Thursday, January 4, 2018

Jan 2018: Pending work of KP education department

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
تبدیلی: پیش خیمہ محرکات!
پاکستان تحریک اِنصاف کی قیادت میں خیبرپختونخوا حکومت کی آئینی مدت (پانچ سال) مکمل ہونے میں گنتی کے چند مہینے ہی باقی ہیں۔ قریب پانچ سال کے عرصے میں ’بنیادی و ثانوی سرکاری تعلیمی اداروں‘ کی کارکردگی کا جائزہ لینے پر ایک ایسی ملی جلی صورتحال سامنے آتی ہے‘ جس کے مثبت و منفی پہلو ہم پلہ تو ہیں لیکن صوبائی حکمران باقی ماندہ (ادھورے) کام کے لئے بری الذمہ قرار نہیں دیئے جا سکتے! یہ بات درست ہے کہ پانچ سال کے دوران سرکاری سکولوں میں زیرتعلیم بچوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ یہ بھی درست ہے کہ خیبرپختونخوا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ غیرمعمولی تعداد میں بچوں کو نجی سکولوں سے سرکاری سکولوں میں داخل کرنے کا رجحان دیکھنے میں آیا۔ 

سرکاری سکولوں میں یونیفارم‘ نصابی کتب اور دیگر ضروریات کے علاؤہ بنیادی سہولیات کی فراہمی کا نظام بھی نسبتاً بہتر یا منظم ہوا‘ بلکہ اِن سکولوں میں تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کے لئے ماہانہ وظیفہ بھی مقرر کر دیا گیا‘ جو اگرچہ ماضی کی حکومت نے متعارف کیا تھا لیکن اِسے صوبے کے طول و عرض میں وسعت دی گئی۔ تجرباتی بنیادوں پر سرکاری سکولوں کے ٹرانسپورٹ کا بندوبست چند اضلاع تک محدود ہے اور اُمید ہے کہ آنے والے دور میں اِسے وسعت دی جائے گی لیکن برسرزمین تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ تعلیمی ایمرجنسی (ہنگامی حالات) کے نفاذ کے باوجود بھی آج کے خیبرپختونخوا میں ’پندرہ لاکھ‘ سے زائد بچے سرکاری یا نجی سکولوں سے استفادہ نہیں کر رہے۔ ایسے سرکاری سکول بھی ہیں جن کی چاردیواریاں نہیں اور سینکڑوں کی تعداد میں سرکاری سکولوں میں بنیادی سہولیات جیسے پینے کا پانی اور بیت الخلاء سے محروم ہیں آخر کیوں!؟

نومبر دوہزار سترہ میں ’بنیادی و ثانوی (صوبائی) وزارت تعلیم‘ کے نگران ادارے ’انڈی پینڈنٹ مانیٹرنگ یونٹ‘ کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق خیبرپختونخوا کے ’سولہ فیصد‘ سرکاری سکولوں میں پینے کا پانی دستیاب نہیں۔ مزید پانچ فیصد سرکاری سکولوں میں بیت الخلاء نہیں۔ تیئس فیصد میں بجلی اور پانچ فیصد سرکاری سکولوں کی چاردیواریاں نہیں ہیں! 

صوبائی حکومت نے تعلیم کا معیار بہتر بنانے کے لئے چالیس ہزار اساتذہ ’اہلیت کی بنیاد پر بھرتی کئے‘ جس کی وجہ سے طلبہ کی تعداد کے تناسب سے فی معلم شرح چالیس ہو سکے۔ صوبائی حکومت کا دعویٰ ہے کہ اُس نے 80ہزار اساتذہ کو انگریزی زبان اور انگریزی میں مضامین پڑھانے کی تربیت دی لیکن اِن سبھی اخراجات سے شعبۂ تعلیم کا کم اُور نجی اداروں سمیت پہلے سے مراعات یافتہ سرکاری ملازمین کو ذاتی طور پر نسبتاً زیادہ فائدہ ہوا۔ اساتذہ کی تنخواہیں بڑھا دی گئیں! جو کام اور معیار نجی تعلیمی ادارے نہایت ہی کم لاگت میں کر رہے ہیں‘ اُس کے لئے صوبائی خرانے سے اربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود بھی قریب پانچ سال بعد ہم وہیں کھڑے ہیں جہاں سرکاری اِداروں کو نجی اداروں کے مقابلے بطور مثال پیش نہیں کیا جاسکتا۔ 

صوبائی حکومت کا دعویٰ ہے کہ اِس نے سال دوہزار سترہ کے دوران ’بارہ ہزار اضافی کلاس رومز‘ تعمیر کئے اور سرکاری تعلیمی اداروں میں قرآن کریم کی ناظرہ تعلیم لازمی قرار دی لیکن کیا صوبائی حکومت کی ذمہ داری صرف اور صرف سرکاری سکولوں کی حد تک ہی محدود ہے اُور اِسے بنیادی و ثانوی نجی تعلیمی اداروں کے معاملات سے کوئی غرض نہیں رکھنی چاہئے!؟ 

