوں کے ڈیروں‘ سرداروں کے بنگلوں اُور بڑے بڑے ڈرائنگ رومز سے نکال کر گلی کوچوں میں عام کردیا۔ وہ بھٹو جس نے عوام کو زبان دی‘ ووٹ کا حق دیا‘ پاکستان کو آج بھی اُس بھٹو کی ضرورت محسوس کرنے والوں نے جس جسم کا اِنتخاب کیا ہے وہ عوامی سیاست کو پھر سے ڈرائنگ روم کی زینت بنا دے گا۔ 

بھٹو کی محنت اور قربانیوں کا یہ صلہ ہرگز ہرگز نہیں ہوسکتا کہ ہم اُنہیں کسی ایسے شخص کے روپ میں دیکھیں جو پانچ سال تک صدر ہونے کی وجہ سے استثنیٰ کی چھتری تلے چھپا رہا اور اندرون و بیرون ملک اثاثہ جات اور وسائل سے بڑھ کر مالی حیثیت کے مالک ہیں۔ بھٹو وہ عظیم سیاسی کردار تھا‘ جس پر لفظ سیاست دان کا پورا اطلاق ہوتا تھا۔ اُنہوں نے ’اقتدار اور کرسی کو لات مار کر‘ عوام کو طاقت کا سرچشمہ قرار دیا لیکن اُن کی ذات اور روح کی ترجمانی کے دعویدار ایوانِ صدر میں پانچ برس تک عوام سے روپوش رہے۔ اِس ’مرحلۂ فکر‘ پر جس ’بے چین وجود‘ کی بات ہو رہی ہے‘ اُس نے پیپلز پارٹی کو ’کراچی سے کشمیر‘ تک پھیلانے کے بعد سمندر کوزے میں بند کردیا ہے اور اب پیپلز پارٹی کی حالت سب کے سامنے ہے‘ جسے طاہرالقادری جیسے کندھے کی ضرورت پڑ گئی ہے!

’بھٹو کا نعرہ‘ گونج رہا ہے‘ روح بھی آ گئی ہے لیکن وہ منشور‘ فکر‘ پروگرام اُور دانش کہاں چلی گئی‘ جس سے عام آدمی (ہم عوام) کا مفاد اور اُمیدیں وابستہ ہیں!؟ 

سیاست کی سیڑھی ہے‘ جھوٹے وعدے ہیں‘ جھانسے اور تمام راستوں کا اختتام ایوانِ اقتدار پر ہوتا ہے۔ اِس کے لئے اقدار‘ اصول سب کچھ پیچھے رہ گیا۔ اب تو پیپلز پارٹی پر ایسا وقت آگیا ہے کہ بھٹو کی روح کے دعویدار کے سامنے طاہر القادری بھی اِس دور کے نوابزادہ نصراللہ بن چکے ہیں‘ یہ وہ تیسری روح ہے جو اِن دنوں تڑپ اُٹھی ہوگی۔ طاہر القادری کسی تعارف کے محتاج نہیں جنہیں ماڈل ٹاؤن سانحے کی صورت ایک نادر موقع ہاتھ آ گیا ہے۔ خلاصۂ کلام یہ ہے کہ آصف علی زرداری تو خود اپنا جسم عطیہ کرچکے ہیں‘ تو اُن کی رحلت کے بعد بھٹو کی روح کا کیا بنے گا؟
۔
http://epaper.dailyaaj.com.pk/index.php?city=peshawar&page=20&date=2018-01-18

No comments:

Post a Comment