Sunday, January 7, 2018

Jan 2018: FATA Reforms & the delaying factors!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
برداشت کی آخری حد!
وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقوں (فاٹا) سے متعلق اصلاحاتی عمل غیرضروری طوالت کا شکار ہے اور اگر یہ بات عوام کے نکتۂ نظر سے محسوس کی جارہی تو وفاقی اور صوبائی فیصلہ سازوں کو اپنے قول و فعل پر غور کرنا چاہئے‘ جن کے ’تجاہل عارفانہ‘ کی وجہ سے نہ صرف قبائلی عوام کا استحصال جاری ہے بلکہ ملک کی سلامتی اور بالخصوص خیبرپختونخوا میں امن و امان کی صورتحال میں بہتری اُس وقت ممکن ہی نہیں جب تک قبائلی علاقوں کی امتیازی حیثیت تبدیل کرکے اُنہیں ملک کے دیگر (بندوبستی) علاقوں کی طرح مساوی حقوق نہیں دیئے جاتے۔ 

سیاسی فیصلہ سازوں کی عقل پر پردہ ’بیوروکریسی (اعلیٰ انتظامی عہدوں پر فائز افسرشاہی) نے بھی ڈال رکھے ہیں جو اپنے مفادات کے لئے اِصلاحاتی عمل کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر رہی ہے۔ اٹھارہ دسمبر دوہزار سترہ کے روز صوبائی حکومت کی جانب سے قبائلی علاقوں کو خیبرپختونخوا میں ضم کرنے سے متعلق آئینی ترمیم کے لئے ’سات سفارشات‘ تحریری طور پر ارسال کی گئیں جنہیں ’صیغۂ راز‘ میں رکھنے کی کوئی وجہ سمجھ نہیں آتی ماسوائے معاملے کو طول دینے اور اِسے غوروخوض کے مراحل ہی کی نذر کر دینا مقصود ہو۔ اِس سلسلے میں قانونی امور کے ماہر سے ہوئی تفصیلی بات چیت کا احوال پیش ہے جس کا مقصد اِس جانب اشارہ بھی مقصود ہے کہ اے کاش کہ قبائلی علاقوں کی طرح دیگر آئینی ترمیم کے بارے میں اِسی قدر غوروخوض خیبرپختونخوا حکومت کی جانب سے اُس وقت بھی دیکھنے میں آتا یا مستقبل میں آئے جب وہ صوبائی قانون سازی کرتی ہے اور کئی قوانین تو ایسے ہیں جو صوبائی اسمبلی میں سالہا سال سے التواء میں پڑے ہوئے ہیں‘ جن میں مفادات سے متصادم امور کو روکنے کی قانون سازی بھی شامل ہے!

فاٹا اصلاحات سے متعلق ’قومی عمل درآمدی کمیٹی‘ کو ارسال کردہ سات سفارشات میں پہلا نکتہ آئین کی پہلی شق سے متعلق ہے جس میں پاکستان کے چار صوبوں اور قبائلی علاقہ جات کا الگ الگ ذکر کیا گیا ہے جبکہ آئین کی 51ویں شق میں جہاں قومی وسائل کو صوبوں کی آبادی کے لحاظ تقسیم کرنے کی بات کی گئی ہے تو آئینی مسودے میں اِن دونوں مقامات پر تبدیلیاں کی جائیں گی۔ خیبرپختونخوا حکومت کی تشویش میں شامل ہے کہ اگر قبائلی علاقوں کو خیبرپختونخوا میں ضم کیا جائے تو اس سے صوبائی وسائل پر بوجھ بڑھے گا لیکن اگر وفاقی حکومت قبائلی علاقوں کے لئے ابتداء میں زیادہ مالی وسائل مختص کرے تاکہ سرکاری دفاتر اور انتظامی ڈھانچے کا قیام عمل میں لایا جاسکے تو اِس عمل کی تکمیل کے لئے پھر بھی کم سے کم دس برس درکار ہوں گے۔ صوبائی حکومت دس برس تک قبائلی علاقوں کے لئے خصوصی امدادی پیکج چاہتی ہے‘ جو اِن علاقوں کے لئے عمومی اخراجات کے علاؤہ ہوں۔ ایک ایسے وقت میں جبکہ اَمریکہ کی جانب سے پاکستان کی ’دفاعی اِمداد‘ روک لی گئی ہے‘ قبائلی علاقوں کے لئے کسی بڑے مالی امدادی پیکج کا سوچنا یا مطالبہ کرنا خودفریبی کے زمرے میں شمار ہوگا۔

