Saturday, January 6, 2018

Jan 2018: Lack of Burn Unit in KP, priorities exposed!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
جلے‘ اَن جلے: سکھ دُکھ!
خیبرپختونخوا میں طبی سہولیات کے معیار اُور دستیابی کا اَندازہ اِس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ دہشت گرد حملوں‘ آتشزدگی یا گھریلو و دیگر تنازعات کی وجہ سے آگ کے زخمی یا خودسوزی کرنے والوں کے علاج معالجے کے لئے صوبے میں ایک بھی خصوصی طبی سہولت (ہسپتال) موجود نہیں۔ زیادہ آسان یہی تھا کہ موجودہ ہسپتالوں میں ’برن یونٹ‘ قائم کئے جاتے اور ایسا کیا بھی گیا لیکن سب کچھ ’خانہ پری‘ کی حد تک محدود پیمانے پر ہے۔ 

صوبائی فیصلہ سازوں کی ترجیحات کا اندازہ لگانا بھی قطعی مشکل نہیں کہ جنہیں اِس بارے میں سوچنے اور حالات کی سنگینی کا اندازہ لگانے کی فرصت نہیں۔ عجب ہے کہ ہمیں ’موٹروے‘ میٹرو اور تیز رفتار (ریپیڈ بس) کی ضرورت تو ہے بھلے ہی پینے کے صاف پانی سے لیکر علاج معالجے کی سہولیات تک کچھ بھی نہ تو معیاری ہو اور نہ ہی عمومی ضروریات کے مطابق پورا اُترے۔ چار جنوری کے روز اَندرون پشاور کے ’تھانہ کوتوالی‘ میں انوکھا واقعہ پیش آیا جب ایک خاتون تیز قدموں سے چلتے ہوئے تھانے میں داخل ہوئی اور اُس نے آن کی آن خود کو آگ لگا لی۔ پولیس کے مطابق ’’اٹھائیس سالہ مسماۃ سلمیٰ کو اُس کے شوہر نے چار سال قبل طلاق دی تھی‘ جس کے بعد اُس نے دوسری شادی کر لی لیکن مسماۃ سلمیٰ اُسی گھر میں مقیم تھی اور جب اُس کے سابق شوہر نے کرائے کا مطالبہ کیا تو اِس پر آئے روز جھگڑوں کے بعد جرگہ میں فیصلہ ہوا کہ مسماۃ سلمیٰ سات ہزار روپے ماہانہ کرایہ ادا کرے گی اور جلد کسی دوسرے گھر منتقل ہو جائے گی۔ اِس حل کے بعد مسماۃ سلمیٰ جب ایک سے زائد مرتبہ اپنا سامان لینے سابق شوہر کے گھر گئی تو اُس کی بیوی نے جھگڑا کر کے واپس کر دیا اور کہا کہ وہ پولیس تھانے سے اپنا سامان وصول کرے۔ یہ بات پہلے ہی سے دل برداشتہ سلمیٰ کے لئے صدمے کا باعث بنی اور اُس نے خود پر آتش گیر محلول چھڑکنے کے بعد تھانے کے اندر پہنچ کر آگ لگا لی۔‘‘ 

پولیس یہ بقول یہ سب اِس قدر اچانک ہوا کہ موقع پر موجود ایک سے زیادہ پولیس اہلکار کچھ نہ کر سکے اور اُس کا جسم 98 فیصد دیکھتے ہی دیکھتے جل گیا۔ پولیس کی بیان کردہ اگر اِس کہانی کو ’سوفیصد‘ درست بھی تسلیم کر لیا جائے تب بھی کئی سوال اُٹھتے ہیں۔ چیخ و پکار کرتی خاتون پولیس تھانے کے اندر جل کر خاکستر ہو گئی‘ جہاں آگ بجھانے والے کیمیائی آلات موجود نہیں تھے۔ گھریلو تنازع میں باخبر پولیس (متعلقہ تھانے کے اہلکاروں) کا اِس پورے معاملے میں کردار کیا رہا‘ جس کی الگ سے تحقیقات ہونی چاہئے۔ مسماۃ سلمیٰ کو طبی امداد کے لئے اسلام آباد منتقل کرنا پڑا‘ تاہم ڈاکٹروں کے مطابق اُس کے صحت یاب ہونے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں‘ جس کی کئی وجوہات میں یہ بات بھی شامل ہے کہ اُسے مخصوص طبی امداد کئی گھنٹوں کے بعد ملی۔ المیہ در المیہ یہ ہے کہ پشاور میں انتہائی جلے ہوئے مریضوں کے علاج معالجے کی سہولیات دستیاب نہیں اور مختلف ہسپتالوں میں کئے گئے عارضی بندوبست بھی اِس ناکافی ہیں جہاں فوری طور پر انتہائی نگہداشت کی ضرورت والے مریضوں کا علاج معالجہ ممکن نہیں ہے!

