Wednesday, January 17, 2018

Jan 2018: Crimes against kids - SOLUTION is education!

کالم کہانی
خاموشی: علاج غم!
پاکستان اَبھی ’قصور سانحے‘ کے صدمے ہی سے باہر نہیں آیا کہ اِس قسم کے مزید افسوسناک واقعات تسلسل سے رپورٹ ہونا شروع ہو گئے ہیں! جس کی بڑی وجہ ذرائع ابلاغ کی توجہ بھی ہے۔ ماضی میں اِس قسم کے واقعات رپورٹ نہ ہونے کی وجہ سے تاثر عام ہوا کہ جیسے سب ٹھیک ہے لیکن بچوں کے خلاف جرائم ہر حد سے تجاوز کر چکے ہیں!

منڈی بہاؤ الدین میں نوعمر لڑکوں سے زیادتی کی ویڈیو بنانے والے گروہ کا انکشاف‘ جو بچوں سے زیادتی کے بعد بھتہ وصول کرتا تھا۔ سانگلہ ہل میں دس سالہ لڑکے سے زیادتی‘ کراچی میں پانچ انسان نما درندوں کی تیرہ سالہ لڑکی سے تین روز تک زیادتی‘ ٹوبہ ٹیک سنگھ‘ کنجوال‘ سیالکوٹ اور کامونکے میں آٹھ سالہ لڑکی اور تین لڑکے ہوس کا نشانہ بنے۔ ایک ہفتے کے دوران منظرعام پر آنے والے اِن چند واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ بچے محفوظ نہیں اور یہ مسئلہ زیادہ گھمبیر ہوچکا ہے جو سنجیدہ توجہ کا متقاضی ہے۔

تسلیم کر لیا گیا ہے کہ ماضی کی طرح بچوں کے خلاف جرائم پر خاموشی اختیار کرکے اِس معاملے کو حل نہیں کیا جاسکتا بلکہ حکومتی اداروں‘ پولیس اور سماجی مصلحین کو مل بیٹھ کر کوئی ایسا قابل عمل حل تلاش کرنا ہوگا‘ جو اسلامی تعلیمات‘ روایات و ثقافت اور ایک ایسے کم خواندہ معاشرے میں مزید تخریب (خرابی) کا باعث نہ بنے‘ کیونکہ مغربی افکار سے متاثر افراد کی کوشش ہے کہ فوری طور پر جنسی موضوعات سے متعلق تعلیم کو نصاب کاجز بنا دیا جائے لیکن ایسا کرنے کے اثرات اور مضمرات بھی دیکھنا ہوں گے اور کیا ہمارے ہاں معلم اس قدر تربیت یافتہ ہیں کہ وہ اپنا کردار ادا کرسکیں؟

سوچنا ہوگا کہ ماضی میں مغربی اور بھارتی ذرائع ابلاغ کے تیارکردہ پروگراموں کو پاکستان میں کیبل نیٹ ورکس کے ذریعے تشہیر کی اجازت دی گئی۔ ڈائریکٹ ٹو ہوم (ڈی ٹی ایچ) غیرقانونی ہونے کے علاؤہ سرعام فروخت ہوتا رہا۔ بھارتی نشریات آج بھی پورے ملک میں دیکھی جا رہی ہیں اور اب جبکہ وفاقی حکومت کی جانب سے بظاہر پابندی عائد کر دی گئی ہے لیکن پاکستانی تفریحی چینلز پھر بھی بھارتی ثقافت اور اُن موضوعات کو عام کر رہے ہیں‘ جو ایک خاص معاشرے‘ خاص آمدن اور خواندگی کی ایک خاص سطح پر رہنے والوں سے متعلق ہیں۔ پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کو دیکھنا چاہئے کہ وہ ’ڈی ٹی ایچ‘ پر پابندی کے اطلاق کو کس طرح مؤثر بناتی ہے اور جو پاکستانی چینلز بھارتی مواد (پروگرام) نشر کر رہے ہیں‘ اُنہیں کس طرح قواعد و ضوابط کے سخت گیر اطلاق سے باز رکھا جا سکتا ہے۔

