مہمان کالم
دہشت اُور دہشت گردی!
امریکہ کی زد میں صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ وہ تمام مسلم ممالک آ چکے ہیں‘ جن سے کسی نہ کسی صورت اسرائیل کی سلامتی کو خطرات لاحق ہیں یا مستقبل قریب و بعید میں ہو سکتے ہیں۔ فلسطینی صدر محمود عباس فکرمندوں میں شامل ہیں‘ جن کے لئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ’یروشلم کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنا‘ مشرق وسطی میں امن کوششوں کے منہ پر ’طمانچہ‘ ہے۔ طاقت کے نشے میں فی الوقت امریکہ کو کسی عالمی معاہدے کی پرواہ نہیں جیسا کہ ’’اوسلو سمجھوتہ‘‘ جس کے تحت سال 1995ء میں فلسطین و اسرائیل کے درمیان تنازعات کے حل اور قیام امن کا عمل شروع ہوا تھا۔ سوال یہ ہے کہ کیا امریکہ کے صدر جو منہ میں آئے بول دیتے ہیں یا اُن کے بیانات کے پیچھے امریکی سیاسی و فوجی قیادت کی سوچ چھپی ہوئی ہے؟ پاکستان کے نکتۂ نظر سے امریکی رویہ (بہار و خزاں) غیرضروری طور پر سخت تو ہے لیکن غیرمتوقع نہیں لیکن زیادہ تشویشناک امر یہ ہے کہ ٹرمپ کا کرخت لہجہ اور سخت الفاظ کا انتخاب بدل نہیں رہا۔ ہم سب جانتے ہیں کہ زبان ایک متحرک دریا کی طرح ہے‘ جس میں اِدھر اُدھر سے نت نئے الفاظ شامل ہوتے رہتے ہیں جو فصاحت و بلاغت میں اضافہ کرتے ہیں۔ یہ عمل عمومی و ارتقائی ہے جسے روکا نہیں جاسکتا اور اِسی کے ذریعے کئی نئی اصلاحات اور الفاظ دیگر زبانوں کی طرح ’اردو‘ میں بھی آئے اور مانوس ہوتے چلے گئے۔ ’’دہشت گردی‘‘ بھی ایک ایسا ہی لفظ (اصطلاح) ہے۔ فیروزاللغات میں اس کے معنی ’’بڑے پیمانے پر خوف و ہراس‘‘ پھیلانے کے درج ہیں۔ ابتدأ میں یہ لفظ صرف چھپکلی سے منسوب ہوتا تھا‘ جو رات کے کسی پہر روشندان کے سوراخ سے اندر رینگ آ تی اور پھر خاموشی سے کسی نکڑ میں بیٹھ کر خدا کی قدرت کا تماشا دیکھتی کہ انسان جو اشرف المخلوقات ہے‘ کیسے اُس کی دہشت سے چیختا چلاتا‘ تکیے اچھالتا‘ اِدھر سے اُدھر دوڑا پھرتا ہے لیکن پھر اچانک ایک روز یہ لفظ کتابوں کے سرمئی صفحوں سے نکل کر سامنے آ کھڑا ہوا۔
امریکہ پر دہشت گرد حملوں (نائن الیون) کے بعد دنیا کو بنیاد پرستی کے ہم وزن نیا لفظ ’’دہشت گردی‘‘ ملا جو ’حشرات العرض‘ کی موجودگی سے پیدا ہونے والی کھلبلی سے مختلف نوعیت کے خطرے کی نشاندہی کرتا تھا۔ معلوم ہوا کہ کچھ گروہ دنیا میں دہشت پھیلا رہے ہیں اُور اب ساری دنیا کا فرض ہے کہ اِن ’دہشت گردوں‘ سے ایسا ہی سخت گیر معاملہ کیا جائے۔ دہشت گردوں کا ماضی کیا ہے یہ کون ہیں؟ اچانک کہاں سے وارد ہوئے؟ اِن کی تربیت کس نے کی؟ اَسلحہ اُور مالی وسائل کس نے کیوں دیئے اور اب اِن سے نجات (چھٹکارہ) حاصل کرنا کیوں ضروری ہے؟ ایسے بہت سے سوالات کرنے والی زبانیں لب بستہ ہیں!
