ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
ادراک حال: بے حال!
پاکستان میں اَفغان مہاجرین کے ’قانونی قیام‘ میں توسیع کا فیصلہ اِس بات کی غمازی کرتا ہے کہ ہمارے فیصلہ سازوں کو نہ تو وسائل پر بوجھ کی فکر ہے اُور نہ ہی اَمن و اَمان کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کرنا ہی اُن کی ترجیحات کا حصہ ہے‘ بصورت دیگر خود قانون نافذ کرنے والے حکومتی اِداروں نے بارہا افغان مہاجرین کی آڑ میں دہشت گردی کے نیٹ ورکس کی موجودگی کی اطلاعات دی ہیں۔
دہشت گردی میں صرف حملہ آور ہی ملوث نہیں ہوتے بلکہ اُن کے لئے مخبری‘ رابطہ کاری‘ قیام و طعام اور آمدورفت کی سہولیات فراہم کرنے والے درپردہ رہتے ہوئے کام کر رہے ہوتے ہیں‘ جو بظاہر ہتھ ریڑی لگائے ہوں گے یا کسی چائے خانہ یا چوراہے میں چھوٹا موٹا کاروبار یا مساجد و مدارس کی خدمت میں مصروف ہوں گے لیکن عین ممکن ہے کہ اِنہی بظاہر معمولی دکھائی دینے والوں کی دلی ہمدردیاں اور وابستگیاں دہشت گردوں یا منظم جرائم پیشہ عناصر سے ہوں‘ جن کے مختلف گروہ آج بھی اپنے اہداف کو نشانہ بنانے کی اگر صلاحیت رکھتے ہیں تو اِس کے پیچھے یہی ’افرادی قوت (سہولت کار)‘ ہیں جنہوں نے بھیس بدل رکھا ہے۔ وفاقی حکومت کی جانب سے موبائل فون کنکشنوں کے اجرأ کے لئے ازسرنو تصدیق کا عمل مکمل نہ ہونے اور افغان فون کنکشنوں کی رومنگ (roaming) یا افغان سرحدی علاقوں میں دستیابی سے عمومی و خصوصی جرائم پیشہ عناصر فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔
پاکستان حالت جنگ سے دوچار ہے اور اِن حالات میں داخلی سلامتی کو درپیش خطرات سے نمٹنے کے لئے ہنگامی حالت کا نفاذ ہونا چاہئے۔ دہشت گرد اور منظم جرائم پیشہ گروہ نہ صرف موبائل نیٹ ورکس بلکہ انٹرنیٹ کے وسائل کا استعمال کرتے ہوئے منصوبہ بندی یا دہشت گرد کاروائیاں کرتے ہیں‘ جن کے ثبوت کئی دہشت گرد کاروائیوں سے ملے ہیں کہ حملہ آور افغانستان میں موجود اپنے مراکز سے ہدایات لیتے رہے لیکن اِس ساری حقیقت کے معلوم ہونے کے باوجود بھی موبائل فون اور انٹرنیٹ نیٹ ورکس سے استفادہ ہر گزرتے دن پہلے سے زیادہ آسان اور سستا کیا جا رہا ہے۔ موبائل فون کمپنیاں اپنے منافع کے لئے جس انداز سے قومی سلامتی کو داؤ پر لگائے ہوئے ہیں‘ اُس کی مثال شاید ہی دنیا کے کسی دوسرے ایسے ملک میں ملے‘ جو اپنی سلامتی کے نہایت ہی پرخطر (حساس) دور سے گزر رہا ہو۔ بہتر تو یہی تھا کہ موبائل فون کنکشن پری پیڈ کی بجائے پوسٹ پیڈ کر دیئے جاتے اور فون کی سم ہر صارف کے گھر پر ارسال کی جاتی جبکہ اُس کا فون بل بھی گھر ہی کے پتے پر ارسال کیا جاتا لیکن کروڑوں کی تعداد میں غیرتصدیق شدہ اور فعال فون کنکشن ہماری قومی حکمت عملیوں میں موجودہ خامیوں کا نشاندہی کر رہے ہیں۔
وفاقی وزارت برائے فرنٹیئر ریجنز (سیفران) کے فیصلہ سازوں نے تجویز دی ہے کہ پاکستان میں قانونی طور پر مقیم ’چودہ لاکھ‘ افغان مہاجرین کے قیام میں ایک سال کی توسیع کر دی جائے۔ اِس سلسلے میں وزیراعظم کو سمری ارسال کر دی گئی ہے جس کی ممکنہ منظوری سے مہاجرین کو ’دسمبر دوہزار اٹھارہ‘ تک قیام کی اجازت (جواز) مل جائے گا۔ درحقیقت پاکستان حکومت ’افغان مہاجرین‘ کے معاملے پر خود کو جس قدر بے بس سمجھ رہی ہے حالات اتنے دگرگوں نہیں۔ مہاجرین کی واپسی میں مزید توسیع نہ کر کے افغانستان اور امریکہ پر دباؤ ڈالا جا سکتا ہے کہ پاکستان کے خلاف اَفغان سرزمین کے استعمال کو رُوکا جائے اُور پاکستان کو مطلوب دہشت گردوں سے یا تو اَفغان حکومت خود معاملہ کرے یا پاکستان کو سرحد پار کاروائیوں کی اجازت دی جائے۔ دوسری جانب امریکہ کے لئے پاکستانی قبائلی علاقوں میں اہداف کو ڈرون طیاروں سے نشانہ بنانے کے واقعات تو سینکڑوں کی تعداد میں ہیں لیکن افغانستان میں پاکستان دشمنوں کے خلاف ڈرون طیاروں کی کاروائیاں اُنگلیوں پر شمار کی جاسکتی ہیں۔
