ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
سبز باغ!
’پارو‘ اُور ’آرزو‘ کا تعلق پشاور کے اُن چنیدہ ’خوش نصیب‘ خواجہ سراؤں میں ہوتا ہے‘ جنہیں صوبائی حکومت کی جانب سے ’’صحت اِنصاف کارڈ‘‘ فراہم کئے گئے ہیں اُور اب وہ مخصوص سرکاری و نجی ہسپتالوں سے ’سالانہ‘ پانچ لاکھ چالیس ہزار روپے تک ’علاج معالجے کی سہولیات‘ مفت حاصل کر سکتے ہیں۔
خواجہ سراؤں کو ’صحت اِنصاف کارڈز‘ کی فراہمی کا عمل مرحلہ وار انداز میں مکمل کیا جائے گا جبکہ پہلے مرحلے میں پشاور سے تعلق رکھنے والے خواجہ سراؤں کو کارڈز فراہم کر دیئے گئے ہیں اور بعدازاں اِس منصوبے کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے خیبرپختونخوا کے دیگر تمام ’خواجہ سراء‘ بھی صوبائی حکومت کی جانب سے ’صحت کا بیمہ‘ حاصل کر لیں گے۔
انصاف صحت کارڈ حاصل کرنے کا طریقۂ کار کسی عام فرد کے لئے مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن حد تک دشوار ہے‘ جس میں اُس کی ضرورت اور مالی حیثیت کا تعین وفاقی حکومت کی جانب سے کئے گئے سروے (جائزے) کی روشنی میں کیا جاتا ہے۔ اصولی طور پر صوبائی حکومت کو اپنے وسائل سے ’غربت کا سروے‘ کرنا چاہئے تھا اور یہ عمل اضلاع یا ڈویژنز کی سطح پر مکمل ہونے کے بعد ’صحت انصاف کارڈز‘ کا اجرأ عمل میں لایا جاتا لیکن چونکہ سیاسی حکومتوں کی اپنی مجبوریاں ہوتی ہیں اور سرکاری افسروں کو ’برق رفتار کارکردگی‘ دکھانے کا شوق ہوتا ہے تاکہ وہ اعلیٰ و ادنی انتظامی عہدوں پر فائز رہیں اور اُنہیں ملنے والی مراعات میں اضافے کا سلسلہ بھی جاری رہے اِس لئے کامیابی اِسی میں ہے کہ سیاسی حکمرانوں کے مزاج کے مطابق اُنہیں ’’سبز باغ‘‘ دکھائے جائیں۔ یہی طریقۂ واردات ’صحت انصاف کارڈ‘ نامی اُس حکمت عملی سے بھی روا رکھا گیا‘ جسے اگر سوچ سمجھ اور منصوبہ بندی سے عملی جامہ پہنایا جاتا تو بھلے ہی یہ حکمت عملی عام انتخابات کے قریب منظرعام پر آتی لیکن اِس سے زیادہ بڑے پیمانے پر مستحقین مستفید ہو سکتے تھے۔ بہرحال دنیا کی نظروں میں آنے کے لئے‘ عام مستحقین کے مقابلے ’صحت انصاف کارڈ‘ کی رجسٹریشن کا عمل ’خواجہ سراؤں‘ کے لئے ’آسان تر‘ رکھا گیا ہے اور اِس پوری کوشش کے پیچھے ’بلیووینز‘ نامی اُس غیرسرکاری تنظیم کی کوششوں کا بڑا عمل دخل ہے‘ جو ’خواجہ سراؤں‘ کے حقوق کے تحفظ اور انہیں سماجی و آئینی انصاف کی فراہمی ممکن بنانے کے لئے غیرملکی (بیرونی مالی) امداد حاصل کرتی ہے۔ یوں خواجہ سراؤں کے دم کرم سے خیبرپختونخوا میں کئی ’این جی اُوز‘ اُور اِن تنظیموں سے تعلق رکھنے والوں کے چولہے جل رہے ہیں! خواجہ سراؤں کو دھوم دھام اور پورے اہتمام سے ’صحت انصاف کارڈ‘ دیئے گئے اور وہ سرکاری اہلکار جنہیں دفتری کاموں سے فرصت نہیں ہوتی اور جن کے دفتروں اُن کے منتظر رہتے ہیں! ایک ایسی تقریب کی زینت بنے رہے‘ جس کی کئی ایک وجوہات کی بناء پر ضرورت نہیں تھی۔ تصور کیجئے کہ خیبرپختونخوا میں مکحمۂ صحت کے نگران ’ڈائریکٹر جنرل‘ ڈاکٹر ایوب روز‘ سوشل ویلفیئر کے ڈائریکٹر عابداللہ کاکا خیل‘ پراجیکٹ ڈائریکٹر امتیاز تنولی‘ بلیو وینز کے پروگرام کوآرڈینیٹر قمر نسیم اور خواجہ سراؤں کی تنظیم کے صوبائی صدر فرزانہ جان حاضر جناب رہے۔ ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ کے بقول ’’پاکستان میں خواجہ سراؤں کی کل تعداد بیس ہزار ہے جن میں سے دو ہزار کا تعلق خیبرپختونخوا سے ہے۔ پشاور میں رہنے والے 229 خواجہ سراؤں کو پہلے مرحلے میں ’صحت انصاف کارڈز‘ فراہم کئے گئے ہیں جبکہ صوبے کے دیگر اضلاع میں رہنے والوں کو بھی اِن کارڈز کی فراہمی کا سلسلہ جلد شروع ہو جائے گا۔‘‘
’صحت انصاف کارڈ‘ نامی ’ہیلتھ انشورنس‘ اکتیس اگست دوہزارسولہ روز کو جاری کی گئی تھی۔ اِس دوسالہ حکمت عملی کے لئے مالی وسائل (پانچ ارب‘ چھتیس کروڑ بائیس لاکھ روپے) جرمنی کے مالیاتی ادارے ’کے ایف ڈبلیو‘ نے فراہم کئے تھے اور طے یہ ہوا تھا کہ اِس کے ذریعے خیبرپختونخوا کے 18لاکھ گھرانوں (فی گھرانہ آٹھ افراد) کو علاج معالجے کی سہولیات فراہم کی جائیں گی۔ اندازہ تھا کہ اس سے ڈیڑھ کروڑ لوگوں کو فائدہ ہوگا تاہم جلد ہی اِس منصوبے میں لاکھوں سرکاری ملازمین کو بھی شامل کر لیا گیا جو پہلے ہی آمدنی کا مستقل اور پائیدار ذریعہ رکھتے تھے اور وہ کسی بھی صورت اہل (مستحق) نہیں تھے۔ اب خواجہ سراؤں کو شامل کرنے کے بعد باقی ماندہ خیبرپختونخوا کو بھی شامل کر ہی لیا جائے کیونکہ ویسے بھی سرمایہ دار اور خود سیاست دان اپنا علاج معالجہ اپنے صوبے یا ملک میں علاج کروانا پسند نہیں کرتے اور جن کے پاس تھوڑے بہت مالی وسائل ہوتے ہیں وہ اپنا یا اپنے پیاروں کا علاج نجی ہسپتالوں سے کرانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ سرکاری ہسپتالوں سے بہ اَمر مجبوری رجوع کرنے والوں کی حالت زار کسی بھی ضلعی یا پشاور کے مرکزی ہسپتالوں میں مشاہدہ کی جاسکتی ہے!
انصاف صحت کارڈ کوئی تعویذ نہیں کہ اِسے حاصل کرنے والے کی شفایابی یقینی ہوگی‘ حکومت اگر سرکاری ہسپتالوں کا قبلہ درست کرنے پر توجہ مرکوز کرتی تو ایسے کسی کارڈ (اضافی اخراجات) کی ضرورت ہی پیش نہ آتی!
بہرحال اِس مرحلے پر صرف یہی مقصود ہے کہ ’انصاف صحت کارڈ‘ سے متعلق خیبرپختونخوا حکومت کی کوششیں اصلاحات کی متقاضی ہیں۔ اِس حکمت عملی کے تحت سیاسی بنیادوں پر کئی نجی ہسپتالوں کو فائدہ پہنچایا گیا ہے۔ یہ بات آج کی تاریخ میں کوئی تسلیم نہیں کرے گا لیکن مستقبل میں جب بدعنوانی کے مقدمات قائم ہوں گے تو کئی معززین کے نام آئیں گے جن کی عدالتوں کے باہر قطاریں لگی دکھائی دیں گی‘ یہ وہی ہوں گے جنہوں نے تجاہل عارفانہ اختیار کیا اور ایسے نجی ہسپتالوں کو پینل پر لیا‘ یا اُن کے پینل پر لانے کی غیرتحریری سفارش کی یا پینل پر لانے کے بعد اُن پر اعتراض نہیں اٹھایا‘ جس کا اُنہیں اختیار نہ بھی ہوتا لیکن غریبوں کے علاج معالجے کے لئے مختص وسائل کی یوں لوٹ مار پر خاموش تماشائی رہنے والوں کو بھی جرم میں یکساں (برابر کا) شریک سمجھا جائے گا۔ وہ وقت زیادہ دور نہیں!
No comments:
Post a Comment