دہشت گردی روشناس (متعارف) کرانے والوں نے افغانستان کو دہشت گردی کا گڑھ قرار دیا اور پاکستان سمیت دنیا نے تسلیم کر لیا پھر ایک ایسی جنگ شروع ہوئی‘ جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی اور اب تو اِس جنگ کے اتحادی بھی ایک دوسرے سے متنفر ہو گئے ہیں‘ جس کی وجہ سے کامیابی کے امکانات مزید معدوم دکھائی دیتے ہیں! بہرحال ’اُنیس سو اسی‘ کی دہائی میں جن لوگوں کو ’’افغان جہاد‘‘ کے نام پر بھرتی کیا گیا‘ اُنہیں روسی افواج کے انخلاء کے بعد اپنے حال پر چھوڑنے کے نتائج سب کے سامنے ہیں! پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ افغانستان کے لئے دیکھے گئے خواب بھیانک ثابت ہوئے‘ جس کے لئے ذمہ داروں کا تعین یکساں اہم ہے۔ امن ہر معاشرے کی بنیادی ضرورت ہوتا ہے۔ کسی پڑوسی ملک کے صحن میں آ گ لگانے والا بھلا کب تک اور کیسے اُس آگ کے اثرات سے محفوظ رہ سکتے ہیں؟ آگ کا کام تو جلانا ہوتا ہے اور جب یہ پھیل جاتی ہے تو یہ اہداف میں تمیز نہیں کرتی۔ نام نہاد ’’دہشت گردی‘‘ کے خلاف عالمی جنگ کو اختیار کرنے سے پاکستان نے اپنا جس قدر نقصان کیا‘ اُس کا ازالہ غلطی تسلیم کئے بناء ممکن نہیں۔
امریکہ یا موجودہ صدر ٹرمپ پر تنقید کرنے سے زیادہ اِس بات پر غور ہونا چاہئے کہ پاکستان اپنی سوچ اور عمل کی اصلاح کے لئے کن اصولوں پر ہمسایہ ممالک سے متعلق اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرے۔ فیصلوں کے نتائج اور ماضی و حال کے فیصلہ سازوں کی کارکردگی کا احتساب بھی ضروری ہے‘ جس کی وجہ سے ’دہشت گردی‘ کے خلاف صف اول کا کردار ادا کرنے والے ملک کو ’دہشت گرد‘ کے طور پر دیکھا جانے لگا ہے۔
پاکستان کے قومی وسائل اور ساکھ کو نقصان پہنچانے والوں کا بے رحم احتساب ہونا چاہئے۔ کیا آج کی تاریخ میں پاکستانی قوم یہ سوال پوچھنے میں حق بجانب نہیں کہ ’مبینہ دہشت گردی‘ کے خلاف عالمی جنگ سے پاکستان کو حاصل ہونے والے مالی فوائد کا استعمال کہاں کیا گیا؟ عوام بخوبی سمجھ چکی ہے کہ دہشت گردی کیا ہے اور دہشت پھیلانے کے درپردہ مقاصد کیا ہیں! امریکہ کی جانب سے ’’33ارب ڈالر‘‘ وصول ہونے کا انکار نہیں کیا جا رہا ہے لیکن ہر ڈالر کا حساب دینے سے گریزاں خوف اور دہشت کو ہوا دے رہے ہیں تاکہ عالمی طاقت سے تصادم برقرار رہے۔ پاکستان کو اقتصادی ’دہشت گردوں‘ سے لاحق خطرات اپنی جگہ غور طلب ہیں۔
۔
No comments:
Post a Comment