Wednesday, January 3, 2018

Jan 2018: Directionless development, example of Abbottabad!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
بے سمت ترقی !
کرداروں کے نام بدل گئے لیکن ’کہانی‘ نہیں۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ خیبرپختونخوا کے دیگر اَضلاع کی طرح ’اَیبٹ آباد‘ کے رہنے والوں نے اِس بیانیئے پر یقین کر لیا کہ ’’طرزحکمرانی (نظام) نہیں‘‘ بلکہ ذاتی‘ سیاسی و اِنتخابی ترجیحات رکھنے والے ’بددیانت حکمراں‘ اُن کی جملہ محرومیوں کے لئے ذمہ دار ہیں‘ جن سے نجات اُور جن کی مالی و انتظامی کارکردگی کا ’’بے رحم اِحتساب‘‘ ہونا چاہئے۔ 

مئی دوہزار تیرہ کے عام انتخابات کا مرحلہ درپیش تھا‘ ہر طرف جنون‘ تبدیلی اُور انقلاب کے نعرے سریلی آوازوں میں موسیقی کے ساتھ گونج رہے تھے۔ حد سے زیادہ توقعات وابستہ کرنا بھی بسا اُوقات ’خرابئ بسیار‘ اُور ’دل ٹوٹنے‘ کا سبب بنتا ہے۔ توقع تھی کہ بنیادی سہولیات کی فراہمی ممکن ہوگی۔ صحت و تعلیم کے شعبوں میں عام آدمی (ہم عوام) کو خدمات فراہم کرنے والے سرکاری اِداروں کی کارکردگی بہتر ہو گی۔ پینے کا صاف پانی‘ نکاسئ آب اُور شاہراؤں کی تعمیرومرمت و توسیع جیسی ضروریات کے لئے اراکین اسمبلی کی محتاجی نہیں رہے گی۔ طرزحکمرانی کا ایک ایسا شفاف و فعال نظام بنایا جائے گا‘ جس میں زمینی حقائق کے مطابق حسب ضرورت ترجیحات طے کی جائیں گی اور یہی محرک تھا جس کے پیش نظر ’’تبدیلی کے وعدے‘‘ پر ووٹ دیئے گئے لیکن خیبرپختونخوا کے طول و عرض کی طرح ایبٹ آباد میں بھی ’ترقیاتی عمل‘ انتخابی حلقوں اور سیاست کی نذر رہا۔ 

ساڑھے چار سال کی روداد یہ ہے کہ یونین کونسل میرپور (خیبرپختونخوا‘ اسمبلی کا انتخابی حلقہ پی کے 44) میں صوبائی خزانے سے 20 کروڑ روپے جیسی خطیر رقم خرچ کرنے کے باوجود بھی اگر مسائل کی شدت اور نوعیت جوں کی توں برقرار ہے تو یہ مالی وسائل کا دانستہ ضیاع اور مجرمانہ غلطی ہے۔
ایبٹ آباد کے رہائشی و تجارتی مراکز میں تمیز کرنا ممکن نہیں رہا۔ بے سمت ترقی اُور نقل مکانی کے رجحانات کی وجہ سے وسائل پر دباؤ میں ہر گزرتے دن اِضافہ ہو رہا ہے۔ 

’ایوب میڈیکل کالج و ٹیچنگ (کمپلیکس) ہسپتال‘ کامسیٹس انسٹی ٹیوٹ آف انفارمیشن ٹیکنالوجی‘ زرعی تحقیقاتی مرکز‘ کامرس کالج برائے خواتین اُور عسکری ڈیری فارم جیسی اہم تنصیبات پر مشتمل ’آفیسرزکالونی‘ (میرپور) ایبٹ آباد کا شہری علاقہ اُن 9 یونین کونسلوں کا مجموعہ ہے‘ جو ’پی کے 45‘ کا حصہ ہیں‘ جہاں ترقی کے نام پر صوبائی خزانے سے اب تک قریب ’بیس کروڑ‘ خرچ ہو چکے ہیں۔ محل وقوع کے حساب سے مذکورہ یونین کونسل کا بڑا حصہ قدیم بستیوں پر مشتمل ہے جو کاکول اور چھاؤنی (کینٹ) کی یونین کونسلوں سے جا ملتا ہے جبکہ اِس کا نسبتاً جدید علاقہ ’سول آفیسرز کالونی‘ نئی رہائشی بستیوں کا مرکز ہے۔ شاید ہی سول آفیسرز کالونی سے متصل علاقوں میں کوئی ایک بھی گلی ایسی ہوگی جہاں نجی تعمیرات کا سلسلہ جاری نہ ہوں۔ 

