ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
سفر در سفر: انصاف کی تلاش!
’سانحہ دَر سانحہ‘ یہ ہے کہ ’سولہ دسمبر دوہزار چودہ‘ سے ’سولہ جنوری دوہزار اَٹھارہ‘ (تین سال ایک ماہ یا ایک ہزار ایک سو ستائیس دن) کے سفر میں ’آرمی پبلک سکول ’اے پی ایس‘ (پشاور)‘ پر دہشت گرد حملے کے حقائق منظرعام پر نہیں آ سکے ہیں! متاثرہ والدین کے زخم تازہ اور غم زدہ خاندانوں کے آنسو خشک نہیں ہو رہے کیونکہ تفتیشی اِدارے ’پراسرار خاموشی‘ اختیار کئے ہوئے ہیں۔ اِس سکوت کو توڑنے کی کوشش میں ’پشاور ہائی کورٹ (عدالت عالیہ)‘ سے رجوع کیا گیا تو دو رکنی بینچ (جسٹس روح الامین اور جسٹس یونس تھیم) نے سولہ جنوری دوہزار اٹھارہ کے روز خیبرپختونخوا حکومت اور صوبائی پولیس کے ادارے کو حکم دیا ہے کہ وہ اکتیس جنوری تک ’سانحۂ اے پی ایس‘ کے حوالے سے ہوئی تحقیقاتی پیشرفت عدالت میں پیش کریں۔‘‘ جسٹس روح الامین نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ’’اے پی ایس حملے سے متعلق تفتیشی عمل کو یہ کہتے ہوئے ’معطل‘ کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی کہ یہ حساس معاملہ ہے۔‘ حقیقت تو یہ ہے کہ حساس معاملات زیادہ تفتیش اور تحقیقات کے متقاضی ہوتے ہیں لیکن جس ایک سانحے میں ایک سو سے زائد معصوم بچوں کو قتل کر دیا گیا ہو اور جس انداز میں خاص تعلیمی ادارے کونشانہ بنایا گیا ہو‘ اُس حملے کے جملہ کردار‘ منصوبہ بندی اور عملی جامہ پہنانے میں سہولت کار عوامل کے بارے میں تفصیلات جاننا نہ صرف متاثرہ والدین بلکہ ہر اُس پاکستانی کا حق ہے‘ جس نے بچوں کے اِس ’’قتل عام‘‘ کا دُکھ اپنے دل کے نہایت ہی قریب محسوس کیا اور آج بھی بچوں کی یاد میں اُس کی آنکھیں بھر آتی ہیں۔ ’سانحۂ اے پی ایس‘ کے بعد کئی ہفتے ذرائع ابلاغ اُس بدقسمت دن کی یاد میں شریک رہے۔ قومی سطح پر رونے دھونے کا عمل جاری رہا۔ تفریحی ٹیلی ویژن کے ’مارننگ شوز‘ سے لیکر صحافتی ٹیلی ویژن کے نشرئیوں تک‘ ہر پروگرام کا اختتام حقائق جاننے کے مطالبے پر ختم ہوتا تھا لیکن افسوس کہ ابھی معصوم قبروں پر پڑی ہوئی مٹی پوری طرح خشک بھی نہیں ہوئی کہ اُن قربانیوں کو بھلا دیا گیا‘ جو انسداد دہشت گردی کی کوششوں کے لئے رہنما ثابت ہو سکتیں تھیں۔ اَصولی طور پر ’سانحۂ اے پی ایس‘ کی برسی کے موقع پر ہی تفصیلی تفتیشی رپورٹ جاری کر دینی چاہئے تھی لیکن شاید یہ سوچتے ہوئے وقت گزارنے کو ترجیح دی گئی کہ دیگر سانحات کی طرح قوم اِسے بھی (جلد یا بدیر) بھلا ہی دے گی!
