Sunday, January 14, 2018

Jan 2018: Injustice continue with FATA

مہمان کالم
نااِنصافیاں
زندہ قوموں کی نشانی اُن کے ’زندہ عزم‘ اور اجتماعی قومی بہبود سے متعلق فیصلوں پر ڈٹ کر ’عمل درآمد‘ ہوتا ہے‘ جس سے عوام الناس کو درپیش مسائل حل ہوتے چلے جاتے ہیں اور سیاسی حکمران کوئی بھی ہو‘ ریاستی نظام اور اداروں کا ارتقائی عمل اور مسلسل سوچ کا سفر جاری رہتا ہے۔ پاکستان میں بدقسمتی سے سیاسی و غیرسیاسی حکمرانوں اور فیصلہ سازوں (افسرشاہی) کا طرزِ ’فکروعمل‘ ذاتی یا پھر اِنتخابی (سیاسی) مفادات کا اسیر رہا ہے‘ جس کی وجہ سے مسائل کی معلوم اور بڑھتی ہوئی شدت کے باوجود ’سیاسی مصلحتوں‘ آڑے آ رہی ہیں۔ اِس سلسلے میں ’قبائلی علاقوں‘ کی مثال موجود ہے‘ جنہیں ملک کے دیگر حصوں کی طرح مساوی حیثیت دینے کے لئے ’قومی سطح پر پایا جانے والا اتفاق رائے‘ بھی کسی کام نہیں نہیں آ رہا اور ایسے نمائشی اور واجبی اقدامات کئے جا رہے ہیں‘ جن کا مقصد عوام اور تاریخ کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے۔ بارہ جنوری کے روز وفاقی حکومت نے عدالتی دائرہ کار کو قبائلی علاقوں تک وسعت دی جہاں نہ تو تفتیشی ادارے موجود ہیں اور نہ ہی پولیس کا تہہ دار نظام‘ جس کا بغیر عدالت کی موجودگی کس طرح اپنی افادیت ثابت کر پائے گا؟

قومی اسمبلی میں سپرئم کورٹ (عدالت عظمیٰ) اور پشاور ہائی کورٹ (عدالت عالیہ) کا دائرہ کار وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقوں (فاٹا) تک بڑھانے کا قانون ’’کثرت رائے‘‘ سے منظور کیا تو قبائلی علاقے سے تعلق رکھنے والے رکن قومی اسمبلی ’’شاہ جی گل آفریدی‘‘ نے جوشیلے انداز میں کہا کہ ’’ہم حکومت اور قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کی جماعتوں کے مشکور ہیں کہ انہوں نے مذکورہ قانون (بل) کی منظوری دی ہے‘ (جو درحقیقت) پاکستان کے مقصد کی تکمیل ہے اور آج (بارہ جنوری دوہزارسترہ) حقیقی معنوں میں قیام پاکستان یعنی ’’چودہ اگست‘‘ جیسا اہم دن ہے۔‘‘ اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’’عدالت عظمی اور عدالت عالیہ کی ’فاٹا‘ کے علاقوں تک توسیع عوام کی امنگوں کے مطابق فیصلہ ہے اور اب ’فاٹا‘ تیزی سے ترقی کرے گا۔‘‘ جو بات قانون ساز قومی اسمبلی ایوان کے اسپیکر ایاز صادق اور وفاقی وزیر قانون انصاف محمود بشیر ورک نے بھی محسوس کی اُس کا لب لباب یہ تھا کہ ’’فاٹا میں عدل و انصاف کی فراہمی اصل ضرورت ہے‘ ترقی کے نام پر دیگر ضروریات اور بنیادی سہولیات کی فراہمی مرحلہ وار بہتر بنائی جا سکتی ہے اور اِس میں تاخیر کا زیادہ نقصان بھی نہیں ہوگا لیکن اگر انصاف کی فراہمی اور عدل کا قیام ممکن نہیں بنایا جاتا تو اِس کے بغیر باقی سب کچھ بے معنی ہے۔ خوشگوار حیرت کا باعث نظارہ تھا جب فاٹا تک عدالتوں کا دائرہ کار بڑھانے کا بل منظور ہونے پر فاٹا سے تعلق رکھنے والے اراکین قومی اسمبلی کھل اُٹھے اور انہوں نے ایک دوسرے کو گلے مل مل کر مبارکبادوں کا تبادلہ کیا‘ یقیناًآنکھوں میں آنسو بھی ہوں گے کہ اب کم سے کم فاٹا کے رہنے والوں کو دیگر پاکستانیوں کی طرح عدل و انصاف کا مستحق سمجھا جائے گا! 

