Monday, January 1, 2018

Jan 2018: Law enforcing & handling FATA

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
سراسر ناانصافی!
قبائلی علاقوں کی اِمتیازی حیثیت برقرار رکھنے کا فائدہ اُٹھانے والوں میں ’منظم جرائم پیشہ عناصر‘ اُور دہشت گردوں کے علاؤہ افسرشاہی (اِنتظامی عہدوں پر فائز سرکاری ملازمین) شامل ہیں‘ جو اِن علاقوں سے سراپا مستفید ہو رہے ہیں لیکن ’’قومی سلامتی کا تقاضا‘‘ یہ ہے کہ غلطیوں کی اصلاح میں مزید تاخیر نہ کی جائے۔ اِس سلسلے میں 30 دسمبر کو شائع ہونے والے نکتۂ نظر (بعنوان: سراسر ظلم) میں ’مالاکنڈ لیویز فورس‘ کو ’پولیس‘ میں ضم کرنے کی تجویز کا بنیادی محرک یہی تھا کہ قانون شکن عناصر (دن دیہاڑے) جن حکومتی ناقص پالیسیوں کا فائدہ اُٹھا رہے ہیں‘ اُس کی اصلاح کی جائے۔ اِس بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے اگر ’وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقوں (فاٹا)‘ پر نظر کی جائے تو معلوم ہوتا ہے معاملات یہاں بھی مثالی نہیں اُور فیصلہ سازوں کی طرح ترجیحات کا قبلہ درست نہیں! اگر ایسا نہ ہوتا تو جن ترقیاتی منصوبوں کے لئے ماضی میں مالی وسائل مختص کئے گئے‘ اُن کی تکمیل بروقت (حسب منصوبہ بندی) اب تک ہو چکی ہوتی۔

یادش بخیر مالی سال دوہزار گیارہ بارہ کے لئے وضع کی گئی سالانہ ترقیاتی حکمت عملی (اے ڈی پی) میں سولہ کروڑ اَسی لاکھ روپے ’لیویز فورس کے لئے تربیتی مرکز‘ کے قیام کے لئے مختص کئے گئے لیکن ’فاٹا سیکرٹریٹ‘ کی جانب سے مختص کی گئی یہ رقم تاحال مذکورہ منصوبے کی تکمیل کے لئے زیراستعمال نہیں لائی جاسکی۔ 

تربیتی مرکز خیبرایجنسی کے علاقے ’شاہ کس‘ میں دوہزار سات کے اختتام سے قبل مکمل ہوجانا چاہئے تھا۔ لیویز فورس کے مذکورہ تربیتی مرکز کے لئے مالی وسائل امریکہ کی جانب سے فراہم کئے گئے‘ جس کے انسداد منشیات اور قانون کی عمل داری سے متعلق امور کو ممکن بنانے والے ادارے نے ضرورت محسوس کی تھی کہ قبائلی علاقوں میں لیویز کی پیشہ ورانہ استعداد و تربیت اور کارکردگی کو بہتر بنائے بغیر درپیش چیلنجزکا مقابلہ ممکن نہیں اور اِس مقصد کے لئے افرادی قوت کی بھی ضرورت ہے۔ اِسی نظریئے کے تحت سات قبائلی علاقوں (فاٹا) اور چھ فرنٹیئر ریجنز (ایف آرز) میں قانون نافذ کرنے والے لیویز کی افرادی قوت میں بیس ہزار افراد کا اضافہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اِبتدأ میں مذکورہ تربیتی مرکز باجوڑ ایجنسی میں بنانے کی کوشش کی گئی اُور مستعدی میں کچھ بھرتیاں بھی کی گئیں لیکن بعدازاں سہولیات شاہ کس (خیبرایجنسی) منتقل کرنے کو زیادہ قابل عمل سمجھا گیا کیونکہ باجوڑ ایجنسی ’’غیرمنطقی انتخاب‘‘ تھا۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہر سہولت کو پشاور اور اِس کے آس پاس رکھنا ضروری ہے‘ جبکہ پشاور کی سیکورٹی اور وسائل پر بوجھ پہلے ہی برداشت کی آخری حدوں کو چھو رہا ہے۔ اگر سب کچھ پشاور سے متصل علاقوں میں جمع کیا جائے گا تو دور دراز کے قبائلی علاقوں میں درکار ترقی کا دور دورہ کیسے ہوگا؟

