ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
پاک چین دوطرفہ مفادات!
چین پاکستان اِقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبے سے متعلق عمومی خیال یہی کیا جاتا ہے کہ اِس کے ذریعے سازوسامان کی نقل و حمل ہو گی اور پاکستان کے زمینی راستوں کا استعمال کرتے ہوئے چین اپنی مصنوعات عالمی منڈیوں تک پہنچانے کے لئے ایسا متبادل راستہ (راہداری) تعمیر کرنا چاہتا ہے جس سے خطے کی منڈیوں تک اُس کی رسائی کم خرچ اور کم وقت میں ممکن ہو سکے۔
اُنتیس دسمبر کو چین کا سات دورہ مکمل کرنے والے پاکستان کے پارلیمانی وفد کے سامنے ’سی پیک‘ کے جو خدوخال‘ رکھے گئے اُن سے معلوم ہوا ہے کہ یہ مرحلہ وار منصوبہ کسی بھی طرح صرف راہداری کی حد تک محدود نہیں اور اِس بات کو تقویت ’اسٹیٹ بینک آف پاکستان‘ (مرکزی قومی مالیاتی ادارے) کے اِس بیان سے بھی ملتی ہے کہ ’’چین اور پاکستان کے مابین دوطرفہ تجارتی امور میں چینی کرنسی یوان میں کاروبار کے لئے تمام تر انتظامات کئے جا چکے ہیں۔‘‘ اِس سے قبل (اُنیس دسمبر دوہزارسترہ) وفاقی احسن اقبال (اُس وقت وفاقی وزیر برائے ترقی اور منصوبہ بندی) نے یہ ارادہ ظاہر کیا تھا کہ ’’پاکستان کی حکومت چین سے دوطرفہ تجارت کے لئے امریکی ڈالر کے بجائے چینی کرنسی ’یوان‘ کے استعمال کا جائزہ لے رہی ہے۔‘‘ یاد رہے کہ ایک یوان (Yuan) کی پاکستانی کرنسی میں شرح تبادلہ (4 جنوری2018ء کے روز) ’’17 روپے چار پیسے‘‘ تھے اور سال دو ہزار سترہ کے دوران یوان کی قدر مسلسل مستحکم ہو رہی ہے۔ چین نے بلوچستان گوادر میں تجارتی سرگرمیوں کے لئے امریکی ڈالر کے بجائے ’یوان‘ کے استعمال کی تجویز دی تاہم وفاقی حکومت نے یہ تجویز مسترد کردی تھی اور اقتصادی تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان کو چین کی زیادہ سے زیادہ توجہ حاصل کرنے کے لئے خاص حد سے آگے نہیں جانا چاہئے کیونکہ چین کے مقابلے امریکہ اور یورپی ممالک پاکستانی مصنوعات کی بڑی منڈیاں ہیں۔
امریکی صدر ٹرمپ کے دباؤ سے نکلنے کے لئے پاکستان اقتصادی و تجارتی شعبوں میں نئے امکانات پر غور کر رہا ہے اور اِس میں کوئی مضائقہ نہیں اگر نتائج حسب حال و توقع رہیں۔ چین کی قیادت پاکستان کے حق میں بیانات جاری کرنے میں دیر نہیں کرتی لیکن اُس کی عالمی سفارتکاری کے ساتھ پاکستان کو اقتصادی (مالی) تعاون اور چین کی منڈیوں تک رسائی بھی درکار ہے۔ اسٹیٹ بینک نے چین کے ساتھ تجارتی سرگرمیوں کے حوالے سے اگر ’’جامع پالیسی‘‘ مرتب کی ہے‘ جس کے تحت مستقبل قریب میں درآمدات‘ برآمدات اور مالیاتی لین دین میں چینی کرنسی پر انحصار کیا جا سکے گا تو اِس بارے میں معلومات (تفصیلات) نہ ہونے کے برابر دستیاب ہیں!
وفاقی سطح پر آزاد پالیسی اختیار کی گئی ہے یعنی چین اور پاکستان کے سرکاری اور نجی مالیاتی اداروں کو دو طرفہ تجارت اور سرمایہ کاری کی سرگرمیوں کے لئے ’یوان (چینی کرنسی)‘ کے انتخاب کرنے میں خود فیصلہ کرنے کا اختیار دیا گیا ہے اور اِس میں حکومت کی جانب سے کسی قسم کا دباؤ نہیں ہوگا۔ چینی کرنسی یوان (آر ایم بی) اب پاکستان میں غیر ملکی کرنسی کی صورت میں لین دین کے لئے منظور شدہ کرنسی کا درجہ حاصل کر چکی ہے اُور اِس ضمن میں پاکستان کے مرکزی بینک نے تمام ضروری ریگولیٹری فریم ورک بھی تیار کرلیا جس میں تجارتی اور سرمایہ کاری کے معاملات مثلاً لیٹر آف کریڈٹ (ایل سی) اور فنانسنگ کی سہولیات چینی کرنسی میں ہو سکیں گی۔
مالی سال دوہزارسترہ میں پاکستان نے ’ایک ارب باسٹھ کروڑ ڈالر‘ مالیت کی مصنوعات اور خدمات (سروسز) چین کو برآمد کیں جبکہ چین سے درآمد کا حجم ’دس ارب ستاون کروڑ ڈالر‘ تھا جو غیرمعمولی تجارتی عدم توازن ہے۔ اصل ضرورت پاکستان اور چین کے درمیان تجارتی خسارہ پاکستان کے حق میں کرنا ہے جس کے لئے دونوں ممالک کے مابین آزاد تجارتی معاہدہ (ایف ٹی اے) پر حتمی فیصلہ لینا باقی ہے۔ وفاقی حکومت کو جو کام پہلے کرنا تھا وہ سردخانے میں پڑا ہوا ہے لیکن کرنسی کے استعمال بارے چین کی دیرینہ خواہش پوری کر دی گئی ہے!