موٹر وے کے ایبٹ آباد سیکشن کی تعمیر اور چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبے کی تکمیل کے بعد یہ علاقہ جو فی الوقت ایبٹ آباد کا آخری حصہ ہے‘ آمدروفت کے لحاظ سے شروع میں آ جائے گا اور ایبٹ آباد آمد یا اخراج کرنے والوں کا استقبال ’میرپور‘ ہی کرے گی۔ اِن دنوں ’سول آفیسر کالونی‘ کے شاہراہ قراقرم سے داخلی راستے کی تعمیر صوبائی اسمبلی کے حلقہ ’پی کے 44‘ کے ترقیاتی فنڈز سے ہو رہی ہے۔ سڑک‘ فٹ پاتھ اور نکاسئ آب کے نالے کی تعمیر کے لئے 94 لاکھ روپے مختص کئے گئے ہیں اور گذشتہ پانچ برس میں دوسری مرتبہ اِس سڑک کی تعمیر ہو رہی ہے!

ترقیاتی کاموں کے لئے مختص مالی وسائل ضائع ہونے کا بڑا سبب منصوبہ بندی کا فقدان ہے۔ سول آفیسر کالونی اُور ملحقہ علاقہ جات پر مشتمل درجنوں بستیوں کی مرکزی شاہراہ کے ساتھ نکاسئ آب کا نالہ نہایت ضروری ہے‘ جو ماضی میں بھی تعمیر کیا گیا لیکن کم گہرائی کے سبب معمولی بارش کے بعد بھی ’اُوور فلو‘ ہو جاتا جس کے بعد پانی کا اکثر حصوں سے سڑک بہا لے گیا۔ رہی سہی کسر تعمیراتی سازوسامان لانے لیجانے والی ہیوی ٹریفک نے پوری کر دی۔ مذکورہ شاہراہ کے ایک طرف نکاسئ آب کا نالہ اور دوسری طرف ’ٹف ٹائیلز‘ سے فٹ پاتھ کی تعمیر ہونی چاہئے۔ 

ملٹری ڈیری فارم سے گندے پانی کی نکاسی کے لئے اِسی شاہراہ کا انتخاب کیا گیا ہے تاہم ٹھوس گندگی بہانے سے سول آفیسرز کالونی کی سبھی نالیاں بند رہتی ہیں اور اگر ’سی اینڈ ڈبلیو‘ فوجی حکام کو اِس بات پر قائل نہیں کرتے کہ بناء تطہیر (ٹریٹمنٹ) ٹھوس گندگی ملا پانی نہ بہایا جائے تو یہ مسئلے کا کسی بھی صورت پائیدار حل نہیں ہوگا بلکہ چند ہفتوں بعد ہی تعفن اور بدبو پھیلنے کا سبب بننے والا گندا پانی جابجا چھوٹے بڑے تالابوں کی صورت کھڑا دکھائی دے گا‘ جو موسم گرما میں مچھروں اور مکھیوں کی افزائش کا سبب بھی بنتا ہے۔ اگر کسی سول علاقے کا گندا پانی اور ٹھوس گندگی کسی چھاؤنی کی طرف بہا دی جاتی تو کیا فوجی حکام سویلین کی اِس غلطی کو معاف کرتے اور درگزر سے کام لیتے؟ اِن امور سے متعلق توجہ دلانے پر ’ورکس اینڈ کیمونیکشن ڈیپارٹمنٹ (سی اینڈ ڈبلیو)‘ کے اعلیٰ حکام نے یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ عسکری حکام سے بات چیت کریں گے اور ڈیری فارم سے بہائی جانے والی ٹھوس گندگی کا ٹھوس (مستقل) حل نکالا جائے گا۔ تاہم اب یہ بات متعلقہ رکن صوبائی اسمبلی کی دلچسپی و نگرانی پر منحصر ہے‘ جنہیں اگر فرصت نہیں تو اپنے ماتحت عملے یا علاقے سے منتخب ہونے والے بلدیاتی نمائندوں کو اِس کام کی نگرانی سونپ دینی چاہئے۔ 

کوئی بھی ایسا ترقیاتی منصوبہ جس کی مالیت پچاس لاکھ سے زیادہ ہو‘ اُس کی نگرانی کے لئے ’اہل علاقہ‘ یا جہاں منتخب بلدیاتی نمائندے میسر ہوں کی کم سے کم تین رکنی کمیٹی بنائی جائے‘ جو منظورشدہ منصوبے پر تعمیراتی کام کے تکمیلی مراحل کی نگرانی کرنے کا ذمہ دار ہو۔ طرزحکمرانی کی اصلاح اور شفاف طرز حکمرانی کے قیام پر مبنی نظام وضع کئے بناء کروڑوں اور اربوں روپے کے ترقیاتی کام بھی پائیدار ثابت نہیں ہوتے جس کی عملی مثالیں ہمارے اردگرد پھیلی ہیں‘ لیکن اگر ہم دیکھنا اُور غور کرنا چاہیں۔
۔

No comments:

Post a Comment