Sunday, January 7, 2018

TRANSLATION: Toxic marriage by Dr Farrukh Saleem

Toxic marriage
مہلک تعلقات!
پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات کے ادوار 70 سال پر محیط ہیں دونوں ممالک کے درمیان قربت اور تعلقات عدم توازن کا شکار رہے اور اگرچہ یہ تعلقات ’ایک دوسرے پر ’انحصار‘ جیسی دوطرفہ ضرورت کے تحت استوار ہیں لیکن پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات میں کسی نہ کسی درجے باہمی اعتماد کا فقدان رہا ہے۔ امریکہ کے نکتہ نظر سے پاکستان کی اہمیت اُس کے خطے میں اپنی حاکمیت اور وجود برقرار رکھنے کے لئے ایک ضروری ہے جبکہ پاکستان کے لئے امریکہ مالی و اقتصادی معاون سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔ دونوں ممالک کے درمیان اگرچہ کبھی بھی مثالی نہیں رہے لیکن اِنہیں منقطع کرنے کا بھی کبھی مرحلہ نہیں آیا۔

امریکہ کی جانب سے مالی سال دوہزار دو سے دوہزار اٹھارہ کے عرصے میں مجموعی طور پر ’33.927 ارب ڈالر‘ بطور ’دفاعی اخراجات‘ ادائیگیاں کی گئیں۔ اِن میں سیکورٹی سے جڑی مدوں میں 8.259 ارب ڈالر‘ اقتصادیات کے لئے 11.095 ارب ڈالر اور دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں اتحادی کے طور پر کردار ادا کرنے اور اِس عرصے میں ہوئے نقصانات کی تلافی کے لئے 14.573ارب ڈالر دیئے گئے۔ یہ تمام ادائیگیاں 28 نومبر 2017ء تک وصول ہوئیں۔ قابل ذکر ہے کہ بطور اتحادی پاکستان کو دی جانے والی ادائیگیاں اُن اخراجات کی مد میں ہوتی ہیں جو پاکستان اتحادی افواج کو سہولیات بہم پہنچانے یا اُن کے مقرر کردہ اہداف کے مطابق (امریکی منظوری سے) عسکری مہمات پر اپنے وسائل سے کرتا ہے اور بعدازاں یہ رقم ادا کی جاتی ہے۔ درحقیقت بطور اتحادی ملنے والی 75فیصد امداد ’اتحادی سپورٹ فنڈ‘ کا حصہ ہوتی ہے جبکہ پچیس فیصد باقی ماندہ امداد اقتصادی امور کے دی جاتی ہے۔

امریکہ اب تک افغانستان میں 714ارب ڈالر خرچ کر چکاہے۔ افغانستان میں امریکہ کی جنگ اُس کی تاریخ کی طویل ترین اور مہنگی ترین مہم ہے۔ لانگ وار جرنل نامی ایک تحقیقاتی اشاعتی ادارے کی حالیہ رپورٹ کے مطابق ’’طالبان افغانستان کے 45فیصد اضلاع پر یا تو قابض یا وہاں قابض ہونے کے لئے جنگ کر رہے ہیں۔‘‘

پاکستان میں ’’راہ نجات‘‘ نامی فوجی کاروائی کے ذریعے جنوبی وزیرستان (قبائلی علاقے کا) 6ہزار 619 مربع کلومیٹر حصے پر حکومتی عمل داری قائم کی گئی۔ ’’ضرب عضب‘‘ کے نام سے شمالی وزیرستان کا 4 ہزار 707 مربع کلومیٹر حصہ جبکہ بونیر‘ لوئر دیر‘ سوات اور شانگہ میں فوجی کاروائیوں سے بھی اِن علاقوں کو عسکریت پسندوں کی دسترس سے آزاد کرایا گیا جو پھیل چکے تھے۔ پاکستان کا بیانیہ (کہنا) یہ ہے کہ ہمارے ملک کا کوئی ایک بھی ایسا حصہ نہیں جہاں حکومت کی عمل داری قائم نہ ہو اور نہ ہی پاکستان میں ایسا کوئی بھی منظم عسکری گروہ ہے جو کسی ایک جگہ اپنا مرکز رکھتا ہو لیکن بدقسمتی سے پاکستان اپنے اِس بیانئے (مؤقف) کو دنیا کے سامنے پیش کرنے میں خاطرخواہ کامیابی حاصل نہیں کرسکا‘ جس کی وجہ سے عالمی سطح پر پاکستان کے بارے میں یہ گمراہ کن شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں کہ یہ دہشت گردوں کا مرکز ہے۔