تصور کیجئے ایک ایسے پشاور کا جہاں صحت کے شعبے میں تبدیلی کے وعدوں کو اُن کی روح کے مطابق عملی جامہ نہیں پہنایا گیا۔ آگ سے جلے یا جھلسے ہوئے مریضوں کو جب قریبی یا مرکزی ہسپتالوں میں پہنچایا جاتا ہے تو اُنہیں خبر دی جاتی ہے کہ وہ بڑے بڑے ناموں والی اِن علاج گاہوں اور ایک سے بڑھ کر ایک ماہر ڈاکٹر کی تعلیمی اسناد اور تجربے سے مرعوب نہ ہوں او رنہ ہی کروڑوں روپے سالانہ حکومتی اِمداد رکھنے والے اِن ہسپتالوں سے توقع کریں کہ وہاں ’برن یونٹ‘ موجود ہیں بلکہ ’برن یونٹ‘ کے نام پر فراہم کی جانے والی سہولیات سطحی ہیں! حیات آباد میڈیکل کمپلیکس میں تعمیر ہونے والا ’برن یونٹ‘ کا تعمیراتی کام تین برس سے مکمل ہے لیکن اُس کے فعال نہ ہونے کی وجہ درکار مالی وسائل کی کمی ہے۔ اِس سلسلے میں وفاقی اور صوبائی حکومتیں اپنی اپنی ذمہ داریوں کا بوجھ ایک دوسرے پر ڈال رہی ہیں تو ’’کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں!؟‘‘ 

سرکاری اعدادوشمار کے مطابق ہر سال پشاور کے مختلف ہسپتالوں میں آگ سے جلے یا جھلسے ’8 ہزار‘ سے زائد مریضوں کو لایا جاتا ہے لیکن ناکافی سہولیات کی وجہ سے اُن کی اکثریت کو وفاق یا پنجاب بھیج (ریفر کر) دیا جاتا ہے۔ خیبرپختونخوا کے چار (برن یونٹ ایوب ٹیچنگ ایبٹ آباد‘ برن یونٹ خلیفہ گل نواز بنوں‘ برن یونٹ خیبرٹیچنگ پشاور اور برن یونٹ حیات کمپلیکس پشاور) میں سے کوئی ایک بھی ’برن یونٹ‘ ایسا نہیں جہاں 40فیصد سے زائد جلے ہوئے مریضوں کا علاج ہو سکے۔ ایسے مریضوں کو ’سی ایم ایچ کھاریاں یا واہ کینٹ بھیج دیا جاتا ہے جہاں زیرعلاج کل مریضوں میں سے 80 فیصد کا تعلق خیبرپختونخوا سے ہوتا ہے۔

حیات آباد میڈیکل کمپلیکس میں ’برن یونٹ‘ 60 بستروں پر مشتمل ہے جس کی تعمیر پر ڈیرھ ارب روپے لاگت آئی لیکن آلات و دیگر سازوسامان کی خریداری کے لئے درکار مزید رقم فراہم نہیں کی جا رہی! یہ امر لائق توجہ ہے کہ خیبرپختونخوا میں جدید سہولیات سے آراسہ ’برن یونٹ‘ کے نہ ہونے سے صرف اِس صوبے کے مریض ہی نہیں بلکہ قبائلی علاقہ جات سے آنے والوں مریضوں اور اُن کے تیمارداروں کو مشکلات کا سامنا ہے اور اکثر مریض دور دراز ہسپتالوں تک پہنچنے میں وہ ’’قیمتی عرصہ‘‘ گزار دیتے ہیں‘ جو نہایت ہی اہم ہوتا ہے اور اگر اُن کا فوری علاج معالجہ شروع ہو جائے تو مریض کے بچنے کی اُمید (چانس) زیادہ ہوتے ہیں۔ 

خیبرپختونخوا کے ہسپتالوں میں آگ سے جلے یا جھلسے ہوئے مریضوں کے علاج معالجے کی فراہم کردہ سہولیات ’مرہم پٹی‘ کی حد تک محدود کیوں ہیں‘ جہاں متاثرہ مریض کی نہیں بلکہ اُس کے تیمارداروں اور عزیزوں کی تسلی و تشفی سے زیادہ کچھ حاصل نہیں ہوتا‘ آخر کیوں!؟ 

دہشت گردی سے نمٹنے اور صف اوّل کا کردار ادا کرنے والے خیبرپختونخوا میں ’برن یونٹ‘ کی فوری ضرورت اور اِس ضرورت کی فراہمی میں غیرضروری تاخیر ’مجرمانہ غفلت‘ میں شمار ہوتی ہے۔ تصور کیجئے کہ چوبیس نومبر دوہزار سترہ کے روز ’حیات آباد میڈیکل کمپلیکس‘ کے قریب ایڈیشنل انسپکٹر جنرل پولیس کے قافلے کو دہشت گرد حملے میں نشانہ بنایا گیا لیکن اِس بارودی دھماکہ کے نتیجے میں جلے ہوئے زخمیوں کو چند منٹ کے فاصلے پر قریبی ہسپتال کی بجائے گھنٹوں کی مسافت پر دوسرے صوبے کے ’برن یونٹ‘ لیجانا پڑا۔ اگر حساسیت ہو تو ہمارے سیاسی و غیرسیاسی فیصلہ ساز اُس دکھ اور جلن کی شدت محسوس کر سکتے ہیں جن سے زخمیوں گزرتے ہوں گے اور جسے برداشت کرنے کی سکت نصف سے زائد ایسے مریضوں میں نہیں ہوتی اور وہ علاج گاہوں تک پہنچنے سے پہلے زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں!
۔

No comments:

Post a Comment