اُمید ہے کہ قومی اسمبلی کے جاری اجلاس (سیشن) میں ’’فاٹا انضمام بل‘‘ بھی ایوان میں پیش کر دیا جائے گا جو حقیقی ضرورت اور جامع اقدام ہوگا۔

فاٹا کی امتیازی حیثیت تبدیل کرنے سے متعلق قانون سازوں کی کوششیں ناکافی ہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ پولیس کی عدم موجودگی کی صورت صرف عدالتوں کا دائرہ کار قبائلی علاقوں تک پھیلانے سے خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہوں گے اور اِس سے قبائلی علاقوں کا انضمام (اصل معاملہ) سرد خانے کی نذر ہو جائے گا‘ جو سیاسی مفادات رکھنے والوں کی خواہش اور سرتوڑ کوشش ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان مسلم لیگ نواز کے سربراہ میاں نوازشریف کے ہاتھ ایک نادر (سنہرا) موقع آیا جس کے ذریعے وہ قبائلی علاقوں کی امتیازی حیثیت تبدیل کرکے تاریخ میں اُسی طرح اپنا نام درج کروا سکتے تھے جیسا کہ ’شمال مغربی سرحدی صوبے (این ڈبلیو ایف پی)‘ کا نام ’خیبرپختونخوا‘ سے تبدیل کرنا پیپلزپارٹی سے منسوب ہے۔ 

نواز لیگ کی خوش قسمتی تھی کہ خیبرپختونخوا حکومت نے دیگر امور پر اُن سے اپنے شدید سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے قبائلی علاقوں کے انضمام کی غیرمشروط حمایت کی لیکن تحریک انصاف سے قربت کا یہ نادر موقع ضائع کر دیا گیا جو دونوں سیاسی جماعتوں کوایک دوسرے کے قریب لا سکتا تھا۔ بہرحال نواز لیگ نے مولانا فضل الرحمن اور محمود خان اچکزئی جیسی دو مختلف النظریات سیاسی شخصیات کے مؤقف کو اکثریتی رائے پر ترجیح دے رکھی ہے اُور ایک ایسے معاملے کو اُلجھا دیا جو سیدھا سادا تھا۔ قبائلی علاقوں کا خیبرپختونخوا میں بلاتاخیر انضمام ہونا چاہئے اور ایسا اب بھی ممکن ہے اگر نواز شریف اجازت (حکم بہ معنی گرین سگنل) دیں تو یہ کارہائے نمایاں اُن کے نام ہوسکتا ہے۔ شاید وہ سمجھ نہیں پا رہے کہ اگر تاریخ شخصیات کو زندہ رکھتی ہے تو یہی تاریخ ایسے کرداروں کو کبھی معاف بھی نہیں کرتی جو قومی مفادات کو پس پشت ڈالتے ہوئے ترجیحات کا تعین کرتے ہیں۔ ’کون نہیں جانتا‘ اُور ’کون نہیں چاہتا‘ کہ ۔۔۔ دہشت گردی کو جڑ سے ختم کرنے کے لئے قبائلی علاقوں کا خیبرپختونخوا میں اِنضمام (اَزحد) ضروری (واحد حل) ہے اور اِس میں جس قدر بھی تاخیر کی جائے گی‘ اُس سے بہتری پیدا نہیں ہوگی۔ اگر نواز شریف خود اپنی ہی جماعت کے اراکین ہی کی رائے معلوم کریں تو اکثریت قبائلی علاقوں کے بارے میں اُس تذبذب کا شکار نہیں ہوگی جس سے وہ خود گزر رہے ہیں!

No comments:

Post a Comment