خطرے کی بات یہ ہے کہ پاکستان کو داخلی طور پر عدم استحکام کا شکار کرنے کے لئے ایک عالمی سازش پر عمل درآمد ہو رہا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ پاک فوج کا ادارہ منظم و فعال ہے لیکن پاکستان کی اقتصادی صورتحال دگرگوں ہے۔ آئندہ بارہ کے دوران پاکستان کو کم سے کم چھ ارب ڈالر کی ادائیگیاں کرنا ہیں یہ وہ ادائیگیاں ہیں جو بیرون ملک قرضوں کی اقساط ادا کرنے کے لئے دینی ہیں۔ توقع ہے کہ رواں برس (دوہزاراٹھارہ) ماہ جنوری سے جون کے عرصے میں پاکستان کے کرنٹ اکاونٹ کا خسارہ قریب 8 ارب ڈالر ہو جائے گا۔ بائیس دسمبر دوہزار سترہ میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے پاس 14.1 ارب ڈالر کے ذخائر تھے اور آئندہ چھ ماہ کے بعد اسٹیٹ بینک کے پاس اِس رقم کا بھی نہایت ہی معمولی سا حصہ باقی رہ جائے گا‘ جو خطرناک اقتصادی صورتحال کی جانب بطور اشارہ عرض ہے۔

تصور کیجئے کہ پاکستان کا تجارتی خسارہ 35 ارب ڈالر ہو جائے گا۔ تصور کیجئے کہ پاکستان کے بجٹ کا خسارہ 2.2 کھرب روپے ہو جائے گا اور یہ حقائق امریکہ کے صدر ٹرمپ کے سامنے یقیناًہوں گے۔ مجھے کئی تجزیہ کاروں کو یہ کہتے ہوئے سننے کا اتفاق ہوا کہ پاکستان روس اور چین کے درمیان اقتصادی و دفاعی شعبوں میں اتحاد ہونا چاہئے لیکن کیا ایسا کوئی ممکنہ اتحاد پاکستان کے تجارتی خسارے کو کم کر پائے گا؟ کیا ماضی میں اس قسم کے سہ ملکی اتحاد کی کوششیں نہیں کی گئیں اور ان کا کیا نتیجہ برآمد ہوا۔

تصور کیجئے کہ امریکہ عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) اور عالمی بینک برائے تعمیرو ترقی کی فیصلہ سازی پر اثرانداز ہوتا ہے اور اِن مالیاتی اداروں میں امریکہ نے بڑی سرمایہ کاری کے عوض کنٹرول حاصل کر رکھا ہے۔ پاکستان چین کے ساتھ اپنی تجارت ’ڈالر‘ کی بجائے ’یوآن (چینی کرنسی)‘ میں کرنے کا خواہاں ہے لیکن کیا ایسا کرنے سے پاکستان کو قومی سطح پر درپیش آمدن و اخراجات میں (بجٹ) خسارے پر قابو پالیا جائے گا؟

