Wednesday, January 17, 2018

Jan 2018: Tourism & Tourism Development

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
سیاحت: بحالی اُور ترقی!
خیبرپختونخوا میں ’سیاحتی ترقی‘ کے لامحدود اِمکانات تو موجود ہیں‘ تاہم نئے مقامات متعارف کرانے کی بجائے ہم تاحال اِس قابل نہیں ہو سکے کہ پہلے سے موجود مقامات ہی کو اُن کی اہمیت کے مطابق مکمل بحال کر سکیں‘ بالخصوص وہ سیاحتی مقامات جنہوں ماضی میں دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا‘ اُن کی بحالی تو اوّلین ترجیح ہونی چاہئے تھی۔ اِس موقع پر امریکہ کی جانب سے دی جانے والی وہ ’’33 ارب ڈالر‘‘ کی اِمداد بھی یاد آ رہی ہے‘ جس کا ایک بڑا حصہ دہشت گردی سے ہوئے نقصانات کے ازالے کے لئے ادا کیا گیا لیکن بدقسمتی سے یہ معلوم ہوسکا کہ اِس قدر خطیر رقم کس کنویں میں ڈال دی گئی!

سوات کا معروف سیاحتی و تفریحی مقام ’مالم جبہ‘ اپنی نوعیت کا منفرد اور قدرتی طور پر ایسی خوبیوں کا مجموعہ ہے کہ یہاں کی ایک مرتبہ سیر کرنے والے بار بار آنے سے خود کو نہیں روک سکتے۔ ’مالم جبہ‘ کی بحالی کا وعدہ تو پورا کر دیا گیا ہے جہاں کی رونقیں بھی بحال ہوتی دیکھی جا سکتی ہیں اور سیاحوں کی بھیڑ اِس قدر دیکھنے میں آ رہی ہے کہ سکون اور خاموشی کی تلاش میں یہاں آنے والوں کومایوسی ہوتی ہے۔ درحقیقت ہمارے معاشرتی رویئے اِس قسم ہیں کہ جہاں لکھا ہو کہ یہاں ہارن بجانا منع ہے‘ وہیں سب سے زیادہ ہارن بجائے جاتے ہیں۔ جہاں ’نو پارکنگ‘ لکھا ہو وہیں گاڑیاں کھڑی ملتی ہیں! ایسی بہت سی مثالیں ہمارے اردگرد پھیلی ہیں جن کا سب سے تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ جسمانی معذوروں کے لئے پہلے تو جگہیں مختص نہیں کی جاتیں اور جہاں ایسا کیا بھی جاتا ہے تو اُس کا لحاظ نہیں رکھا جاتا۔ 

مالم جبہ سمیت صوبائی حکومت گلیات اور دیگر سیاحتی مقامات پر جہاں کہیں بھی ترقی کر رہی ہے اُس میں خصوصی (معذور) افراد کی ضروریات اور سہولیات کا بطور خاص خیال رکھنا چاہئے۔

سوات میں امن و امان کی بحالی سے معمولات زندگی تیزی سے بہتر ہو رہے ہیں۔ مقامی لوگوں کے ساتھ سیاحوں کا اعتماد بھی بڑھ رہا ہے اور اِس کارنامے کا سہرا ’پاک فوج‘ کے سر ہے‘ جس کی منظم منصوبہ بندی سے عسکریت پسندوں کی طاقت کے مراکز ختم ہوئے لیکن وہ منتشر ہیں اور بہرحال ننگی تلوار کی طرح سروں پر منڈلا رہے ہیں! مقام شکر ہے کہ سوات کی پہچان اب عسکریت پسند نہیں رہے بلکہ وہاں کے سیاحتی مقامات ہیں‘ جہاں اسلحے کی بجائے بیش قیمت موبائل فون لئے سیاح لطف اندوز ہوتے دکھائی دیتے ہیں اور اچھی یادیں بطور سوغات اپنے ساتھ لے جا رہے ہیں!

وادئ سوات میں چند ماہ سے سیاحوں کی آمد اور بالخصوص مینگورہ شہر اور مضافاتی علاقوں میں سیاحوں کی مصروفیات نیک شگون ہے۔ یہاں سے ملک کا زمینی رابطہ بھی پہلے سے زیادہ وسیع ہو چکا ہے اور اب قریب چوبیس گھنٹے سفری سہولیات دستیاب رہتی ہیں۔ پولیس اور فوج کی نگرانی ہر طرف موجود ہے‘ جو رش کی اوقات میں ٹریفک جام کا سبب بنتی ہے لیکن اگر وسیع النظری سے سوچا جائے تو امن اور انسانی جانوں کے لئے خطرہ بننے والوں کو کوئی بھی چال چلنے کا موقع نہ دینا ہی دانشمندی ہے۔ سوات میں حالات معمول پر آ گئے ہیں‘ یہ بات سوفیصد درست نہیں ہوگی لیکن یہ کہنا کہ حالات تیزی سے معمول پر آ رہے ہیں سوفیصد درست ہے اور اِس کے کئی ایک محرکات میں یہ بات بھی شامل ہے کہ یہاں کے مقامی باشندوں نے اپنی ہمدردیاں اور تعلق پر ’’نظرثانی‘‘ کر لی ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ عسکریت پسندی اور انتہاء پسندی کے دُکھ کیا ہوتے ہیں اور وہ ماضی کی غلطیوں سے سبق بھی سیکھ چکے ہیں۔