بچوں کے خلاف عمومی و خصوصی جرائم کا تعلق کسی ایک صوبے‘ شہر یا طبقے سے نہیں بلکہ یہ ملک گیر مسئلہ ہے‘ جس کا تعلق ’تربیت‘ سے ہے اور ہمارے ہاں سارے کا سارا زور ’تعلیم‘ پر مرکوز ہے۔ معاشرے کی کسی بھی سطح پر ’بچوں کی تربیت‘ اور انہیں لاحق خطرات کے بارے زیادہ بات کرنا پسند نہیں کی جاتی۔ بچوں کو تحفظ دینے کے لئے جہاں خصوصی قانون سازی کی ضرورت محسوس کی ہونے لگی ہے وہیں پولیس کی اصلاح کا مطالبہ بھی زور پکڑ رہا ہے۔

ماضی میں جرائم پیشہ عناصر کو پولیس کا خوف ہوا کرتا تھا لیکن اب ایسا نہیں رہا بلکہ منظم جرائم میں پولیس اہلکاروں اور وسائل کے ملوث ہونے کی خبریں معمول بن چکی ہیں۔ کئی ایسے پولیس اہلکاروں کی نشاندہی بھی ہو چکی ہے‘ جنہوں نے اپنے پیشے کی تعظیم نہیں کی۔ یہی وجہ ہے کہ جرائم پیشہ عناصر تھانے‘ کچہری اور جیل کا خوف محسوس نہیں کر رہے۔ پولیس ایسی ہونی چاہئے کہ وہ مستعدی سے مجرم کو عین اس وقت دبوچنے کی صلاحیت رکھتی ہوجب جرم کا ارتکاب ہورہا ہو۔ اِس سلسلے میں خفیہ اداروں کے نیٹ ورک کی فعالیت اور کسی علاقے میں جرائم پیشہ عناصر کی سرگرمیوں پر مستقل نظر رکھنے کو ماضی کی طرح معمول بنانا ہوگا۔

صوبائی دارالحکومت لاہور سے قریب چالیس منٹ کے فاصلے پر قصور شہر کا ’’زینب کیس‘‘ آٹھ روز گزرنے کے باوجود بھی حل نہیں ہوسکا جبکہ ایک سے زیادہ ’سی سی ٹی وی‘ ویڈیوز بھی سامنے آ چکی ہیں جن میں مجرم کا چہرہ شناخت کیا جاسکتا ہے۔ معاشرے میں ناسور کی طرح پھیلتی برائیوں کی روک تھام اور بالخصوص بچوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے سماجی سطح پر رویئے تبدیل کرنے کے لئے مساجد‘ عمومی تعلیمی درسگاہوں اور ذرائع ابلاغ سے استفادہ ہونا چاہئے۔ قابل غور ہے کہ چند عشرے پہلے تک معاشرے کی ہر سطح پر جو اُنس پایا جاتا تھا وہ اَب دیکھنے میں آرہا۔ برسوں ساتھ رہنے کے باوجود بھی آج ہمیں علم نہیں ہوتا کہ ہمارے ہمسائے میں کون رہائش پذیر ہے یا اُس کا ذریعۂ معاش کیا ہے۔

ماضی کے گلی محلوں میں ایسے بزرگ ہوا کرتے تھے‘ جن کی ہر آنے جانے والے اور گردوپیش پر نظر رہتی بلکہ ایسے بزرگوں کی موجودگی پورے سماج کو ایک دوسرے سے جوڑے رکھتی تھی اور لوگ مشکل میں ایک دوسرے کے کام آتے تھے لیکن پھیلتے شہروں نے رشتوں اور رشتے داریوں کو سمیٹ دیا ہے۔ آج بھرے بازار‘ دن دیہاڑے اور آنکھوں کے سامنے وارداتیں ہورہی ہیں لیکن کوئی ٹس سے مس نہیں ہو رہا‘ جب تک اس سلسلے میں معاشرتی اور ریاستی سطح پر ہمہ گیر اقدامات نہیں کئے جائیں گے۔

بچے اور بچیاں زیادتی کا شکار اور زندگی سے ہاتھ دھوتی رہیں گی۔ جمہوری اسلامی ایران کی طرح بچوں کے خلاف جرائم میں ملوث مجرموں کو سرعام پھانسی دینے جیسی عبرت ناک سزا رائج کرکے بھی قانون کا خوف مستحکم بنایا جا سکتا ہے جس کے لئے قانون سازی بہرصورت حکومت کی معاونت سے ہماری مقننہ ہی نے کرنی ہے لیکن افسوس کہ قانون ساز ایوانوں کے اراکین کو ایک دوسرے کو نیچا دکھانے یا پھر اپنی اپنی سیاست بچانے سے آگے سوچنے کی فرصت نہیں!
۔

No comments:

Post a Comment