المیہ نہیں تو کیا ہے کہ نجی تعلیمی ادارے والدین کی مجبوریوں کا فائدہ اٹھانے کے لئے پہلے سے زیادہ منظم اور لوٹ مار میں مصروف ہیں۔ ماہانہ ٹیوشن فیسوں میں من چاہا اضافہ‘ پیشگی فیسیں‘ حیلوں بہانوں سے مختلف مدوں میں وصولیاں‘ ایک سے زیادہ زیرتعلیم بہن بھائیوں کی فیسوں میں رعائت سے انکار اُور نجی سکولوں سے وابستہ اساتذہ کا ’’استحصال‘‘ سب کچھ کھلے عام ہو رہا ہے‘ جو تبدیلی لانے کے دعویداروں کے لئے ’لمحۂ فکریہ‘ ہونا چاہئے۔ وزیراعلیٰ پرویز خٹک‘ وزیرتعلیم عاطف خان کو خوشامدی حلقوں‘ غیرسرکاری تنظیموں اور اپنی شان میں مضامین لکھنے والے تجزیہ کاروں کی بجائے اپنے آپ سے پوچھنا چاہئے کہ اُن سے وابستہ اُمیدیں کس حد تک پوری ہوئیں اور وہ کس قدر تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوئے ہیں!؟

حرف آخر: خیبرپختونخوا میں خواتین کے حقوق اور خواتین سے متعلق پالیسی سازی‘ قوانین سازی‘ قوانین کے اطلاق اور متعلقہ سماجی و سیاسی روئیوں پر نظر رکھنے والے سرکاری ادارے نے ویب سائٹ (kpcsw.gov.pk) کا اجرأ کیا ہے جس کا مقصد ’خواتین کو (زیادہ) بااختیار‘ بنانا ہے اور اِس ’ویب سائٹ منصوبے‘ کے لئے مالی وسائل آسٹریلیا حکومت اور غیرملکی امدادی ادارے نے فراہم کئے ہیں۔ یاد رہے کہ یہ ادارہ 2009ء میں قائم کیا گیا تھا جس کے قواعد و ضوابط میں خیبرپختونخوا اسمبلی نے 2016ء میں تبدیلی (ترمیم) کی تھی اور دوہزارنو سے دوہزار سولہ اور دوہزار سولہ سے دوہزار اٹھارہ تک کے سفر میں اِس ادارے نے خواتین سے متعلق درجنوں دستاویزات (رپورٹیں) جاری کی ہیں‘ جن سے خواتین کو درپیش مشکلات کو گہرائی سے سمجھا تو جا سکتا ہے لیکن اِس سمجھ بوجھ سے بہتری دیکھنے میں نہیں آئی ہے۔ 

بہرحال اُمید کی جا سکتی ہے کہ ’نئے سال (دوہزار اٹھارہ) کے موقع پر (دو جنوری) جاری ہونے والی اِس ویب سائٹ کا حال اور کارکردگی دیگر حکومتی ویب سائٹس جیسا نہیں ہوگا‘ جہاں نہ تو تازہ ترین معلومات (اپ ڈیٹ ڈیٹا) ملتی ہیں اور نہ ہی اُن کے ذریعے رابطہ کرنے پر سرکاری محکموں کی جانب سے سوالات کے جوابات دیئے جاتے ہیں۔ عمومی رویہ (طریقۂ کار) یہی ہے کہ دوست ممالک اور غیرملکی امدادی اداروں کو بلند بانگ دعوؤں کے ذریعے سبز باغ دکھا کر مالی امداد حاصل کر لی جاتی ہے۔ 

غیرسرکاری نجی تنظیمیں (این جی اُوز) رپورٹ رائٹنگ میں خصوصی مہارت رکھتی ہیں اور معمولی سے معمولی واقعات کو بھی اس قدر تفصیل اور چونکا دینے والے پیرائے میں بیان کیا جاتا ہے کہ امداد دینے والے انکار نہیں کر پاتے۔ ہر اچھے کام (پراجیکٹ) کے درپردہ ایسی کہانیاں ہمارے اِردگرد بکھری پڑی ہیں۔ ’این جی اُوز‘ مافیا کے طور پر منظم اور پہلے سے زیادہ فعال‘ منافع بخش کاروبار جاری رکھے ہوئے ہیں‘ جنہیں سرکاری سرپرستی بھی حاصل ہے۔ لمحۂ فکریہ ہے کہ خواتین کی حالت زار میں تبدیلی کسی ’دیدہ زیب ویب سائٹ‘ کے ذریعے نہیں بلکہ قوانین کے اطلاق‘ غربت میں کمی اور خواتین کے لئے روزگار اور سماجی و سیاسی شراکت داری کے ذریعے ممکن ہے۔ ایک ایسا صوبہ جہاں چند روز قبل خواتین کو ووٹ دینے سے روکا گیا اور وہاں انتخابات بھی تاحال کالعدم نہیں قرار دیئے گئے تو سرد موسم کی طرح فیصلہ سازوں کے سرد روئیوں کی موجودگی میں کوئی ویب سائٹ تبدیلی کا پیش خیمہ اور کس قدر آتش فشاں ثابت ہوگی‘ بس یہی دیکھنا باقی رہ گیا ہے!
۔

No comments:

Post a Comment