کثیرالثقافتی علاقہ ہونے کی وجہ سے ’’مالم جبہ‘‘ سیر و سیاحت کے لئے نہایت ہی موزوں علاقہ تصور کیا جاتا ہے تاہم رابطہ سڑک کی خستہ حالی سارے مزے کو خراب کر دیتی ہے۔ خود کو قدرت کے قریب پانے والے سیاح سہولیات کے فقدان کا شکایت کرتے ہیں اور ایسی بہت سی شکایات کا ازالہ صرف اور صرف ایک ہی صورت ممکن ہے جبکہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک کو ہمراہ لئے ’مالم جبہ‘ کا اچانک دورہ کریں اور بذریعہ ہیلی کاپٹر قدم رنجہ نہ فرمائیں بلکہ سڑک کے راستے سفر کریں تاکہ اُنہیں حقیقت حال کا علم ہو سکے۔ قابل ذکر ہے کہ پاکستان میں برفانی کھیل جن میں ’اسکینگ‘ سرفہرست ہے کا واحد مرکز ’مالم جبہ‘ ہے‘ جس کی سیر و استفادے کے لئے ہر ماہ قریب یہاں ایک لاکھ سیاح یہاں آتے ہیں۔ کسی ایک مقام پر اگر ہر روز قریب ’تین ہزار‘ سیاح اور اختتامِ ہفتہ پر یہ تعداد بڑھ کر پانچ سے سات ہزار تک پہنچ جائے تو اُس مقام کی اہمیت اور کشش کا اندازہ لگانا قطعی مشکل نہیں۔ اُمید ہے کہ حسب اعلان رواں سال ماہ جون تک مالم جبہ میں زیر تعمیر ’فائیو سٹار ہوٹل‘ ملکی و غیر ملکی سیاحوں کے لئے کھول دیا جائے گا۔ یہ وہی ہوٹل ہے جسے عسکریت پسندوں نے غیراسلامی قرار دے کر بموں سے اُڑا دیا تھا۔ مالم جبہ کے آس پاس قریب دو درجن چھوٹے بڑے ہوٹل اور چائے کے کیبن ملتے ہیں۔ یہ سہولیات ماضی میں دستیاب نہیں تھیں یا پھر صرف موسم گرما ہی میں میسر ہوتی تھیں لیکن اب تو سردی اور برفباری دیکھنے کے لئے زیادہ لوگ اُمڈ آتے ہیں اور یوں ’’مالم جبہ سدا بہار سیاحتی مقام‘‘ بن چکا ہے جس سے مقامی افراد کو روزگار کے مواقع میسر آ رہے ہیں۔ یہی سیاحت کا حسن ہے کہ اِس کی وجہ سے بہت جلد معاشی استحکام آتا ہے۔ 

سال دوہزار سترہ کے موسم گرما میں سوات کا رخ کرنے والے قریب دس لاکھ سیاحوں کی وجہ سے ہوٹل کی صنعت فائدہ ہوا تاہم یہ شعبہ حکومت کی مالی سرپرستی اور ہوٹلنگ سے متعلق ’میزبانی کے علوم‘ سے آگاہی چاہتا ہے۔ 

سوات اگر سیاحت کا مرکز ہے تو یہاں ہوٹلنگ کی تعلیم کے لئے خصوصی دانشگاہ کا قیام ضروری ہے‘ جہاں سے تعلیم یافتہ نوجوان ڈپلومہ حاصل کرسکیں۔ اگرچہ مالاکنڈ ڈویژن میں غیرملکی سیاحوں کے لئے پیشگی اجازت نامہ حاصل کرنے کی شرط ختم کی جا چکی تاہم ماضی میں ہونے والی شدت پسندی کی وجہ سے وہ اب بھی غیرملکی یہاں آنے سے کتراتے ہیں۔ اُمید ہے کہ ملکی سیاحوں کا اِعتماد بحال ہونے کے بعد غیرملکی سیاحوں کی توجہ بھی سوات اُور بالخصوص مالم جبہ کی جانب مرکوز ہو جائے گی‘ جس کے لئے سوشل میڈیا مہم جو ماہرین‘ عالمی ذرائع ابلاغ اور غیرملکی نشریاتی اداروں کے نمائندوں کو مدعو کر کے اگر مالم جبہ ہی کے مقام پر ’عالمی میڈیا کانفرنس‘ کا انعقاد کیا جائے تو اِس کے زیادہ مثبت اور فوری نتائج برآمد ہوں گے۔ 

سوات سے متعلق فیصلہ سازی میں ’ویٹو پاور‘ رکھنے والے پاک فوج کے فیصلہ سازوں سے درخواست ہے کہ وہ ’عالمی میڈیا کانفرنس‘ کے اِنعقاد کو ممکن بنانے پر غور کریں۔
۔

No comments:

Post a Comment