قانون ساز ایوان بالا (سینیٹ) میں آئین کی ’62 ویں شق‘ کے تحت چاروں صوبوں کے لئے مساوی نشستیں مخصوص ہیں‘ اگر قبائلی علاقوں کا خیبرپختونخوا میں ضم ہو جاتا ہے تو اِن میں قبائلی علاقوں کی سینیٹ میں الگ سے نمائندگی نہیں ہوگی‘ اِس لئے مذکورہ آئین کے آرٹیکل سے فاٹا کو منہا کرنا پڑے گا۔ اِسی طرح آئین کی ’106ویں شق‘ کے مطابق قبائلی علاقوں کی صوبائی اسمبلی میں نمائندگی موجود نہیں جس کا اضافہ کرنے کے لئے اِس شق میں بھی ترمیم کرنا پڑے گی۔ آئین کی ’155ویں شق‘ میں قبائلی علاقوں کی الگ حیثیت کا ذکر ہے جو پینے کے پانی سے متعلق شکایات سے ہے۔ آئین کی شق 246 اور 247 میں قبائلی علاقوں کی انتظامی حیثیت کا بیان کیا گیا ہے اور یہ دونوں شقیں بھی ترمیم کرنا پڑیں گی۔ قبائلی علاقوں میں آزادانہ نظام عدل و انصاف (جوڈیشل سسٹم) قائم کرنے کے لئے پارلیمنٹ کو قانون (ایکٹ) کی منظوری سے ہائی کورٹس اور سپرئم کورٹ کے دائرہ اختیار کو قبائلی علاقوں تک وسعت دینا ہوگی اُور ایسا کرنے کے لئے صدر پاکستان کی منظوری بھی درکار ہوگی کیونکہ بناء صدر پاکستان کی منظوری سول کورٹس آرڈیننس 1962ء‘ کریمینل پروسیجرز کوڈ 1898ء اُور ’لینڈ ریونیو ایکٹ 1967ء‘ کا اطلاق قبائلی علاقوں پر نہیں ہو سکے گا۔ اِس منظوری سے ججوں کی تعیناتی اور عدلیہ کے معاملات کی پشاور ہائی کورٹ کے ذریعے نگرانی بھی ممکن ہوگی جس کے لئے ’1973ء کے آئین پاکستان‘ کی 247ویں شق کو ختم کرنا بھی پڑے گا اور اگر یہ مرحلہ بھی خوش اسلوبی سے طے ہو جاتا ہے تو اِس سے کئی دیگر معاملات کا بھی خودبخود اطلاق ہو جائے گا جیسا کہ لیویز کی اصلاحات‘ جیل خانہ جات کے نظام کا قیام‘ مواصلاتی نظام اُور قبائلی علاقوں میں اِصلاحات سے متعلق عوام کی آگہی مہمات وغیرہ۔ خیبرپختونخوا حکومت کا اِس بات پر زور دینا کہ قبائلی علاقوں سے متعلق اصلاحات کے بارے میں وہاں کے رہنے والوں کو آگاہ کرنا بھی حکمت عملی کا حصہ ہونا چاہئے‘ منطقی مطالبہ ہے لیکن وفاقی اور صوبائی سطح پر قانون سازی کی عمومی روش یہی ہے کہ راتوں رات قوانین بن بھی جاتے ہیں‘ اُن میں ترامیم بھی کر دی جاتی ہیں اور عمل درآمد بھی شروع ہو جاتا ہے لیکن عام آدمی کو اِس کا علم نہیں ہوتا۔ 

پاکستان میں نجی ٹیلی ویژن چینلز کی وجہ سے یہ صورتحال کچھ تبدیل ضرور ہوئی ہے لیکن سیاست دانوں کے ایک دوسرے پر الزام تراشیوں پر مبنی مقابلے یا اُن کے بارے میں ضمنی موضوعاتی بحث ومباحثے قومی میڈیا پر حاوی دکھائی دیتے ہیں!

صوبائی حکومت قبائلی علاقہ جات کی اصلاحات کا اطلاق مرحلہ وار اور جامع بنیادوں پر چاہتی ہے تاکہ پائیدار نتائج حاصل ہوں۔ پہلے مرحلے میں قبائلی علاقہ جات کے لئے سات ’ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز‘ پچیس ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز‘ سات سنیئر سول ججز‘ پچیس سول ججز فراہم کئے جائیں جس کے لئے قریب 80 لاکھ روپے جبکہ اِن کے علاؤہ 64 ججوں کی تربیت کے لئے اضافی ایک کروڑ گیارہ لاکھ سے زائد کی رقم درکار ہوگی۔ عدالتوں کی عمارتیں (جوڈیشل کمپلیکسیز) بنانے کے لئے قریب سولہ کروڑ روپے کا ذکر بھی تفصیلی سفارشات میں کیا گیا ہے‘ چونکہ زیادہ تر سفارشات کا تعلق ’’مالی امور‘‘ سے ہے جو کہ اپنی جگہ ایک حقیقت ہیں تو اُمید کی جا سکتی ہے کہ خیبرپختونخوا حکومت کی جانب سے اِس ’توجہ دلاؤ نوٹس‘ کو نیک نیتی سے سمجھا جائے گا اور اِن تجاویز و سفارشات پر غور کرنے کے لئے مزید سو سال نہیں لگائے جائیں گے! 

قبائلی علاقوں کے رہنے والوں کی طرح خیبرپختونخوا اور ملک کے دیگر حصوں میں رہنے والے بھی ایک اعصاب شکن انتظار کی کیفیت سے گزر رہے ہیں‘ جس کی ہر لمحہ اذیت ناقابل برداشت حدوں کو چھو رہی ہے!

No comments:

Post a Comment