ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
خواب ریزہ ریزہ!
پاکستان تحریک انصاف نے ’مئی دوہزارتیرہ‘ کے عام انتخابات سے قبل وعدہ کیا تھا کہ برسراقتدار آنے کے بعد اُن کی اولین ترجیح ہر ضلع میں ایک یونیورسٹی کا قیام ہوگا لیکن بات اِس وعدے کی بارہا زبانی تائید سے زیادہ آگے نہ بڑھ سکی۔ اٹھائیس نومبر دوہزار سترہ کے روز وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے اعلیٰ سطحی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے اِس بات پر زور دیا تھا کہ ’’ہر ضلع میں ایک یونیورسٹی بنائی جائے!‘‘ تحریک انصاف کا وعدہ درحقیقت سرکاری اور نجی شعبے کے تعاون سے جامعات بنانے کا تھا جو بہترین تصور تھا لیکن اِسے معیاری اور قابل عمل بنانے کے لئے خاطرخواہ دلچسپی کا مظاہرہ دیکھنے میں نہیں آیا۔ ترقی یافتہ ممالک کی ترقی کا راز اُن کی جامعات میں ہونے والی تحقیق ہے. ہمارے ہاں تحقیق سب سے زیادہ نظرانداز شعبہ ہے۔ تصور کیجئے پاکستان کی اکیس کروڑ آبادی کے لئے 85 جامعات اور اِن میں سے بھی 8 سرکاری اور 18 نجی شعبے کی یونیورسٹیوں میں صرف اور صرف تعلیمی اسناد بانٹنے کا کام ہو رہا ہے۔ تحقیق کون کرے گا؟ اور تحقیق کس کی سرپرستی میں ہونی چاہئے؟
تحریک انصاف سے قبل عوامی نیشنل پارٹی نے خیبرپختونخوا پر حکومت کی اور اپنے دور میں 10 جامعات قائم کرکے ریکارڈ بنا ڈالا‘ جن میں اسلامیہ کالج کی اَپ گریڈیشن‘ باچا خان یونیورسٹی چارسدہ‘ عبدالولی خان یونیورسٹی مردان‘ یونیورسٹی آف صوابی‘ شہید بینظیر یونیورسٹی اپر دیر‘ یونیورسٹی آف ہری پور‘ خوشحال خان خٹک یونیورسٹی کرک‘ ویمن یونیورسٹی صوابی اور عبدالولی خان یونیورسٹی کے لوئردیر اور چترال کیمپ آفسیز شامل تھے۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد اعلیٰ تعلیم چونکہ صوبوں کی ذمہ داری ٹھہری لیکن خیبرپختونخوا کے حصے میں اعلیٰ تعلیم کا ایک ایسا وزیر آیا‘ جس نے کبھی خود یونیورسٹی سے استفادہ نہیں کیا تھا! نئی یونیورسٹیز کے قیام کے لئے ’پیٹ کاٹ کر‘ مالی وسائل حسب وعدہ فراہم نہ کرنے میں کوتاہی کی وجہ بھی یہی تھی کہ غیرمتعلقہ سیاسی کردار کو اعلیٰ تعلیم کا قلمدان سونپا گیا‘ جس کے لئے منظورنظر افراد میں ملازمتیں بانٹنے سے زیادہ اِن جامعات (اداروں) کی کوئی اہمیت نہیں تھی! موجودہ صوبائی حکومت کی جانب سے اعلیٰ تعلیم اداروں کے لئے غیرمعمولی مالی گرانٹ سال دوہزارسولہ سترہ کے دوران دیکھنے میں آئی جو 90 کروڑ روپے تھے جس میں سے 10 کروڑ ’ویمن یونیورسٹی مردان‘ کو دیئے گئے۔ المیہ رہا کہ سالانہ ترقیاتی پروگرام میں اعلیٰ تعلیم کے لئے مختص کئے جانے والے بیشتر فنڈز فراہم نہیں کئے جا سکے!
خیبرپختونخوا حکومت کی ’اَعلیٰ تعلیم‘ سے متعلق حکمت عملی پر مبنی اِس سرسری روداد (یاد دہانی) کا مقصد یہ ہے کہ پندرہ جنوری کے روز جب تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان ’کرک (خوشحال خان خٹک) یونیورسٹی‘ میں منعقدہ تقریب سے خطاب کر رہے تھے تو اُن کے سامنے یہ حقائق پیش نہیں کئے گئے کہ ’جناب آپ کی قیادت میں صوبائی حکومت ہر ضلع میں جامعات کے قیام سے متعلق اپنے انتخابی وعدے پورے نہیں کر پائی ہے۔‘ بالخصوص جب عمران خان یہ فرما رہے تھے کہ ’’سال دوہزار اٹھارہ تحریک انصاف کے (وفاقی) حکومت میں آنے کا سال ہے‘‘ تو اِس بلندبانگ دعوے کو سننے والے اُن کی توجہ خیبرپختونخوا حکومت کی کارکردگی کی جانب مبذول کروا سکتے تھے۔ یوں ایک نادر موقع گنوا دیا گیا۔
عمران خان شاید ہی آئندہ پانچ دس سال میں کرک کا دورہ کر پائیں گے جن کی موجودگی سے ’وسیع البنیاد فائدہ‘ نہیں اٹھایا جاسکا!