اسٹیٹ بینک کی جانب سے تمام مقامی بینکوں کو بھی چینی کرنسی یوان میں ڈیپازٹ اور تجارتی قرض دینے کی اجازت دے دی گئی ہے یعنی پاکستانی بینکوں میں ڈالر کی طرح چینی کرنسی میں بھی اکاونٹس کھولے جا سکیں گے لیکن صرف تصدیق شدہ ڈیلرز ہی بیرونی رقم والا اکاؤنٹ کھولنے اور تجارتی قرضہ دینے کے اہل ہوں گے۔ پاکستان میں ’’بینک آف چائنا‘‘ کے آغاز کے ساتھ ہی چین کی ’’آن شور‘‘ مارکیٹ تک رسائی مزید مضبوط ہوجائے گی جبکہ پاکستان میں متعدد نجی بینک ’’آن شور‘‘ یوآن اکاؤنٹس برقرار رکھ سکیں گے۔ اُمید ہے کہ ’سی پیک‘ کے تناظر میں چین کے ساتھ بڑھتی ہوئی تجارتی اور مالیاتی سرگرمیوں سمیت مقامی اور عالمی منڈیوں میں معاشی ترقی میں ’یوآن‘ کا اِستعمال مؤثر رہے گا اُور دونوں ممالک تعاون کی اِس نئی جہت
سے طویل المدتی فائدہ اُٹھا سکیں گے۔
پاکستان کی کرنسی پر ڈالر کے مقابلے دباؤ بدستور موجود ہے۔ ’اوپن مارکیٹ‘ کے حوالے سے پیدا ہونے والے خدشات کے باعث قومی بینک نے غیر ملکی کرنسیوں کی برآمدات کے مقابلے میں کیش ڈالر کی درآمدی ضرورت کو پینتیس فیصد تک محدود کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اِس سلسلے میں غیرملکی کرنسیوں کو متحدہ عرب امارات (دبئی) برآمد کرنے کے لئے سوفیصد کی بجائے صرف پینتیس فیصد کیش ڈالر استعمال کئے جائیں گے۔
برآمدات میں مسلسل کمی اور درآمدات میں مسلسل اضافے کے باعث قومی زرمبادلہ کے ذخائر گھٹ رہے ہیں۔ یہ صورتحال قومی معیشت کے لئے تشویشناک ہے کیونکہ تجارتی مقاصد سے ہٹ کر بھی ڈالر کا بیرون ملک اخراج جاری ہے جو اس امر کا عکاس ہے کہ ’فارن ایکس چینج‘ پر قومی اداروں کی گرفت کمزور ہے اور یہ دھندا زیادہ تر ’کرنسی ایکس چینج کے نجی مراکز‘ کے توسط سے ہو رہا ہے۔
بعض ممالک کی کرنسیاں جن میں یورپی منڈی کا یورو‘ جاپان کا ین‘ چین کا یوآن اور برطانیہ کا پاؤنڈ خصوصاً قابل ذکر ہیں‘ عالمی مارکیٹ میں لین دین کے لئے استعمال ہو رہی ہیں لیکن اس کے باوجود دنیا بھر کی بڑی اور چھوٹی معیشتیں ڈالر کے ساتھ بندھی ہوئی ہیں۔ اگرچہ چینی کرنسی سے متعلق فیصلے کی ’’کرنسی ایکس چینج‘‘ والوں نے مخالفت کی ہے لیکن قومی بینک کا فیصلہ وقت کی ضرورت دکھائی دیتا ہے۔ دوسری طرف قومی روئیوں کی اصلاح بھی ضروری ہے کیونکہ پاکستانیوں کی ایک تعداد ایسی ہے جو مقامی کرنسی (پاکستانی روپے) کے عوض ڈالر خرید لیتے ہیں‘ یہ وہ لوگ ہیں جن کی تعلیمی اغراض‘ سیاحتی مقاصد یا بیرون ملک سفر کرنا ہوتا ہے۔ پھر ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جو خفیہ طریقوں سے اپنے اثاثے (کالا دھن) ڈالر کی شکل میں بیرون ملک منتقل کر رہے ہیں۔ اِس صورتحال میں اصلاح کی ضرورت تھی۔ پاکستان اور پاکستان کی معیشت میں اعتماد کی بحالی کے لئے سیاسی رہنماؤں کو خود عملی مثال بننا ہوگا‘ جنہوں نے اپنے اثاثے اور اہل و عیال بیرون ملک محفوظ رکھے ہوئے ہیں۔
No comments:
Post a Comment