جسٹس روح الامین کے یہ الفاظ حقائق کی پورے پاکستان کی ترجمانی کرتے ہیں کہ ’’اے پی ایس میں شہید ہونے والے ’قوم کے بچے‘ تھے جنہیں بھلایا نہیں جاسکتا اور قوم کو یہ جاننے کا حق ہے کہ اب تک متاثرہ خاندانوں کو انصاف فراہم کرنے کے لئے کیا اقدامات کئے گئے ہیں؟‘‘ عدالت عالیہ کے روبرو درخواست گزاروں (اجون خان اور فضل خان) کی جانب سے سینیئر وکیل عبدالطیف آفریدی نے مؤقف پیش کیا کہ ’’سانحۂ اے پی ایس کی بذریعہ ’جوڈیشل کمیشن‘ تفتیش چاہتے ہیں‘ اگر ایسا ممکن نہیں تو پھر نیا مقدمہ (ایف آئی آر) درج کیا جائے اور اگر یہ بھی ممکن نہیں تو پھر کم سے کم متاثرہ خاندانوں کے بیانات ہی قلمبند کئے جائیں۔‘‘
سچ تو یہ ہے کہ اب تک متاثرہ خاندان کے کسی ایک بھی فرد کا بیان ریکارڈ نہیں کیا گیا اور اِس کوتاہی کی صرف صوبائی ہی نہیں بلکہ وفاقی حکومت بھی یکساں ذمہ دار ہے۔ بنیادی سوال اب بھی وہی ہے کہ اگر حملہ آوروں کی تعداد صرف سات تھی تو اُن پر قابو پانے میں اس قدر وقت کیوں لگا؟ حملہ آور سکول کے اندر گھنٹوں کس طرح دہشت گردی کرتے رہے اور وہ اتنے بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصانات کا باعث کیسے بنے جبکہ قانون نافذ کرنے والے ایک سے زائد اِدارے مبینہ طور پر چند منٹ میں اُن کے سروں پر پہنچ چکے تھے؟ سوال یہ بھی ہے کہ اگر فوج کا اپنا تعلیمی ادارہ اِس قدر غیرمحفوظ تھا تو دیگر تعلیمی ادارے کس طرح سیکورٹی کے اُس کم سے کم معیار پر پورا اُترتے ہیں‘ جہاں ہم انہیں محفوظ قرار دیا جا سکے؟
’سانحۂ اے پی ایس‘ نے پشاور پولیس کی کارکردگی کا پول کھول دیا۔ دہشت گردوں کے سہولت کاروں نے ہدف کے انتخاب سے کئی ہفتوں تک منصوبہ بندی اور بعدازاں حملہ آوروں کو سکول تک پہنچنے کی رہنمائی اور معاونت کو عملی جامہ پہنایا لیکن ہمارے خفیہ ادارے اِس پوری منصوبہ بندی سے لاعلم رہے! اِس کا مطلب تو یہ ہوا کہ دہشت گرد ہمارے تربیت یافتہ اور ہر قسم کے وسائل‘ اختیارات و مراعات رکھنے والوں اہلکاروں سے ’زیادہ منظم‘ ہیں‘ جن کے ’نیٹ ورک (پنجے)‘ ہمارے شہری علاقوں میں پھیلے ہوئے ہیں!
’سانحۂ اے پی ایس‘ کے بارے میں تفتیش نہ کرنے کا سبب یہ بھی ہے کہ اِس سے پولیس اور بالخصوص خفیہ اداروں کی نااہلی دستاویزی طور پر ظاہر ہو جائے گی۔ دہشت گردوں نے تو جو کچھ ثابت کرنا تھا وہ کرچکے ہیں‘ محل تھا کہ ہمارے قانون نافذ کرنے والے اِدارے اپنی صلاحیت‘ اہلیت اور قابلیت ثابت کرتے اور اے کاش کہ ایسا ہوتا۔ متاثرہ والدین یہ سوال پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ عمومی پولیس کے علاؤہ ’انسداد دہشت گردی‘ کے لئے خصوصی تربیت یافتہ دستے اُس بدقسمت دن (سولہ دسمبر دوہزار چودہ) کہاں تھے؟
کہیں ایسا تو نہیں کہ پولیس کے چاق و چوبند اور انتہائی تربیت یافتہ اہلکاروں کو اہم شخصیات (وی وی آئی پیز)‘ اُن کے اہل خانہ اور رہائشگاہوں کی سیکورٹی کی حد تک محدود رکھا گیا ہے؟ سوالات کی جو گونج ’عدالت عالیہ‘ میں جا پہنچی ہے اُس میں سرکاری اِداروں کا شرمناک کردار بھی واضح ہے کہ متاثرہ والدین کو اَب تک یہ بھی معلوم نہیں ہوسکا کہ ’سانحۂ اَے پی اَیس‘ کی تفتیش ’دراصل کس کی ذمہ داری ہے۔‘ صوبائی حکومت خود کو بری الذمہ سمجھتی ہے۔ وفاق معاملے کو صوبائی حکومت کی طرف اُچھال چکا ہے اور خصوصی فوجی عدالتیں جو کہ انسداد دہشت گردی کا فریضہ سرانجام دے رہی ہیں‘ عام آدمی کی دسترس میں نہیں کہ اُن سے کچھ بھی پوچھا جا سکے۔ کیا ’اے پی ایس‘ کے شہیدوں کی قربانیاں رائیگاں تصور کی جائیں؟ کیا متاثرہ خاندانوں کی تسلی و تشفی ہو پائے گی؟ اِنصاف کے منتظر صرف ’سانحہ اے پی ایس کے متاثرین نہیں بلکہ پورا پاکستان ہے!
’’خنجر بیداد کو کیا دیکھتے ہو دم بدم ۔۔۔
چشم سے انصاف کی سینے ہمارے دیکھیے۔ (میر تقی میرؔ )‘‘
۔
![]() |
http://epaper.dailyaaj.com.pk/index.php?city=peshawar&page=20&date=2018-01-18 |
No comments:
Post a Comment