تحریک انصاف صرف جامعات کے قیام ہی سے متعلق غفلت کی مرتکب نہیں بلکہ کئی دیگر امور بھی نظرانداز رہے جن کا تعلق خیبرپختونخوا کے حقوق سے ہے اور اِن حقوق کے تحفظ میں خاطرخواہ دلچسپی اور سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا گیا۔ خیبرپختونخوا کے جنوبی اضلاع میں اگر آبپاشی کا بندوبست کیا جائے تو اِس سے زرعی انقلاب برپا ہوسکتا ہے۔ زیتون کی کاشت ایک الگ موضوع ہے لیکن پیاسے دشت و بیانوں میں حسرت و یاس اور غربت و افلاس گردوغبار کے ساتھ اُڑتی دکھائی دیتی ہے! دوہزار بارہ میں قائم ہونے والی ’خوشحال خان خٹک (کرک) یونیورسٹی‘ میں تقریب کے بعد ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے نہایت ہی پرسکون اَنداز میں چند منٹ کھڑے کھڑے بات کرتے ہوئے عمران خان نے اِس بات پر تعجب کا اِظہار کیا کہ ’’علاقے میں یورینیم (Uranium) آلودگی سے سرطان (کینسر) جیسا خطرناک مرض پھیل رہا ہے۔‘‘ انہوں نے شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال کے قیام سے متعلق مطالبے سے زیادہ ضروری اِس بات کو قرار دیا کہ ’یورینیم کا پھیلاؤ روکا جائے‘ جس کے لئے چیف سیکرٹری سے رپورٹ طلب کی یقین دہانی بھی کرائی کہ ’’آخر مقامی لوگ ’یورینیم سے آلودہ پانی‘ پینے پر مجبور کیوں ہیں؟‘‘ عمران خان صاف گو ہیں اُنہوں نے کھلے دل سے تسلیم کیا کہ اِس قسم کی شکایت اُنہیں کبھی بھی سننے میں نہیں آئی۔
اَصولی طور پر اُنہیں اپنے ہمراہ صوبائی وزیر اطلاعات شاہ فرمان سے پوچھنا چاہئے تھا کہ اِس قدر اہم مسئلے سے اُنہیں آگاہ کیوں نہیں کیا گیا اور ساڑھے چار سال کے عرصے میں وہ جس ایک بات لاعلم رہے وہ اِس قدر اہم تھی کہ ذرائع ابلاغ میں بارہا رپورٹ بھی ہو چکی ہے تو اُس کے حل سے متعلق صوبائی حکومت کی کوششوں سے اُنہیں (پارٹی چیئرمین) کو بے خبر رکھنے کی بنیادی وجہ کیا ہے؟ ’ایف ایس سی‘ میں سائنس کا مضمون پڑھنے والا ایک عام طالب علم بھی جانتا ہے کہ تابکاری کے لحاظ سے یورینیم (اَٹامک نمبر 92) نہایت ہی کمزور کیمیائی عنصر ہے تاہم اِس کی عمر ایک لاکھ ساٹھ ہزار سال سے ساڑھے چار ہزار ارب سال تک ہو سکتی ہے۔ یہ قدرتی طور پر پایا جاتا ہے اور اگر انسانی جسم میں کسی بھی ذریعے سے داخل ہوجائے تو کینسر کا ہونا یقینی امر ہے۔ خیبرپختونخوا کا ضلع کرک تیل و گیس اور نمک کے علاؤہ یورینیم جیسے قیمتی کیمیائی مادے کے وسیع ذخائر سے مالا مال ہے لیکن اس سے صوبے کو جس قدر فائدہ اُٹھانا چاہئے تھا وہ دیکھنے میں نہیں آ رہا۔
وفاقی حکومت کی اجازت سے کرک میں قدرتی وسائل حاصل کرنے کے عمل میں خاطرخواہ احتیاط نہ برتنے سے اہل علاقہ جوہری تابکار مادے سے متاثر ہو رہے ہیں تو یہ ذمہ داری کسی اُور کی نہیں بلکہ صوبائی حکومت ہی کی بنتی ہے کہ وہ اپنے لوگوں کے حقوق کا دفاع کرے! وفاقی حکومت نے مالی سال 2016-17ء میں ضلع کرک کی یورینیم کانوں کے لئے 1 ارب 75 کروڑ روپے مختص کئے تھے لیکن یہ رقم خرچ نہیں ہوئی‘ تو اِس بارے میں قومی اسمبلی اور سینیٹ ایوانوں میں سوال (اعتراض) اب بھی اٹھائے جا سکتے ہیں۔
۔
No comments:
Post a Comment