پاکستان سے ’ڈومور کا تقاضا‘ کرنے والوں پر دباؤ بنایا جا سکتا ہے‘ جنہیں نہ تو پاکستان کی چار دہائیوں سے زائد عرصے پر پھیلی میزبانی اُور ایثار دکھائی دے رہا ہے اور نہ ہی افغان جنگ میں پاکستان کی قربانیاں ہی قابل ستائش (قابل شمار) نظر آتی ہیں! حقیقت یہ ہے کہ اَفغان حکومت اُور اَمریکہ کی قیادت میں جملہ ’غیرملکی اِمدادی اِدارے‘ چودہ لاکھ قانونی اُور قریب اِتنے ہی غیرقانونی مہاجرین کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں اور اُن کے ہاں مقامی نقل مکانی کرنے والے (آئی ڈی پیز) کا بحران ہی حل نہیں ہورہا۔
پاکستان میں افغان مہاجرین کے قیام میں اب تک 5 مرتبہ توسیع کی گئی ہے۔ سال دوہزارنو میں اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے ’یو این ایچ سی آر‘ نے مہاجرین کی رجسٹریشن کا عمل شروع کرنے میں معاونت فراہم کی تھی‘ جس سے افغان مہاجرین کی رجسٹریشن کا عمل جاری ہے لیکن شناختی کارڈز کی معیاد مکمل ہونے پر بھی مہاجرین کی وطن واپس یقینی نہیں ہوگی۔ ابتدأ میں اقوام متحدہ کی جانب سے ’رضاکارانہ واپسی‘ کرنے والے مہاجرین کو 200ڈالر امداد دی گئی جو سال دوہزار سولہ میں بڑھا کر 400ڈالر کر دی گئی لیکن رضاکارانہ وطن واپسی کا عمل تیز نہ ہو سکا اور دوہزارسترہ کے دوران بمشکل 48ہزار مہاجرین رضاکارانہ طور پر افغانستان واپس گئے جبکہ دوہزار سولہ میں قریب چار لاکھ واپس گئے تھے۔ دوہزار سولہ کے مقابلے دوہزارسترہ میں افغان مہاجرین کی واپسی کا عمل سست ہوا۔ اکتوبر دوہزارسترہ میں رضاکارانہ واپسی پروگرام افغانستان میں سردیوں کی وجہ سے معطل کردیا گیا اور اُمید ہے کہ اِسے حسب پروگرام مارچ دوہزار اٹھارہ میں دوبارہ شروع کیا جائے گا۔
افغانستان میں امن و امان اور اقتصادی صورتحال کی وجہ سے افغان مہاجرین کے پاکستان میں قیام کو دسمبردوہزاراٹھارہ کے بعد مزید دو مرتبہ توسیع دی جا سکتی ہے۔ افغان مہاجرین کا سب سے زیادہ بوجھ ’خیبرپختونخوا‘ کے وسائل پر ہے۔ اگست دوہزارسترہ سے نیشنل ڈیٹابیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) نے ملک گیر مہم شروع کر رکھی ہے‘ جو رواں ماہ (جنوری دوہزار اَٹھارہ) میں مکمل ہو جائے گی‘ اُور اِس دوران مجموعی طور پر ’6 لاکھ 70 ہزار‘ مہاجرین رجسٹر کئے گئے‘ جن میں سے 3 لاکھ 50 ہزار کا تعلق خیبرپختونخوا سے ہے۔
وفاقی حکومت کے سامنے یہ معاملہ بھی زیرغور ہے کہ چھ ماہ سے اَفغان مہاجرین کے رجسٹریشن کے جاری عمل میں دو ماہ کی توسیع کر دی جائے۔ ظاہری امر ہے کہ مہاجرین کے قیام اور رجسٹریشن میں توسیع کا براہ راست اثر خیبرپختونخوا پر مرتب ہوگا‘ اور وفاقی حکومت کی ایسی کسی بھی فیصلہ سازی سے قبل صوبائی حکومت کی رائے (مشاورت) شامل ہونی چاہئے اور بالخصوص صوبائی وسائل میں بھی اضافہ کیا جائے‘ جو پہلے ہی ناقابل برداشت دباؤ میں ہے۔
۔
No comments:
Post a Comment