18 دسمبر 2017ء کے روز ٹرمپ نے بطور صدرِ امریکہ اپنی پہلی قومی سلامتی حکمت عملی پیش کی‘ جس میں اُس نے چین کی اقتصادی و تجارتی ترقی کو بھی نشانہ بنایا۔ میرے خیال صدر ٹرمپ پاکستان و افغانستان کی بجائے پاکستان اور چین کو ایک خطرے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ یہ صورتحال محتاط ردعمل اور حالات پر نگاہ رکھنے کا ہے کیونکہ جب ہاتھیوں کی لڑائی ہوتی ہے تو اُس میں گھاس کچلی جاتی ہے۔ 

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیرحسین اِمام)

2 comments:

  1. Pakistan and the US have been in a 70-year relationship. It has been a toxic marriage, and toxic love; but also a mutually dependent relationship. The US has been dependent on Pakistan for its own strategic objectives while Pakistan’s dependence on the US has been more economic in nature. It has surely been an extremely troublesome marriage – but without a divorce.

    As of November 28, 2017, direct overt US appropriations for and military reimbursements to Pakistan have amounted to $33.927 billion (FY 2002-2018). Of this, the security-related amount is $8.259 billion, economic related $11.095 billion and Coalition Support Fund (CSF) reimbursements are $14.573 billion. For the record, CSF payments are, “reimbursements to Pakistan for expenses already incurred and compensation for facilities made available to the coalition forces….” In effect, 75 percent of all direct overt US appropriations have gone towards the CSF and security related reimbursements (the remaining 25 percent being economic related).

    The US has so far spent $714 billion in Afghanistan, according to the special inspector general for Afghanistan Reconstruction, making this war the “longest and one of the costliest military operations in United States’ history.” The most recent estimate from the Long War Journal (LWJ) is that the, “Taliban currently control 41 districts and contest an additional 118.” The LWJ has, “determined that 45 percent of Afghanistan’s districts are controlled or contested by the Taliban.”

    ReplyDelete
  2. In Pakistan, Operation Rah-e-Nijat established the government’s writ over 6,619 square kms of South Waziristan. Operation Zarb-e-Azb established the government’s writ over 4,707 square kms of North Waziristan. Operation Black Thunderstorm established the government’s writ over Buner, Lower Dir, Swat and Shangla.

    Our narrative is that there isn’t an inch of Pakistani territory that is not within the government’s writ. Our narrative is that there is no organised militant infrastructure on Pakistani territory. But we, as a country, have miserably failed to sell our narrative.

    Red alert: There’s an international conspiracy to create chaos, instability and mayhem in Pakistan. I am convinced that we are militarily quite secure. Our vulnerability really lies in the economic domain. In the next 12 months, Pakistan has to pay back at least $6 billion to foreign creditors. Between January and June, Pakistan’s current account deficit is expected to be around $8 billion. As of December 22, 2017, net dollar reserves with the SBP were $14.1 billion. Please do the simple math and in about six months the SBP will be left with very little. That’s scary to say the least.

    Imagine, our trade deficit is going to be $35 billion. Imagine, our budget deficit is going to be Rs2.2 trillion. Yes, Trump knows that. I hear analysts talk about an Islamabad-Beijing-Moscow nexus. Will the nexus fill our trade deficit? Have they ever done it in the past? What will they ask for in return?

    Imagine, the US has 831,407 votes at the IMF. Yes, Trump knows that. The US has 385,197 votes at the International Bank for Reconstruction and Development. Yes, Trump knows that. I hear that the SBP has made arrangements for using the yuan for bilateral trade. Will the issuers of the yuan fill our budget deficit? Have they ever done it in the past? What will they ask for in return?

    On December 18, 2017, Trump presented his first National Security Strategy (NSS). The NSS is China-centric and considers China a ‘revisionist’ power. I think that Trump’s latest Twitter outburst is more about Pakistan-China than about Pakistan-Afghanistan. Our 70-year old addiction to toxic love will die hard. Pakistan must, therefore, tread carefully because ‘when elephants fight, it is the grass that suffers’.

    ReplyDelete