’لیویز تربیتی مرکز‘ کے قیام کے سلسلے میں پانچ ہزار افراد کی تربیت دی گئی جن میں مرکز کی تعمیر اور لیویز فورس کے اہلکار شامل تھے لیکن آج یہ سبھی معاملات سرد خانے کی نذر ہیں۔ درحقیقت شاہ کس (خیبرایجنسی) میں ’لیویز تربیتی مرکز‘ کے قیام کی مخالفت مالی وسائل فراہم کرنے والے امریکی ادارے کی طرف سے بھی سامنے آئی تھی جسے سنا اَن سنا کر دیا گیا۔ بعدازاں امریکہ کی جانب سے اِس مرکز کو پشاور کے کسی موزوں مقام پر منتقل کرنے کا مطالبہ کیا گیا لیکن اِس تجویز سے بھی اتفاق نہیں کیا گیا۔ فاٹا سیکرٹریٹ نے شاہ کس کے مقام پر ’70 ایکڑ‘ اراضی حاصل کر رکھی ہے جو بندوبستی رہائشی علاقے حیات آباد (ٹاؤن شپ) سے متصل ہے۔ اِس اراضی پر تعمیراتی کام ہنگامی بنیادوں پر شروع کیا گیا‘ جس کی چاردیواری اُور دو رہائشی حصے جن میں زیرتربیت جوانوں کی رہائش کے لئے سولہ کمرے مکمل کر لئے گئے۔ تیزرفتاری کے لئے تعمیراتی عمل میں تیارشدہ سازوسامان استعمال کیا گیا لیکن چونکہ تعمیرات پوری نہیں ہوئیں اِس لئے صرف رہائشی سہولیات کس کام کی ہیں! مذکورہ تربیتی مرکز کی تعمیر ملتوی ہونے کا ایک سبب علاقے میں عسکریت پسندوں کی کاروائیاں بھی تھیں‘ لیکن عرصہ سات سال بعد بھی تربیتی مرکز کا تعمیراتی کام جہاں تھا وہاں ہے۔ مذکورہ رہائشی سہولیات سے جزوی فائدہ اٹھایا جا رہا ہے لیکن اصل مقصد ابھی بھی حاصل نہیں ہوسکا‘ جب تک اِس پورے منصوبے کی تکمیل نہیں ہوجاتی‘ ذرائع کے مطابق ’لیویز تربیتی مرکز‘ فعال نہیں ہو سکے گا۔ مالی وسائل فراہم کرنے والے امریکی ادارے کی جانب سے تجویز سامنے آئی ہے کہ تعمیراتی کام نجی ادارے کی بجائے ’فرنٹیئر کور (ایف سی)‘ کے حوالے کیا جائے اور اِس بارے میں ’ایف سی‘ سے بات چیت کا سلسلہ جاری ہے لیکن تاحال بات کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچی!

لائق توجہ امر یہ بھی ہے کہ جو منصوبہ عرصہ سات برس قبل مکمل ہوجانا چاہئے تھا‘ اُس کے آغاز سے تکمیل میں تاخیر تک کے دس سالہ سفر میں تعمیراتی لاگت بڑھتی چلی جا رہی ہے اور ہر چند برس بعد مزید مالی وسائل مختص کرنے پڑ رہے ہیں لیکن بات وہیں کی وہیں رُکی ہوئی ہے! درحقیقت ’شاہ کس (خیبرایجنسی)‘ کے مقام پر تعمیرات صرف تربیتی مرکز ہی کو ذہن میں رکھتے ہوئے ترتیب نہیں دی گئیں بلکہ اِس کثیرالمقاصد عمارت میں پولیٹیکل انتظامیہ اُور دیگر متعلقہ حکومتی دفاتر کا قیام بھی شامل کیا گیا۔ تربیتی مرکزکا تعمیراتی کام تو رُکا ہوا ہے لیکن پولیٹیکل انتظامیہ کے دفاتر کی تعمیر جاری ہے جس کی تکمیل پر باڑہ اور پشاور سے خیبرایجنسی کے پولیٹیکل حکام کے دفاتر ’شاہ کس‘ منتقل ہو جائیں گے۔ قبائلی علاقوں کے فیصلہ ساز خود قبائلی علاقوں میں دفتر قائم کریں گے یہ ایک الگ ضرورت پوری کر رہا ہے۔ درحقیقت قبائلی علاقوں کی اِمتیازی حیثیت برقرار رکھنا ’بنیادی اِنسانی حقوق‘ کی پائمالی و مالی بدعنوانیوں کا تسلسل برقرار رکھنے اُور قبائلی سرزمین کا عمومی و خصوصی جرائم پیشہ عناصر کو استعمال کی اجازت دینے کے مترادف اقدام ہے۔ 

سراسر انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ قبائلی عوام کی محرومیوں کا ازالہ کرنے کے ساتھ بندوبستی علاقوں کو لاحق اُن خطرات کا ادراک کیا جائے‘ جن کے باعث قانون کے نفاذ کی راہ میں رکاوٹیں حائل ہیں۔ خیبرپختونخوا کی پولیس فورس کو غیرسیاسی بنانے کا دعویٰ اپنی جگہ اہم لیکن کارہائے نمایاں یہ بھی ہوگا کہ وفاقی اور صوبائی حکمران اپنے اپنے سیاسی اختلافات بالائے طاق رکھتے ہوئے صرف اور صرف پاکستان کے ’’وسیع تر مفاد‘‘ کے بارے میں سوچیں۔
۔;

No comments:

Post a Comment